کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک باپردہ خاتون اپنے صحن میں بیٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اُس نے پوچھا :کون ہے؟
آواز آئی: میں حافظ ہوں۔(حافظ صاحب نابینا تھے)
خاتون نے کہا کہ حافظ جی! ہوڑہ کھول کر اندر آ جائیں اور ہوڑہ بند کرتے آئیں۔ میں ذرا ایک کام میں مصروف ہوں۔
حافظ صاحب صحن میں آ کر اس چار پائی پر بیٹھ گئے۔
حافظ صاحب کافی دیر صحن میں بیٹھے رہے۔ خاتون خانہ اپنے کام انجام دیتی رہی اور فارغ ہو کر اندر سے ایک پیڑھی لا کر حافظ صاحب کے سامنے بیٹھ گئی اور بولی:اب بتائیں حافظ جی‘ کیسے آنا ہوا؟
تو حافظ جی نے کہا: ''بی بی میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میری آنکھیں ٹھیک ہو گئی ہیں‘‘۔
میں بھی آپ کو کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں‘ لیکن باری باری۔ میں نے کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
ابھی جو سو کے اُٹھا ہوں تو کچھ نہیں موجود
زمیں کدھر گئی ہے‘ آسماں کہاں گیا ہے
تین چار ماہ کے بعد فارم ہاؤس پر واپسی ہوئی ہے تو ایسا لگا ہے کہ یہاں بھی بہت کچھ موجود نہیں۔ کنّوں اور مسبی کے وہ نصف درجن پودے یکسر غائب ہیں ‘جنہیں دیکھ دیکھ کر میں اپنی آنکھیں روشن رکھتا تھا۔خاص طور پر ان پر لگے پھل‘ جنہوں نے پکنے کے بعد ایک طوفانِ رنگ مچا رکھا ہوتا تھا۔ پتا چلا کہ اُنہیں یہاں سے اُکھاڑ کر تھوڑے فاصلے پر واقع سٹوڈیو کے احاطے میں لگا دیا گیا ہے‘ تاکہ یہاں لان کھلا کھلا معلوم ہو۔
انتظار حسین سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ بھارت میں کیا چھوڑ کر آئے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہاں تاج محل چھوڑ آیا ہوں اور ایک درخت ۔ میراان پیڑوں کے ساتھ انتظار حسین جیسا گہرا تعلق تو شاید نہ ہو‘ لیکن کم بھی نہیں تھا کہ میں ان سے باتیں کیا کرتا تھا؛ حتیٰ کہ لیموںکے پودوں کو بھی تراش کر برابر کر دیا گیا ہے‘ تاکہ دوبارہ پھوٹ کر نکلیں۔ ایک اور شعر سنیے : ؎
شعر پھیکا ہی رہا‘ اس پہ ‘ ظفرؔ
دل کا لیموں بھی نچوڑا میں نے
سو‘ اب یہاں دل کا لیموں ہی رہ گیا ہے‘ جس میں وہ اگلا سا رس بھی نہیں رہا۔ جن چڑیوں کے ساتھ میری زیادہ ہمدمی تھی‘ ان کا بھی کہیں نام و نشان نہیں ہے‘ ماسوائے دو کالی چڑیوں کے‘ جنہیں شاید کلچڑی کہا جاتا ہے اور جن کا رنگ کالا تو نہیں‘ گہرا نسواری ہوتا ہے؛ البتہ ایک سرخاب دیوار پر بیٹھا نظر آیا‘ یعنی ایں ہم غنیمت است۔
دوسری تشویش انگیز اطلاع یہ ہے کہ آفتاب نے گھر میں اخبارات کا داخلہ بند کر دیا ہے کہ کورونا وائرس کے ان کے ذریعے آنے کے خدشات زیادہ ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ سرخیاں ہی نہیں ہوں گی‘ تو متن کہاں سے آئے گا؟ اس لئے زیادہ تر باتیں اب اِدھر اُدھر ہی کی ہوں گی۔ مجید نظامی مرحوم کہا کرتے تھے کہ کالم تو وہ ہوتا ہے ‘جو کسی موضوع کے بغیر ہو۔صحافی یا کالم نگار کے لئے اخبار تو ایک طرح سے ہوا کی حیثیت رکھتا ہے ‘جس میں وہ سانس لیتا ہے‘ جبکہ کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ : ؎
میں سانس لے نہیں سکتا‘ ہوا رکاوٹ ہے
رُکا ہوا ہوں کہ خود راستا رکاوٹ ہے
لیکن یہ سب بھی کہنے کی باتیں ہیں کہ ہوا تو ہوا ہی ہوتی ہے‘ جس کے بغیر آپ سانس لے ہی نہیں سکتے۔
ایک اچھی تبدیلی‘ البتہ یہ نظر آئی ہے کہ کچن کے قریب جو جگہ خالی تھی۔ آفتاب نے اس پر 12x24فٹ اپنا جم تعمیر کروا دیا ہے‘ جس میں دیواروں کی بجائے آر پار شیشہ لگا ہے اور جس میں ورزش کے سامان کے علاوہ ٹیبل ٹینس کے لیے ایک میز سی لگا دیا گیا ہے۔ شیشوں کی وجہ سے ہمسائے میں لان پر لگی سر سبز گھاس بھی نظر آتی ہے‘اسے ایک اضافی عیاشی بھی کہہ سکتے ہیں۔
اور‘ اب آخر میں ضمیرؔ طالب کی شاعری:
خود سے جو وعدہ کیا تھا بس وہی توڑا ہے میں نے
آپ کو کیا‘ آپ کا تو کچھ نہیں پھوڑا ہے میں نے
اب کے دیکھیں کونسی صورت میں آتا ہے ضمیرؔ
روز وہ چہرہ نیا لیکر ہی آیا کرتا ہے
میں اپنے طریقے سے کرتا ہوں بات‘ اور
وہ اپنے طریقے سے سنتا نہیں ہے
جو تھا وہ تو رہا ویسے کا ویسا‘ اور
لگا ہے روگ اک نیا مجھ کو دوائی سے
ملاقاتوں سے جو حل ہو نہیں پایا
ہُوا حل مسئلہ آخر جدائی سے
اداؤں سے تو بچتا آ رہا تھا میں
مگر دل لے گیا وہ کج ادائی سے
کبھی ملتا نہیں کچھ شور کر کے بھی
کبھی مل جاتا ہے سب بے صدائی سے
آؤ کسی پر مر ہی جائیں
جینے کو تو عمر پڑی ہے
ذرا دوری سے بھی لگ جاتے ہیں دونوں
کورونا اور محبت ایک جیسے ہیں
مانگ بیٹھا ہوں معافی جن جن کی
سوچتا ہوں وہ خطائیں تو کر جاؤں
آج کا مقطع
آنا جانا‘ ظفرؔ‘ اس طرح نہیں تھا مشکل
تھی جو دیوار تو دیوار میں در ہوتے تھے