تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     24-03-2020

غور و فکر کا وقت

حالیہ کچھ دنوں میں کوروناوائرس کے پھیلائو نے ہم پر اپنے ہی بارے میں ایک پریشان کن حقیقت آشکار کر دی ہے کہ ہماری نوع اور ہمارا طرز زندگی کھوکھلے ہیں۔ ناقابلِ تسخیر ہونے کی ملمع کاری کے باوجود ہم ایسے لوگ ہیں جن کی کل حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک جرثومے کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ یہ کہ ہماری انفرادی زندگیاں اور ہمارے اجتماعی نظام جان لیوا حد تک کمزور ہیں اور یہ کہ ہمارے تخیل کی بے باکیاں اور سائنسی معجزے ہو سکتا ہے ہمیں ستاروں تک پہنچا دیں‘ ایٹم کو تقسیم کر دیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم اس لا محدود زمان و مکاں میں اَن گنت آفات و حوادث کے سامنے لاچار ہیں۔آئیے کچھ حقائق پر نظر دوڑائیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ پچھلے کچھ ہفتوں میں کیا کچھ بیت چکا ہے۔ دسمبر 2019ء میں ووہان سے نمودار ہونے والا کورونا وائرس (کووِڈ۔19) اب ایک سونوے کے قریب ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس سے لاکھوں لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت سے تصدیق شدہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اب تک اس وائرس سے متاثر تین لاکھ اکتالیس ہزار کنفرم کیس سامنے آ چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ متاثرین کی حقیقی تعداد نہیں ہے‘ ان کی حقیقی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت کا تو اس حوالے سے ٹیسٹ کیا ہی نہیں جا سکا۔ اس عالمی وبا کے پھیلائو کی ایک جھلک تو اس حقیقت میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا اعتراف خود ڈبلیو ایچ او نے کیا ہے کہ اس وبا سے متاثر ہونے والوں کی شرح اس کے ٹیسٹ کیے جانے کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر مارچ کی چھ سے تیرہ تاریخ کے دوران روزانہ کوروناوائرس کے سامنے آنے والے کیسوں کی شرح اسی عرصے میں کیے جانے والے ٹیسٹوں کی نسبت تقریباً دگنی تھی ۔
معاشی محاذ پر‘ جدید دنیا عملاً جامد ہو چکی ہے۔ سفری صنعت تقریباً مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔ رسد کا سلسلہ درہم برہم ہے اور اس کی وجہ سے عالمی درآمدات اور برآمدات کا سارا نظام چوپٹ پڑا ہے۔ بڑی کارپوریشنیں‘ جو دنیا کی کئی سٹاک مارکیٹس میں کاروبار کرتی تھیں‘ ان کے بارے میں اندازہ ہے کہ انہیں اس برس کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً دس ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ صرف گزشتہ ہفتے کے دوران ہی ڈائو جونز انڈیکس اپنی مجموعی مالیت کا ایک تہائی گر چکا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ معاشی محاذ پر پھیلی اس افراتفری اور اتار چڑھائو کا بڑاسبب تیل کی مارکیٹ کا گرجانا ہے‘ جمعہ کے روز یہ بیس امریکی ڈالر فی بیرل سے کم کی سطح پر پہنچ چکی تھی۔ توقع کی جارہی ہے کہ قیمتوں میں آنے والی اس گراوٹ کے نتیجے میں تیل کی صنعت ایک پیداواری تنظیم نو سے گزرے گی‘کمپنیوں اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے لیے تیل کی نفع مند تجارت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قیمت پچاس ڈالر فی بیرل کی رینج میںہو۔پاکستان بھی عالمی سطح پر آنے والے اس سٹرکچرل بھونچال کے جھٹکوں کی زد میں ہے۔ تادمِ تحریر‘پاکستان میں کوروناوائرس کے کنفرم کیس آٹھ سو سے بڑھ چکے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ متاثرین کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے پانچ لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ اکثریت کے بارے میں امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ لوگ صحت یاب ہو جائیں گے۔ دنیا کے بڑے حصے کی مانند پاکستانی معیشت بھی عالمی سطح پر پھیلی اس کساد بازاری سے متاثر ہوہو رہی ہے۔ چونکہ حکومت سماجی میل جول کی حوصلہ شکنی کی کاوشوں میں جُتی ہے اس لیے معاشی سرگرمی کا بڑا حصہ رک گیا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کساد بازاری کے اثرات ختم ہونے کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔
اب تک کوروناوائرس سے نمٹنے کے لیے کوئی علاج دستیاب نہیں ہو سکا۔ مختلف نوعیت کی ادویات پر تجربات ابتدائی مراحل میں ہیں ‘ مگر ابھی تک کوئی علاج سامنے نہیں آسکا۔ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ کچھ چینی جڑی بوٹیاں‘ جنہیں ایک خاص قسم کے سوپ میں شامل کیا جاتا ہے‘ کی وجہ سے چین میں لوگوں کو صحت یابی میں بہت مدد ملی (دنیا کا واحد ملک جو یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ وبائی مرحلے سے نکل گیا ہے)۔ اس کے علاوہ ملیریا کے انسداد کے لیے استعمال ہونے والی دوا کے بارے میں بھی باتیں گردش میں ہیں کہ اس سے بھی کوروناوائرس کے مریضوں کو صحت یاب ہونے میں بہت مدد ملتی ہے‘ تاہم ابھی تک ایسا کوئی علاج سامنے نہیں آ سکا جس کی تصدیق دنیا بھر میں صحت کے مستند اداروں نے کی ہو۔
ان غیر معمولی پیشرفتوں اور اس وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں افراد اور ان کے کاروبار جمود کا شکار ہوچکے ہیں۔ عالمی سرحدیں بنداور ہر طرح کی سفری پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی بڑی تعداد گھروں میں بند ہو جانے کو ترجیح دے رہی ہے اور اس کی وجہ سے تمام انسانی میل جول اور تجارتی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔کیا کچھ ہفتے پہلے تک کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ ہم اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہو جائیں گے؟ کیا کسی نے سوچا تھا کہ ایک وائرس عالمی مشین کا پہیہ روک دے گا؟ کون تصور کر سکتا تھا کہ کعبہ کا صحن اور ویٹی کن کا احاطہ خالی ہو جائیں گے اور مسجد نبوی ﷺ کے صحن اور نیو یارک شہر میں کارپوریٹ دفاتر بیک وقت خالی دکھائی دیں گے؟ اور کیا ہم نے سوچا تھا کہ ہم اپنے قریب ترین عزیز و اقارب سے ہی خوف میں مبتلا ہوجائیں گے؟کیا ہمارے خیال میں بھی یہ بات آئی تھی کہ چند دن پہلے تک جو معاملات ہمارے اجتماعی وجود کے لیے نہایت اہمیت کے حامل تھے وہ یکلخت غائب ہو جائیں گے؟ چند ہفتے پہلے تک ایران اور امریکہ کے مابین جنگ چھڑنے کے امکانات کہاں گئے؟ سعودی شاہی خاندان میں پھوٹ پڑنے والی بغاوت کی خبروں پر کون غور کر رہا ہے؟ یا صدر ٹرمپ کے مواخذے کی فکر کسے ہے؟ کیا اب بھی مودی جنوبی ایشیا میں ایک نیو کلیئر جنگ شروع کرنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہا ہے؟
کسی کو کچھ علم نہیں ہے کہ آنے والے دنوں یا مہینوں میں یہ وبا کیا شکل اختیار کرنے والی ہے۔ جدید دنیا‘جو چند ہفتے پہلے تک ناقابلِ تسخیر دکھائی دیتی تھی‘ اب اپنے پیروں پر گری نظر آتی ہے۔ ہماری سائنس‘ ہماری اجتماعی دولت ‘حتیٰ کہ ساری انسانی ہُنر مندی مل کر بھی اب تک تو ہمیں اس بد ترین خوف سے نجات دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔سو‘ اب ہمارے پاس کیا چارہ ہے؟ہم کیا کر سکتے ہیں؟ یقینا ہمیں اپنی اجتماعی سائنسی دانش کے ساتھ علاج کی کھوج جاری رکھنی چاہیے۔ یقینا ہمیں ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کی مکمل طور پر پیروی کرنی چاہیے اور ایسے میل جول سے پرہیز کرنا چاہیے جس کی وجہ سے اس بیماری کے پھیلائو میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور ممکنہ حد تک ہمیں اُن لوگوں کی مدد کرنی چاہیے جو اس کڑے وقت میں (معاشی) مسائل سے الجھ رہے ہیں۔ لیکن شاید اہم ترین کام یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں‘ جب ہمارے پاس سماجی دوری کی وجہ سے بہت سا وقت اپنی ذات کے لیے دستیاب ہو گا تو ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ یہ سب کچھ حقیقت میں تھا کیا: ایک یاد دہانی کہ بنی نوع انسان‘ اپنی تمام تر ترقی و کامرانیوں کے باوجود اب بھی ایک حقیر سی نوع ہے۔ اور ہم جن حقیر معاملات میں پھنسے ہوئے تھے وہ نہایت ہیچ قسم کے تھے۔ ہمارے وجود کے متعلق واحد یقینی شے موت ہے اور یہ کہ چیزوں کے آخری تجزیے میں ثابت یہ ہوتا ہے کہ ہم صرف دعائوں کے بل پر زندہ ہیں۔
دعا...ہا ں اس کا وجود ہے۔ دعا...ایک ایسا خیال جو ہمارے وجود کو جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو ہمارے زمانے کے بہت سے لبرلز کو طیش دِلا دیتا ہے‘ ان کے خیال میں وہ اپنی قسمت کے خود مالک ہیں‘مگر دعا ایک ایسا تصور ہے کہ جو یہ حقیقت ہم پر آشکار کرتا ہے کہ اپنے تمام تر سائنسی معجزوں کے باوجود ہم ایک حقیر سی شے کے سوا کچھ نہیں ۔ ایک ایسی نوع جوامید اور خوف کے ساتھ آسمانوں کی جانب دیکھ رہی ہے۔ قرنطینہ کے ان دنوں میں‘ اگر آپ کی جھوٹی انا اس میں رکاوٹ نہ بنے‘ کچھ وقت دعا کے لیے نکالیے۔ ناگزیریت کے اس غیر یقینی خیال پر غور کیجیے گا جو ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں سے وابستہ ہے۔ اور ایسے لمحات میں اگر آپ کی انا ٹوٹ جائے‘ جسے ٹوٹ ہی جانا چاہیے‘ تو جھک جانے کے لیے وقت ضرور نکالیے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved