تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     24-03-2020

زمین سے عرش معلی تک کا سفر !

مورخ ابن ہشامؒ‘ علامہ حافظ ابن کثیرؒ‘ سیرت نگار ابن سعد اور دیگر تمام مستند مورخین نے اپنی کُتب ِ تواریخ میں واقعہ معراج بڑی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مورخین ابن اسحاق کے مطابق‘ حضرت ابو سعید خدریؒ فرماتے ہیں:'' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا‘ آپؐ نے فرمایا کہ جب میں بیت المقدس میں عبادت سے فارغ ہوا تو میرے سامنے ایک سیڑھی پیش کی گئی۔ وہ اتنی خوب صورت تھی کہ میں نے زندگی بھر اس سے حسین تر چیز کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مجھے میرے ساتھی [جبریل امینؑ] نے اس پر چڑھایا‘ یہاں تک کہ بلندیوں کی طرف اس سفر کے اختتام پر ہم آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر جا پہنچے۔ اس دروازے کا نام باب الحفظہ (حفاظتی دروازہ) بتایا گیا۔ اس دروازے پر جو فرشتہ نگران ہے‘ اس کا نام اسماعیل ہے۔ اس کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے خدمات انجام دیتے ہیں اور پھر ان بارہ ہزار فرشتوں میں سے ہر ایک کے تابع مزید بارہ ہزار فرشتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک بیان کر چکے تو راوی کہتے ہیں کہ آپؐ نے ہمیں قرآن پاک کی آیت تلاوت کر کے سنائی: وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ الَّا ھُوَ۔ (المدثر ۷۴:۳۱) اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ فرشتوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس نورانی مخلوق کو اللہ تعالیٰ جو کام بھی سونپتا ہے‘ وہ اسے بحسن و خوبی سرانجام دیتے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: جب ہم اس فرشتے (اسماعیل) کے قریب پہنچے تو اس نے کہا: اے جبریلؑ آپ کے ساتھ کون ہے؟ جبریلؑ نے جواب دیا: ''محمدؐ‘‘۔ پھر اس نے پوچھا کیا انہیں دعوت دی گئی ہے؟ جبریلؑ نے کہا: ہاں۔ اس پر اس فرشتے نے مجھے خیروبھلائی کی دعائیں دیں۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی آپؐ کے لیے دروازہ کھول دیا گیا اور آپؐ آسمان دنیا میں داخل ہو گئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ وہاں بھی مجھے جو بھی فرشتہ ملا‘ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے خوش خبریاں سنائیں اور مجھے خیروبھلائی کی دعائیں دیں۔ ہر فرشتہ خوش و خرم اور مسکراہٹوں کے ساتھ استقبال کرتا رہا۔ یہاںتک کہ ایک مختلف نوعیت کے فرشتے سے آمنا سامنا ہوا۔
جب اس خاص فرشتے سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے بھی خیروبھلائی کی دعا دی‘ لیکن اس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی‘ جو باقی تمام فرشتوں کے چہروں پر میں نے دیکھی۔ میں نے جبریلؑ سے پوچھا کہ اے جبریل یہ کون سا فرشتہ ہے کہ جس نے مجھے دعائیں تو دیگر فرشتوں کی طرح دی ہیں‘ لیکن ان کی طرح نہ مجھے دیکھ کر وہ ہنسا ہے‘ نہ مسکرایا ہے۔ جبریلؑ نے کہا: یہ آپؐ سے پہلے کسی سے ملاقات میںمسکرایا ہے اور نہ آپؐ کے بعد کبھی مسکرائے گا۔ اگر اسے مسکرانے کی اجازت ہوتی تو آپؐ کا استقبال کرتے ہوئے آج یہ ضرور مسکراتا۔ اس فرشتے کا نام مالک ہے اور یہ دوزخ کا داروغہ ہے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس مخصوص فرشتے کا یہی نام لے کر آخرت میں وقوع پذیر ہونے والا ایک ہولناک واقعہ بیان فرمایا ہے:
وَنَادَوْا یَامَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ انَّکُمْ مَّاکِثُوْنَ۔ (الزخرف ۴۳:۷۷)وہ (اہلِ جہنم) پکاریں گے‘ اے مالک! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے۔ وہ جواب دے گا کہ تم یوں ہی پڑے رہو گے۔ (اب موت یا اس زندگی کے خاتمے کی کوئی صورت ممکن نہیں)۔ اس کیفیت کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے: ثُمَّ لَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْییٰ (الاعلیٰ ۸۷:۱۳)۔ پھر نہ اس (آگ) میں مرے گا نہ جیے گا۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں آسمان دنیا میں داخل ہوا تو وہاں ایک بزرگ شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے سامنے تمام بنی آدم کی روحیں پیش کی جا رہی تھیں۔ جب کچھ روحیں پیش کی جاتیں تو ان کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے آثار نظر آتے اور وہ فرماتے: رُوْحٌ طَیِّبَۃٌ خَرَجَتْ مِنْ جَسَدِ طَیِّبٍ۔ پاکیزہ روح پاکیزہ جسم سے نکل کر آئی ہے۔ جب کچھ روحیں پیش کی جاتیں تو ان کے چہرے پر بہت غم اور افسوس کے آثار ظاہر ہوتے اور وہ فرماتے: رُوْحٌ خَبِیْثَۃٌ خَرَجَتْ مَنْ جَسَدِ خَبِیْثٍ۔ یعنی ناپاک روح ناپاک جسم سے نکل کر آئی ہے۔میں نے پوچھا: جبریل! یہ بزرگ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ھٰذَا اَبُوْکَ آدَمؑ۔یہ آپ کے بابا آدمؑ ہیں۔ ان کے سامنے ان کی اولاد کی ارواح پیش کی جاتی ہیں تو انہیں افسوس ہوتا ہے اور وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تمام انسانوں کے والد ایک ہی ہیں‘ خواہ کوئی نیک و پارسا ہو یا بدعمل و بدقماش۔ باپ کواپنی اولاد کی خوش نصیبی پر مسرت ہوتی ہے اور بدبختی پر افسوس۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔
پہلے آسمان کے بعد جبریلؑ نے مجھے کہا: محمد! آئو دوسرے آسمان پر چلیں؛چنانچہ ہم اوپر کی طرف چل پڑے‘ وہاں پہنچے اور پہلے آسمان کی طرح اجازت لے کر دروازے کے اندر داخل ہوئے تو میں نے دو نو عمر خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ عیسیٰ ابن مریمؑ اور یحییٰ بن زکریاؑ ہیں‘ اسی طرح آپؐ نے ہر آسمان پر جانے کا تذکرہ فرمایا۔ تیسرے آسمان پر پہنچے تو آپؐ فرماتے ہیں‘ میں نے وہاں دیکھا: رَجُلٌ صُوْرَتُہ کَصُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الُبَدْرِ۔ کہ ایک حسین و جمیل شخص ہے جس کی صورت چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔ میں نے جبریلؑ سے ان کے بارے میں پوچھا تو جبریلؑ نے جواب دیا: یہ آپ کے بھائی یوسف بن یعقوب علیہما السلام ہیں۔
حضرت یوسفؑ کے مکمل حالات پر مشتمل مکی سورۃ کا نام بھی ان کے اسم گرامی پر رکھا گیا ہے۔ اس سورت کی تلاوت کرتے ہوئے سیدنا یوسفؑ کی شخصیت کا مکمل تعارف سامنے آ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نبی کو بھی ناقابل بیان آزمائشوں سے گزارا۔ بھائیوں کا ظلم و ستم۔ گھر اور خاندان سے دوری‘ جلاوطنی اور غلامی‘ جھوٹے الزام اور اتہام کے نتیجے میں جیل یاترا‘ سبھی منازل ایک کڑی آزمائش تھی۔ اللہ کا سچا نبی ہر میدان میں پوری طرح ثابت قدم رہا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے امتحان و ابتلا کا دور ختم کر کے انعامات سے نوازا۔ ہر دور میں خواہ مشکلات و غلامی میں تھے یا راحت و اقتدار میں‘ ان کی شخصیت اپنی عظمت کا سکہ منواتی نظر آتی ہے۔ اپنے ساتھ ظلم کرنے والوں کو معاف کرنا اور انعامات سے نوازنا سیدنا یوسفؑ کی زندگی میں اسی طرح نظر آتا ہے‘ جس طرح خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے ایمان افروز مظاہر نظر آتے ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں سے فرمایا تھا کہ میں آج تم سے ویسا ہی سلوک کروں گا‘ جیسا میرے بھائی یوسفؑ نے اپنے برادران کے ساتھ کیا تھا‘ پھر سب کو معاف فرما دیا۔
ارشاد فرمایا:اس کے بعد جبریلؑ مجھے چوتھے آسمان پر لے گئے۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک بزرگ ہستی کو دیکھا اور جبریلؑ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ حضرت ادریسؑ ہیں۔ اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی آیت پڑھی: اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو۔ وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ اور اسے ہم نے بلند مقام پر اٹھایا تھا۔ (مریم: ۵۶۔۵۷) آپؐ نے اس آیت کی تلاوت کے بعد کہا: واقعی قرآن پاک کی آیت کے مطابق ‘ان کا رتبہ بلنداور مقام رفیع نظر آ رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس کے بعد مجھے جبریلؑ پانچویں آسمان پر لے گئے۔ وہاں پر میں نے دیکھا کہ ڈھلتی ہوئی عمر کے ایک بزرگ ہیں ‘جن کا سر اور ڈاڑھی سفید ہے۔ اپنی لمبی ڈاڑھی کے ساتھ وہ اتنے خوب صورت نظر آ رہے تھے کہ میں نے زندگی بھر کوئی بزرگ ان سے زیادہ خوب صورت نہ دیکھا۔ میں نے جبریلؑ سے ان کے بارے میں پوچھا: انہوں نے فرمایا: یہ حضرت ہارونؑ بن عمران ہیں‘ جو اپنی قوم کے محبوب تھے‘ پھر ہم چھٹے آسمان پر گئے۔ وہاں پر ایک گندمی رنگ کے طویل القامت شخص نظر آئے‘ جن کے جسم پر گھنے بال تھے۔ مجھے ایسے لگا جیسے وہ عرب کے قبیلہ شنوئہ میں سے ہیں۔ ان کے متعلق میں نے پوچھا تو جبریلؑ نے کہا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ بن عمرانؑ ہیں‘ جن کو کلیم اللہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس کے بعد جبریلؑ مجھے ساتویں اور آخری آسمان پر لے گئے۔ وہاں پر ایک بزرگ مجھے نظر آئے جو بیت المعمور کے دروازے کے قریب ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں‘ جو سب کے سب قیامت کے دن تک اس کے اندر مقیم رہیں گے۔ اس بزرگ کی مشابہت تمہارے دوست کے ساتھ اور تمہارے دوست کی مشابہت اس کے ساتھ ایسی تھی کہ کسی اور کی مشابہت کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ جبریلؑ نے جواب دیا: ہذا ابوک ابراہیم۔ یہ آپ کے جد گرامی عزت مآب حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ ابراہیم خلیل اللہ اور محمد رسول اللہ ‘دونوں ایک دوسرے سے مکمل مشابہت رکھتے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved