تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     27-03-2020

بھاشن اور راشن

اے ربِّ کعبہ! تجھے شاہِ مدینہ کا واسطہ اس مملکتِ خداداد میں رہنے والوں پر رحم فرما۔ یہ ایسا بدنصیب اور سیاہ بخت خطہ ہے کہ کیسا کیسا حکمران اپنی تمام تر بد عنوانیوں اور نااہلیوں کے باوجود اس میں بسنے والوں کا مقدّر بنا رہا۔ حکمرانی اور بوئے سلطانی کے بدترین ادوار کے باوجود یہ آج بھی اترائے اور معتبر بنے پھرتے ہیں۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِحاضر کے مملکت کا جو حشرنشر یہ کر چکے ہیں اس کے باوجود تاخیر اور پھر انتظار کیسا؟ شاید اسی لیے کہ تو الصبور بھی ہے‘ المقدم بھی اور المؤخر بھی۔ اے رب العالمین! تو العدل بھی تو ہے‘ عدل اور بلاتاخیر عدل تجھی سے منسوب ہے۔اس خطے میں بسنے والوں کو تیری اس صفت کی‘ تیرے عدل و انصاف کی جو آج ضرورت ہے وہ شاید پہلے کبھی نہیں رہی۔ تو نے انہیں حکمرانی عطا کی‘ تیری اس عطا کو یہ اپنی ہی کوئی ادا سمجھ بیٹھے‘ان کی ایک ایک ادا اس ملک میں بسنے والوں کی سیاہ بختی میں روزبروز اضافے کا باعث بنتی چلی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نہ تو اسلامی معاشرت سے بہرہ مند ہو سکے اور نہ ہی جمہوریت سے فیض یاب۔ نہ تو آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی اور نہ ہی سماجی انصاف مل سکا۔ نہ کوئی ضابطۂ حیات دے سکے اور نہ ہی سماجی اور اخلاقی قدریں بچا سکے۔ 
کبھی بنامِ وطن لوٹا گیا تو کبھی بنامِ دین ‘ کبھی جھانسے دئیے گئے تو کبھی دھونس جمائی گئی۔ الغرض کون سا ایسا عذاب ہے جو اس خطے میں بسنے والوں نے نہیں جھیلا۔اے پروردگار! تجھے تیری شانِ کریمی کا واسطہ انہیں سیدھی راہ دکھا دے۔ انہیں سچا اور پکا رہبر بنا دے‘ ان کے قول و فعل میں مطابقت اور برکت عطا فرما دے۔ حکمرانی کے نام پہ ملک و قوم کا جو حشر ہوتا چلا آ رہا ہے‘ اس سے برا اور کیا ہو سکتا ہے؟ ان کی نیتیں اور ارادے تجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری اور مصاحبین کے اللے تللے آخر کب تک؟ گورننس کے نام پر یہ عوام کو کب تک زندہ درگور کرتے رہیں گے۔ بوئے سلطانی کے ماروں کو احساس ہی نہیں کہ ان کے فیصلوں اور اقدامات نے عوام کو بے یقینی اور بداعتمادی کے کس اندھے گڑھے میں جا دھکیلا ہے۔ ان کے طرزِ حکمرانی نے مایوسیوں کے سائے اتنے لمبے کر دئیے ہیں کہ وہ اب کسی صورت کم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی لوٹ مار اور مال بناؤ پالیسی کا رونا روئیں یا ان کی نااہلیوں اور نالائقیوں کا ماتم کریں۔ عوام کے پلے تو اب کچھ رہا ہی نہیں۔ 
کیسی کیسی جفائیں‘ کیسی کیسی بدعہدیاں اور بداعمالیاں‘ کیسی کیسی خیانتیں اور کیسا کیسا بہروپ اس خطے کے عوام نے نہیں دیکھا۔ جس سنہری دور کی نوید سنائی گئی وہ ہر دور میں ہی چمکیلا اندھیرا نکلا‘جسے نجات دہندہ سمجھتے رہے پھر اس سے نجات کی دعائیں مانگنا پڑیں‘ جسے بے پناہ چاہا اب اسی سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں گویا: ؎
یہ نمازِ عصر کا وقت ہے 
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی 
وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہماری التجائیں قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ 
اب اگر باقی دنیا کی بات کی جائے تو پوری دنیا میں حشر کا سماں ہے۔ اَن دیکھی موت ملکوں ملکوں دندناتی پھر رہی ہے‘ تقریباً دو سو کے قریب ممالک ا س کے نرغے میں آچکے ہیں‘کیا ترقی یافتہ‘ کیا ترقی پذیر‘ سبھی ممالک بے بس اور لاچار دکھائی دیتے ہیں۔ کیا مہذب اور کیا غیر مہذب‘ کیا گورے کیا کالے‘کیسی کیسی ٹیکنالوجی‘ کیسے کیسے آلات اور کیسی کیسی ایجادات‘ سب ٹکے ٹوکری ہوچکے ہیں۔ نہ کسی کے تیل کے کنوئیں کام آئے اور نہ سونے کے ذخائر۔ دنیا بھر کے مستحکم ترین اقتصادی ڈھانچے محض ڈھانچے بن کر رہ گئے ہیں۔ سپر پاوریں بے سروپا نظر آتی ہیں‘ نہ کوئی راکٹ کام آیا اور نہ ہی کوئی اسلحہ‘ بارود۔ جموںوکشمیر میں دریندر مودی کے بے پناہ مظالم اور طویل ترین لاک ڈاؤن پر بغلیں بجانے والے اب خود لاک ڈاؤن پر مجبور ہیں۔ یہ کورونا وائرس کسی کے قابو میں تاحال نہ آسکا ہے۔ اس عالمی منظر نامے میں خطۂ سیاہ بخت کی اوقات ہی کیا۔ 
کراچی سے خیبرو بلتستان تک اس کی تباہ کاریوں کے اثرات تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں کورونا سے متاثرہ پہلا مریض میو ہسپتال میں چل بسا ہے۔ کورونا پازیٹیو کی رپورٹ اس کے جاں بحق ہونے کے اگلے روز جب حکام کو موصول ہوئی تو کئی گھنٹے محض اس لیے اسے منظرِ عام پر نہیں لایا گیا کہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بریک کر کے نمبر بنائے جائیں گے اور پھر کابینہ کے اجلاس کے دوران ہی ٹوئٹ کے ذریعے وہ رپورٹ نشر بھی کر دی گئی کہ مذکورہ مریض کورونا کی وجہ سے ہلاک ہوا ہے۔ تشویشناک اَمر یہ ہے کہ میو ہسپتال کے ان ڈاکٹرز سے بھی وہ رپورٹ شیئر نہیں کی گئی جو مذکورہ مریض کے علاج پر مامور تھے۔ ان تک بھی یہ خبر میڈیا پر نشر ہونے کے بعد ہی پہنچی جبکہ سب سے پہلے اطلاع متعلقہ ڈاکٹرز اور فیلڈ سٹاف تک پہنچانا ضروری تھی تاکہ وہ فوری حفاظتی اقدامات اور کورونا ایس او پیز کے مطابق کوئی لائحہ عمل اختیار کرتے۔ عجب تماشا بنا رکھا ہے... ایک سے ایک بڑا نوٹنکی اپنے اپنے نمبر ٹانکنے کے چکر میں بھاگا پھر رہا ہے۔ 
جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح حکمرانوں کے فیصلے اور اقدامات ان کی نیتوں اور ارادوں کا پردہ چاک کر ڈالتے ہیں۔ بزدار سرکار کورونا کی روک تھام کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے‘ یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘ صرف چند اقدامات ہی سنجیدگی اور مہارت جانچنے کے لیے کافی ہیں۔ پوری دنیا کورونا ماہرین ڈھونڈتی پھر رہی ہے اور پنجاب سرکار نے ''کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ‘‘ بھی تشکیل دے ڈالا ہے اور محکمہ صحت سے ہی 12کورونا ایکسپرٹ ڈھونڈ نکالے ہیں‘ جس کا نوٹیفکیشن سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ نے جاری کیا ہے۔ کورونا ماہرین کے اس 12رکنی گروپ کا چیئرپرسن پروفیسر محمود شوکت چائلڈ سرجن کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ کوچیئرپرسن پروفیسر اسد اسلم امراض چشم کے سرجن ہیں۔ اسی طرح دیگر ارکان میں پروفیسر مسعود صادق بچوں کے امراضِ قلب کے سرجن‘ پروفیسر ثاقب سعید پلمونالوجسٹ‘ پروفیسر روبینہ سہیل گائناکالوجسٹ‘ ڈاکٹر جاوید حیات خان پلمونالوجسٹ جبکہ تین ارکان محکمہ صحت کے سرکاری بابو ہیں۔کورونا ماہرین کے اس گروپ میں دو میڈیسن کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی ایسوسی ایٹ پروفیسر زسومیہ اقتدار اور صوبیہ قاضی کو محض کارروائی کے طور پر شامل کیا گیا ہے‘ جبکہ اس گروپ کی کوآرڈینیشن کرنے والے سرکاری بابو کو بارہویں ''ایکسپرٹ ممبر‘‘ کا اعزاز حاصل ہوگا۔ 
آفرین ہے سرکار کے ویژن پر کہ کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کے 12ارکان میں سے 10ارکان غیر متعلقہ مقرر کیے گئے‘ جن کا طبّ کے شعبہ انٹرنل میڈیسن سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔ 
ملک بھر میں لاک ڈاؤن اور خوف و ہراس کا سماں ہے۔ ہر کوئی ان دیکھے وائرس سے بھاگا پھر رہا ہے۔ تفتان اور سکھر کے بعد اب فیصل آباد کے قرنطینہ سے بھی تشویشناک خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہاں کے آئسولیشن سینٹرز بھی مرغیوں کے ڈربے اور مویشیوں کے باڑے کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں‘ جبکہ سرکار مثالی اقدامات اور انقلابی فیصلوں کے دعووں پر دعوے کیے چلے جارہی ہے۔ کہیں بھاشن کی ریس جاری ہے تو کہیں راشن کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جس شدت اور تواتر سے بھاشن پر انصاف سرکار محنت کررہی ہے اس سے کہیں کم توجہ اگر ان نصیبوں جلے لوگوں پر کرتی ‘جو راشن کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں تو حالات اس قدر گمبھیر اور پریشان کن نہ ہوتے۔راشن کی تلاش میں بھاگنے والے تو یقینا کہیں نہ کہیں تھکیں گے بھی اور گریں گے بھی لیکن بھاشن کی یہ دوڑ ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ سرکار کا ہر چیمپئن ایک دوسرے پر بازی اور سبقت کی خاطر بھاشن دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved