نیو یارک‘ جو اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہونے کی وجہ سے عالمی برادری کا دل کہا جاتا ہے‘ امریکہ کے اہم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ شہر جس ریاست میں واقع ہے‘ اس کا نام بھی نیو یارک ہی ہے۔ اس اہم ترین امریکی ریاست کا گورنر 24 مارچ کو پریس کانفرنس میں چلا رہا تھا ''مرکزی حکومت نے ہماری بار بار کی درخواستوں کے باوجود ابھی تک وینٹی لیٹرز فراہم نہیں کئے‘‘۔ کورونا کے خلاف لڑنے کیلئے اس اہم ترین میڈیکل ضرورت کا ناکافی ہونا صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ایک طویل فہرست اس کمی کا شکار ہے جبکہ اپنے قیام سے اب تک پاکستان جیسا قرضوں کے سمندر اور نیچے سے اوپر تک کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ملک جس طرح اس آفت سے لڑ رہا ہے ''کچھ نادان دوست‘‘ اس تگ و دو کو بھی اپنے پائوں تلے کچلنے مسلنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔
پریس بریفنگ میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا یا میری اطلاع کے مطابق کروایا گیا اس سب کے باوجود وزیر اعظم نے اپنی حکمت عملی سے قومی اتحاد کی رٹ لگانے والوں کی ''خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے‘‘ جو کہیں بیٹھے وزیر اعظم سے پوچھے جانے والے ہر کرخت لہجے والے سوال پر بے تاب ہو کر سوچنے لگتے کہ خان ابھی ہتھے سے اکھڑا کہ اکھڑا‘ لیکن انتظار میں بیٹھے ہوئے ان شکاریوں کی سب امیدیں دم توڑ گئیں۔ اگر کسی کو میرے اس موقف پر شک ہے تو ''وہ سابق وزیر اعظم کا اسی رات دس بجے ایک نجی چینل کا پروگرام دیکھ لیں جہاں بیٹھے وہ فرما رہے تھے کہ زندگی میں پہلی مرتبہ انہوں نے عمران خان کی پوری پریس بریفنگ دیکھی ہے‘‘۔ نا مناسب جملوں کی بات کریں تو ابھی کل کی بات ہے‘ وزیر اعلیٰ پنجاب کے متعلق انگریزی اخبار میں مشہور کیا گیا کہ وہ ایک بریفنگ میں پوچھ رہے تھے کہ کورونا مرض کوئی وبا ہے یا کاٹنے والا مچھر قسم کا کوئی کیڑا ہے؟ اس پر میں نے کہا تھا ''اس بریفنگ کی ریکارڈنگ کسی نہ کسی میڈیا گروپ کے پاس لازمی ہونی چاہئے‘ ایسا الزام لگانے والے ان کی اس بات کو لکھنے کی بجائے آن ایئر کیوں نہیں کراتے؟ چونکہ یہ سب جھوٹ تھا اس لئے ابھی تک کسی نے ان کی ویڈیو یا آڈیو سنانے کی زحمت نہیں کی حتیٰ کہ کسی میڈیا گروپ نے بھی نہیں۔ وزیر اعظم کی کورونا وائرس پر پریس بریفنگ اور اس وبا کی وجہ سے ملکی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے باوجود غریب اور مزدور طبقے کیلئے مراعات کے اعلان پر قومی اتحاد کا سبق پڑھانے والوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے کہ پٹرول کے نرخ پندرہ کے بجائے تیس روپے کم کیوں نہیں کیے گئے؟ ان سے ایک عام آدمی کی حیثیت سے گزارش ہے کہ تیل کی مد میں جو 15 روپے کم کیے گئے اور جو سوا کھرب روپے کا ریلیف دیا گیا وہ کس کھاتے میں ہے؟ ایک دانشور نے کہا کہ وزیر اعظم نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے کروڑوں روپے کی ترقیاتی فنڈز کیوں نہیں روکے؟ اس قدر بے خبر ہوں گے ہمارے یہ دوست جنہیں پتہ ہی نہیں چل سکا کہ جناب عثمان بزدار نے کورونا اور تنخواہوں کی مراعات کے علاوہ وزارت خزانہ کو ہر قسم کے ترقیاتی فنڈز روکنے کا حکم دے دیا ہے (میرے قصبہ کھڈیاں کی سرکلر روڈ کی تعمیر کیلئے فنڈز اسی لئے روک لئے گئے ہیں) میرے خیال میں وہاں موجود انتہائی قابل احترام حضرات کو صورتحال کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا کیونکہ بات کورونا سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بارے میں ہو رہی تھی اور یہ ایک سنجیدہ مسئلہ تھا۔ جب یہ کہا جائے کہ ذاتی حملے نہ کریں اور اسے آزادیٔ اظہار پر حملہ قرار دینا شروع کر دیا جائے تو پھر خدا ہی بہتر جان سکتا ہے کہ آزادیٔ اظہار کیا ہے۔
کسی کو تو چڑیا بتا دیتی ہے لیکن مجھے ملنے والی اطلاعات یہ ہیں کہ اس سہولت سے محروم ہونے کے باوجود پانچ چھ شریف قسم کے لوگوں کو وزیر اعظم کی بریفنگ کے بعد رات گئے اسلام آباد کے ایک گھر میں پُر تکلف دعوت سے نوازا گیا‘ جہاں کچھ معتبر حضرات بھی موجود تھے۔ قہقہوں اور جملوں کی برسات میں رات گئے تک جشنِ فتح منایا جاتا رہا۔ اس دوران ان بہت سی سیاسی شخصیات کے پیغامات بھی آتے رہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ کورونا پر ہم نے سیاست نہیں کرنی کیونکہ یہ وقت قومی اتحاد کا ہے۔
وزیر اعظم سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے ساتھ غیر منتخب لوگ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ یہ کسی طور بھی غلط سوال نہیں ہے۔ میڈیا اور عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے منتخب حکمران سے ایسے سوالات پوچھیں‘ لیکن اگر سینئر ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دنیا بھر میں ہر منتخب حکمران کو آئین اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی رہنمائی کیلئے غیر منتخب شخصیات کو اپنے ساتھ بطور مشیر رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جناب وزیر اعظم نے سوال کرنے والے کو فوری طور پر امریکی صدر کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کانگریس اور سینیٹ میں انتہائی تعلیم یافتہ ماہرین ہونے کے باوجود اپنی کابینہ میں ٹرمپ نے پانچ سے زائد اہم ترین عہدوں پر غیر منتخب مشیران کو تعینات کر رکھا ہے۔
مادر جمہوریت برطانیہ کے آئین کے آرٹیکل 3 اور سول سروس حکم برائے کونسل 1995 کے تحت غیر منتخب افراد کو سپیشل ایڈوائزر تعینات کیا جاتا ہے اور ان کے مشاہرے مرکزی حکومت ادا کرتی ہے۔ صرف 2006-7 میں خصوصی مشیران کی تنخواہوں پر برطانوی عوام کے ٹیکسوں سے چھ ملین پائونڈ سے زائد ادائیگیاں کی گئیں اور برطانوی حکومت میں ان مشیران کی تعداد ایک وقت میں 68 سے تجاوز کر گئی تھی۔ فرانسیسی حکومت کو ہی لے لیجئے‘ Agnes Buzyn کو فرانس میں وزیر صحت لگایا گیا ہے‘ جو فرانس کے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ میں کام کرتی تھیں‘ پھر Cluzel, Laura Flessel, Françoise Nyssen اور Muriel Pénicaud ہیں جنہیں صحت، سپورٹس، کلچر اور لیبر کی وزارتیں سونپی گئیں۔ وزیر اعظم عمران خان پر طنز کے تیر برسانے والے ہمارے با خبر دوستوں کو شاید یاد نہیں رہا ہو گا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 29 وزرائ‘ 18 وزرائے مملکت اور چار مشیران کے باوجود نہ جانے کتنے سپیشل ایڈوائزر اور سپیشل اسسٹنٹس تعینات کر رکھے تھے۔
ہمارے ایک دوست کو‘ جنہوں نے کرسیٔ اقتدار کا تمسخر اڑایا ہے‘ کو یاد ہی ہو گا کہ جب سابق وزیر اعظم کی پریس کانفرنس میں ان سے سکیورٹی پر مامور افراد کی تعداد بارے پوچھا گیا تھا تو غصے سے لال پیلے ہوئے سوال کرنے والے کی اس طرح کلاس لی گئی کہ سکیورٹی پر مامور افراد اور ارد گرد کے لوگ اسے خاموشی سے ایک جانب لے گئے تھے۔ اب اگر یہ لوگ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت چھیننے کی باتیں شروع کر دیں تو اس وقت وہ کیوں خاموش رہے جب قصور کی بد نصیب بچی شہید زینب کے والد سے اس لئے مائیک چھین لیا گیا تھا کہ کہیں وہ اپنے دل کی بات نہ کہہ دیں۔ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت کسی با شعور معاشرے کی عزت و وقار اور زندگی کیلئے توانائی سے بھرپور ٹانک کی مانند سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی ایک حد ہوتی ہے‘ اس کے کچھ تقاضے اور فاصلے ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نے درست کہا ہے کہ جس قدر آزادیٔ اظہار پاکستانیوں کو ہے اس کا دنیا بھر میں تصور نہیں کیا جا سکتا‘ ورنہ کس کو یاد نہیں کہ آسٹریلیا کی فیڈرل پولیس سڈنی میں ABC NEWS کے دفتر میں گھس کر تین گھنٹے مسلسل تلاشی لینے کے بعد افغانستان سے متعلق تمام فائلیں اور ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک اخبار کے خلاف ہتک عزت کا جو نوٹس بھیجا ہے اس میں اگر وہ یہ بھی لکھ دیں کہ وہ ویڈیو نشر کی جائے جس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی کردار کشی کی گئی ہے تو سب کچھ سامنے آ جائے گا۔