فواد احمد‘ جگت بازی سے پرہیز کریں: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ رفیق احمد نے کہا ہے کہ ''فواد احمد جگت بازی سے گریز کریں‘‘ کیونکہ پھیکی جگت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ بلکہ اس سے منہ کا ذائقہ مزید خراب ہو جاتا ہے‘ جبکہ ضمانت کے بعد منہ کا ذائقہ بڑی مشکل سے ٹھیک ہوا ہے‘ لیکن یہ بھی ہے کہ منہ کا ذائقہ اگر ٹھیک ہونے لگتا ہے تو نیب کوئی نہ کوئی نیا کیس کھڑا کر دیتی ہے اور میاں شہباز شریف کے لندان جانے کے بعد جو نئے کیس بنائے گئے ہیں ‘وہ ان کے منہ کا ذائقہ خراب کر دیں گے‘ جبکہ بڑے میاں صاحب نے پرہیزی کھانوں سے منہ کا ذائقہ برقرار رکھا ہوا ہے اور میاں شہباز شریف نے ان کے بارے میں جو رپورٹ آ کر دی ہے‘ کافی تشویشناک ہے ‘کیونکہ پہلے ان کی بیماری کے مسائل درپیش تھے‘ لیکن اب وہاں لوگوں کو ان کی تندرستی کے مسائل نے پریشان کر رکھا ہے اور جب جی چاہے کسی نہ کسی کو دھو دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر فواد احمد سے مخاطب تھے۔
حکومت اور سیاسی جماعتوں کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت اور سیاسی جماعتوں کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے‘‘ اور آئندہ جب کبھی غلطی کی کوئی گنجائش ہوئی تو میں انہیں بتا دوں گا؛ اگرچہ میری غلطیوں کی گنجائش کے بارے کوئی مجھے نہیں بتاتا اور میں غلطی پر غلطی اور تقریر پر تقریر کرتا چلا جاتا ہوں اور تقریر الحق ہو کر رہ گیا ہوں‘ تاہم اگر مجھے اور کوئی کام ہی نہیں ہے تو میں تقریر نہ کروں تو اور کیا کروں؟ جبکہ مجھے تو عوام کو خبردار بھی نہیں کرنا پڑتا اور تقریر جھاڑ دیتا ہوں‘ کیونکہ وہ پہلے سے ہی گوش برآواز ہوتے ہیں اور میں ناغہ اس لئے بھی نہیں کرتا کہ لوگ پریشان ہوں گے‘ کیونکہ وہ بھی اب عادی ہو چکے ہیں؛ حالانکہ کسی مصیبت کی پیشگی اطلاع دینی چاہیے ‘جبکہ حکومت کی فاش غلطی تو یہ ہے کہ میری تقریروں کا کوئی فوگس ہی نہیں لے رہی۔ آپ اگلے روز منصورہ میں آئسولیشن کے 160بستروں کے افتتاح کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کو ذاتیات سے باہر نکلنا ہوگا: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ'' عمران خان کو ذاتیات کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا‘‘ کیونکہ اگر کسی نے چار پیسے بنائے بھی ہیں‘ تو وہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے‘ جس میں دخل اندازی کسی طور بھی درست نہیں‘ جو کہ اُن کے خون پسینے کی کمائی ہے؛ اگرچہ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اس کمائی کا خون اور پسینے سے کیا تعلق ہے‘ کیونکہ یہ کمائی تو بس آرام آرام سے ہی کر لی گئی تھی اور خون پسینے کو اس کی کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ اس لئے لگتا ہے کہ اس محاورے ہی میں کوئی نقص ہے‘ یہ کیا بلکہ ہر محاورہ ہی اسی طرح اوٹ پٹانگ ہوتا ہے‘ جس کا حقائق کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا‘ اسی طرح لوٹ مار کا محاروہ بھی ہے جو ان پیسوں کے ضمن میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ نہ یا لوٹ ہوتی ہے نہ مار‘ بلکہ آرام سے اس معاملہ کو توڑ چڑھایا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں عمران خان کے خطاب پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
امید ہے کہ اتحادسب کیلئے یادگار ثابت ہوگا: خالد مقبول صدیقی
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینیر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ''امید ہے کہ اتحاد سب کیلئے یادگار ثابت ہوگا‘‘ بلکہ اس کیلئے کوئی یادگار بھی قائم کرنی چاہیے‘ جو ایک مینار کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے‘ تاکہ لوگ اسے دیکھ دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے رہیں‘ جبکہ میرا وزارت میں واپس آنا بجائے خود ایک یادگار کی حیثیت رکھتا ہے‘ جس طرح میرا وزارت سے استعفیٰ ایک یادگار کارنامہ تھا‘ جس کے بارے میں مخالفین کا یہ کہنا تھا کہ یہ صرف ایک ڈراما ہے اور میں دوبارہ وزارت قبول کر لوں گا‘ تاہم یہ مزید یادگار اس لیے بھی ہو گیا کہ اب میرے علاوہ فیصل سبزواری اور امین الحق بھی کابینہ کا حصہ بنیں گے اور حسب ِ ضرورت یہ بھی کسی مناسب وقت پر مستعفی ہوں گے اور جونہی قومی مفاد کا تقاضا ہوگا استعفے واپس لے کر پھر کابینہ کا حصہ بن جائیں گے‘ جبکہ ان کا یہ عمل بھی یادگار ہوگا۔ آپ اگلے روز کراچی میں گورنر سندھ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سہ ماہی ''سخن‘‘ میں سے شہزاد بیگ کا منتخب کردہ ثناء اللہ ظہیر کا کلام:
تمہارے سامنے سچ بولنے سے رُک گئے ہیں
ہمیں بتاؤ تمہیں اور کیا پسند نہیں
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مُبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
میرا یہ دُکھ کہ میں سکہ ہوں گئے وقتوں کا
تیرا ہو کر بھی ترے کام نہیں آ سکتا
تُو ملا ہے تو گئی عمر پلٹ آئی ہے
کتنا لڑکا سا میں اندر سے نکل آیا ہوں
لوگ دیکھیں گے ترے دل سے نکلنا میرا
دیوتا ہو کے میں پتھر سے نکل آیا ہوں
کہانی پھیل رہی ہے اُس کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
میں آسمان پہ اُڑنے کے خواب دیکھتا ہوں
کہ اک خلا مرے اندر بھی رہ چکا ہے کبھی
دروازہ سجا ہُوا ہے اتنا
دستک کے لیے جگہ نہیں ہے
یہ رائگانی بھی کیا خُوب ہے زمیں کی طرح
پڑے پڑے ہی مرے دام بڑھتے جاتے ہیں
آج کا مطلع
کیا کیا گلاب کِھلتے ہیں اندر کی دُھوپ میں
آ مِل کے مجھ سے دیکھ دسمبر کی دُھوپ میں