وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کورونا وائرس کی وبا روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے دوران معیشت اور غریب عوام کو بچانے کے حوالے سے اہم اقدامات کا اعلان کیا۔ اس گفتگو کے دوران لاک ڈاؤن اور کرفیو میں فرق پر بحث بھی ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک سے زائد بار لاک ڈاؤن اور کرفیو کے درمیان فرق بتانے کی کوشش کی۔
ہمارے خیال میں بحث یہ نہیں کہ لاک ڈاؤن اور کرفیو میں کیا فرق ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے اعلان سے کتراتی رہی کیونکہ لاک ڈاؤن کا اعلان وفاق کی طرف سے کیا جاتا تو عوام کے لیے ایک ریلیف پیکیج کا اس سے پہلے آنا ضروری تھا۔ وفاق ہی بجلی اور گیس کے بلوں کو منجمد یا مؤخر کرنے کا اختیار رکھتا ہے جبکہ بینکوں سے لین دین کے عوامی معاملات پر بھی وفاق ہی اتھارٹی ہے‘ اسی لیے گھروں اور گاڑیوں کے لیے عوام کو دیئے گئے قرضوں پر فیصلے کا مجاز بھی وفاق ہی ہے۔ اس کے علاوہ معاشی حوالوں سے بھی اہم فیصلے سٹیٹ بینک اور وفاق کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ وزیر اعظم نے بہت تاخیر کے ساتھ اس پیکیج کا اعلان کیا لیکن دیر آید درست آید۔
جہاں تک لاک ڈاؤن اور کرفیو کے درمیان فرق کی بات ہے تو اس کنفیوژن کی وجہ سے عام آدمی کے مسائل کی نوعیت حکمرانوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ لاک ڈاؤن میں حکومت نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد نہیں کرتی لیکن اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا مطلب خود سے اخذ کرتے ہوئے عام آدمی کو مصیبت بلکہ تذلیل کا شکار بنائے ہوئے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آتی ہیں جن میں پولیس اہلکار عام شہریوں کو روک کر مرغا بنائے ہوئے ہیں یا ان پر لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ پولیس اہلکاروں کے لیے یہ لاک ڈاؤن تفنن طبع کا سامان ہے‘ لیکن عام آدمی کی عزت نفس کچلی جا رہی ہے۔ کرفیو نہ لگا کر کرفیو جیسی صورت حال بنا دی گئی ہے جس کی وجہ سے کئی کاروباری ادارے ملازموں کو چھٹی نہیں دے رہے اور انہیں دفتر حاضری کا کہا جا رہا ہے۔ کرفیو کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا لیکن لاک ڈاؤن کی کنفیوژن نے عام ملازم کی حالت خراب کر دی ہے۔ پولیس سڑکوں پر لاٹھیاں لیے کھڑی ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے۔ اگر یہ کرفیو نہیں ہے تو آن لائن ٹیکسی سروس کیوں بند کرائی گئی ہے؟ آن لائن ٹیکسی سروسز کی طرف سے عوام کو یہی پیغام دیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے احکامات پر سروس معطل کی جا رہی ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ لاک ڈاؤن اور کرفیو کی اس کنفیوژن کو ختم کرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خوش خلقی سے اس لاک ڈاؤن پر عمل کی ہدایات دے۔ عام کاروبار بھی اگر بند کرانے ہیں تو ان کو ہدایات جاری کی جائیں اور غریب ملازموں کو تحفظ دے کر سیٹھ کلچر کے استحصال سے بچایا جائے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر وبا کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں‘ گھروں پر کھانا پہنچانے کیلئے رضا کاروں کی فورس بنانا پڑے گی، اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں کبھی کرفیو نہ لگانا پڑے۔ ان کی اس بات سے بھی واضح ہے کہ حکومت کی تیاری دیر سے شروع ہوئی‘ ملک میں اس وقت عملاً کرفیو ہے اور حکومت ابھی رضا کار فورس بنانے اور عام آدمی کی ضروریات کا بندوبست کرنے کا سوچ رہی ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان کوآرڈینیشن نہ ہونے کا شکوہ تو اپنی جگہ، وفاق کے اپنے اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن نہ ہونے کی مثالیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ منگل کو پاکستان ریلوے کی جانب سے اچانک ملک بھر میں چلنے والی تمام اپ اینڈ ڈائون مسافر ٹر ینیں منگل اور بدھ کی درمیانی شب 12 بجے سے 31 مارچ تک معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا، جس کے بعد آخری ٹرین خیبر میل منگل کی رات ساڑھے 10 بجے کراچی سے پشاور روانہ ہوئی۔ اعلان کے بعد بڑے ریلوے سٹیشنوں پر افراتفری مچ گئی اور پہلے سے بکنگ نہ کروانے والے مسافر ٹکٹس کے حصول کے لیے سرگرداں نظر آئے؛ تاہم سینکڑوں مسافروں کو مایوس لوٹنا پڑا۔ اس پر وزیر ریلوے کی یہ وضاحت سامنے آئی کہ اگر ٹرینیں بند نہ کرتے تو ہم پر الزام آ جاتا کہ کورونا وائرس ہم نے پھیلایا۔ وزیر ریلوے کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن یہ وفاق میں افراتفری سے کئے گئے فیصلوں کی ایک جھلک ہے۔
اس سے پہلے تفتان بارڈر پر جو صورت حال پیدا ہوئی اس میں بھی وفاق اور صوبوں میں کھینچا تانی اور تذبذب کی کیفیت نظر آتی ہے۔ چین سے طلبہ کو نہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا، جو بلا شبہ ایک اچھا فیصلہ تھا، لیکن ایران بارڈر کھول دیا گیا۔ اس کے بعد اچانک سے پروازیں بند کرنے کا اعلان ہوا اور کہا گیا کہ بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی کورونا وائرس کی ٹیسٹ رپورٹ کے ساتھ ہی طیاروں میں سوار ہو سکیں گے۔ دنیا میں اس وقت ہر ملک کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ ان حالات میں بیرون ملک موجود پاکستانی ٹیسٹ رپورٹ کہاں سے لاتے؟ اسی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور ان کی عزت نفس پر حرف آیا۔ یوں لگا جیسے یہ پاکستانی کسی بڑے جرم میں ملوث ہیں۔ اب بھی حالت یہ ہے کہ افغانستان کے سرحدی شہر سپن بولدک میں آٹھ سو پاکستانی شہری پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں پاکستان داخلے کی اجازت نہیں مل رہی اور افغان حکومت کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ یہ پاکستانی شہری عام ٹرک ڈرائیور ہیں جن کے پاس کھانے پینے کی اشیا بھی ختم ہو چکی ہیں اور وہ کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ چمن میں ان کے لیے قرنطینہ سنٹر بنانے کی اطلاعات ہیں۔ اس قرنطینہ سنٹر کے آپریشنل ہونے کے بعد انہیں ملک میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ امید کی جانی چاہئے کہ اس بار حالات تفتان بارڈر جیسے نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم ایک طرف کہتے ہیں کہ وہ ملک میں افراتفری کے ماحول سے بچنا چاہتے ہیں لیکن فیصلوں اور اقدمات سے جو افراتفری کا ماحول بن رہا ہے شاید ان کو اس سے بے خبر رکھا جا رہا ہے۔
کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا واحد طریقہ سماجی میل جول کم کرنا ہے۔ اٹلی اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں عوام اس خطرے کو جانتے ہوئے بھی سماجی میل جول سے باز نہ آئے اور حالات بگڑ گئے۔ سڈنی کے ساحل پر ہزاروں افراد تفریح کے لیے جمع ہونے پر پولیس کو حرکت میں آنا پڑا اور ساحل خالی کرایا گیا۔ اس لیے لاک ڈاؤن کی مخالفت کوئی بھی سمجھ دار انسان نہیں کر سکتا۔ اگر حکومت لاک ڈاؤن کو مؤثر کرنا چاہتی ہے تو اس پر عمل کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات کئے جائیں لیکن غریب شہریوں کی ضروریات اور مشکلات کا بھی احساس کیا جائے۔ تین ہزار ماہانہ وظیفہ اچھی بات ہے لیکن یہ تین ہزار ایک کنبے کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔
حکومت کو نجی کاروبار کو بھی تحفظ دینا ہو گا کیونکہ ملازمتیں نجی شعبہ ہی مہیا کر سکتا ہے۔ شرح سود کے حوالے سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا یہ کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک آزاد ہے اسے ہدایات نہیں دے سکتے‘ کورونا وائرس ایک آفت ہے اور آفات کے دوران حکومتیں کسی بھی ادارے کو تحویل میں لینے یا اسے اپنی ہدایات پر عمل کرانے کا اختیار رکھتی ہیں‘ حکومت کا اپنا بجٹ قرضوں پر چلتا ہے۔
اگرچہ سٹیٹ بینک نے شرح سود میں 1.5 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے؛ تاہم صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ شرح سود میں مناسب کمی نہ کر کے ساہوکاروں کو فائدہ دیا جا رہا ہے، حکومت نجی شعبے میں فیکٹریوں اور کارخانوں کو سہارا دے تاکہ اس آفت کے خاتمے پر بے روزگاری کی نئی آفت کھڑی نہ ہو جائے۔