تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     26-05-2013

انتظار حسین اور عالمی ادبی ایوارڈ

عالمی سطح پر دیے جانے والے ادبی ایوارڈز کی خبر کو ہمارے ادبی حلقوں میں دلچسپی سے سنا جاتا ہے‘ اس لیے کہ ادب کسی بھی زبان میں تخلیق ہو‘ اس میں جس زندگی… اور زندگی سے جڑی خواہشوں، حسرتوں، خوشیوں اور غموں کی تصویر پیش کی جاتی ہے‘ وہ دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے۔ ادب کسی بھی زبان میں ہو، اس آئینے پر ہر شخص اپنے خدوخال پہچان لیتا ہے۔ اس برس بھی مین بکر انٹرنیشنل پرائز (Man Booker International Prize 2013) کا اعلان ہوا جس کے مطابق امریکی مصنفہ، 63سالہ لیڈیا ڈیوس کو ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس خبر میں ہماری دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ادب اس قابل قدر ایوارڈ کے لیے دس ادیبوں کی حتمی فہرست میں‘ اردو ادب کے ممتاز ادیب‘ اور پاکستان کا اعزاز‘ جناب انتظار حسین کا نام بھی شامل تھا۔ پاکستان کے علاوہ روس، امریکہ، چین، بھارت، فرانس، اسرائیل، سوئٹزرلینڈ، کینیڈا سے تعلق رکھنے والے اہم مصنفین کے نام فائنل لسٹ میں شامل تھے۔ یہ ایوارڈ کسی ادیب کی عمر بھر کی تخلیقی کاوشوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ مصنف یا تو انگریزی زبان میں لکھتا ہو یا پھر اس کا کام انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ اردو زبان میں ہمارے ہاں صرف عبداللہ حسین، انتظار حسین، بانو قدسیہ، مستنصر حسین تارڑ جیسے بڑے نام ہی موجود نہیں بلکہ ایک پوری کہکشاں ہے‘ ادیبوں، افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کی جن کے نام درج کرنے لگیں تو، پھر کچھ اور لکھنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ مگر ہمارے ادیبوں کا شاندار کام عالمی سطح پر متعارف ہونے سے اس لیے رہ جاتا ہے کہ ہمارے ہاں اردو ادب کی بہترین کتابوں کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کوئی باقاعدہ سلسلہ موجود نہیں۔ پنجابی زبان کے لیے تو پورا پنجاب انسٹیٹیوٹ موجود ہے جبکہ ہمیں اس وقت ضرورت ہے کہ اسی سطح کا ایک ادبی ادارہ انگریزی زبان کے حوالے سے قائم ہو۔ انگریزی کے پروفیسرز کی خدمات لی جائیں اور اردو کی کلاسیک اور جدید اردو ادب کی تحریروں کو انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالا جائے تاکہ ہمارے ادیب انگریزی ادب پڑھنے والوں کے لیے اجنبی نہ رہیں۔ جیسا کہ اس بار ’’مین بکرانٹرنیشنل پرائز‘‘ کی جیوری نے کہا ہے کہ‘ اس بار فہرست میں موجودہ زیادہ تر ادیب انگریزی زبان و ادب کے قاری کے لیے بالکل نئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ادیبوں کا کام انگریزی زبان میں ڈھل کر جب انگریزی ادب کے قاری تک پہنچے گا تو ہر برس عالمی سطح کے ادبی ایوارڈز کی لسٹ میں پاکستان کا نام بھی شامل ہوگا۔ بات ہوجائے، ہمارے انتظار حسین کی کہ بلند شہر، ڈبائی میں پیدا ہونے والے ماضی کی سحر انگیز یادوں کے اسیر، ممتاز افسانہ نگار کیسے عالمی سطح کے ایوارڈز کی فہرست میں داخل ہوئے‘ تو جناب اس کا سہرا بھی ایک امریکی پروفیسر کے سر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فرانسس ڈبلیو پریچت (Francis W. Prichett) کولمبیا یونیورسٹی میں ایشیائی زبانوں کے استاد ہیں۔ انہوں نے 1995ء میں انتظار حسین کے ناول ’بستی‘ کو انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ یوں‘ اردو زبان کا ایک باکمال ناول خوبصورت انگریزی میں ڈھل کر دنیا بھر کے انگریزی ادب کے قارئین تک پہنچا۔ ہم تو پروفیسر فرانسس کے شکر گزار ہیں جنہوں نے یہ کام کیا۔ پروفیسر صاحبہ آج کل غالب کی شعری کاوشوں پر تحقیق اور تدوین کا کام کررہی ہیں۔ وہ اردو شاعری سے خاص شغف رکھتی ہیں۔ اردو زبان میں ایسا قابل قدر کام کرنے والے غیرملکی پروفیسرز کو سرکاری سطح پر پاکستان بلانا چاہیے اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں تو فہرست میں شامل، دس کے دس ادیب ایوارڈ یافتہ ہیں کیونکہ عالم فاضل جیوری نے بڑی عرق ریزی سے ان کی ادبی اور تخلیقی کاوشوں کو پڑھا اور حتمی فہرست میں ان کے نام شامل ہو ئے۔ بہر حال ایوارڈ تو کسی کو ایک ہی جانا تھا اور وہ خوش نصیب یونیورسٹی ایٹ البانے نیویارک کی پروفیسرلیڈیا ڈیوس ہیں جو تخلیقی نثر نگاری کی استاد ہیں۔ میڈیا ڈیوس مختصر ترین افسانہ نگاری کی بنا پر امریکی ادبی حلقوں میں ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ انہیں امریکہ کے تمام اہم ادبی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان کا اہم کام یہ ہے کہ فرانسیسی کلاسیک ادب کو وہ انگریزی زبان میں ترجمہ کررہی ہیں۔ اختصار، طنز و مزاح اور جملوں میں موجودہ شاعرانہ کاٹ… لیڈیا ڈیوس کی نثر کو ممتاز کرتی ہیں۔ ان کے بارے میں جیوری نے کہا کہ وہ مختصر ترین افسانہ نگاری میں اپنے طرز تحریر کی خود ہی موجد ہیں۔ مصنفہ کا طویل ترین افسانہ دو سے تین صفحات پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ بیشتر افسانے ایک ہی پیراگراف پر مشتمل ہیں۔ اختصار کی حد یہ ہے کہ کچھ افسانے تو ایک جملے پر مشتمل ہیں۔ مصنفہ سے اس اختصار کی وجہ پوچھی تو کہا کہ ’’یہ ایک ردعمل تھا۔ میں جب فرانسیسی ادب کا ترجمہ کررہی تھی تو طویل ڈائیلاگ اور طویل جملوں سے بور ہوجاتی۔ ان دنوں میں اپنا کچھ تخلیقی کام بھی کرنا چاہتی تھی۔ سو میں نے مختصر ترین کہانیاں لکھنا شروع کردیں‘‘۔ لیڈیا ڈیوس کا کہنا ہے کہ وہ افسانہ، تین صفحوں کا لکھے یا ایک پیراگراف کا۔ کہانی، کبھی اس کی تحریر سے جدا نہیں ہوتی۔ مختصر ترین افسانہ لکھنے والی مصنفہ کی اس پزیرائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصروف ترین انسان اب طویل ناول اور طویل کہانی کو پڑھنے کا وقت نہیں رکھتا۔ استثنیٰ تو موجود ہے مگر زیادہ ایسا ہی ہے کہ لوگوں کے پاس وقت نہیں۔ وہ کم وقت میں زیادہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ مختصر ترین افسانہ نگاری ہمارے ہاں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ خود میری نظر سے ایسی کتابیں گزری ہیں جن میں اختصاریئے کے عنوان کے تحت خوب صورت، تحریریں موجود ہیں۔ ان کا تذکرہ بھی کسی کالم میں ضرور ہوگا۔ ہم نے ان مختصر افسانوں کو ’’افسانچے‘‘ کا نام بھی دے رکھا ہے۔ یہ کام شاید کم معروف ادیبوں نے کیا تو ہمارے ہاں ان کے کام کو سراہا نہیں گیا۔ یہ بھی بحیثیت قوم ہمارا وتیرہ ہے کہ ہم چند ایک مشہور ناموں کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ خواہ وہ سیاست ہو یا ادب۔ ہمیں بھی نئے خیالات، نئے رجحانات، نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے۔ ادب میں بھی نئے تجربات ضرور ہونے چاہئیں۔ فی الحال انتظار حسین کو مبارکباد کہ عالمی سطح کے ادبی ایوارڈ کے لیے ان کے کام کو پزیرائی ملی۔ اس سے پاکستان کا مان بڑھا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved