تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-05-2013

کوئی چارہ ساز ہوتا

اتنی سی بات بس یاد رہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کیا کرتا۔ کوئی نوازشریف تو کیا کسی ہنی بال‘ کسی سکندر اعظم‘ کسی امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر کے فرزند شہنشاہ ہمایوں کا بھی ہرگز نہیں۔ وقت کا شیر شاہ سوری ہر ایک کے تعاقب میں ہوتا ہے اور صفوی میزبان ہر بار نہیں ملا کرتے۔ انیس احمد اعظمی کلاس روم کے درمیان ٹہلا کرتے اور درد بھرے لہجے میں گنگنایا کرتے۔ دل گیا‘ رونقِ حیات گئی غم گیا‘ ساری کائنات گئی کل خورشید ندیم نے رُلا دیا۔ آج رئوف کلاسرہ نے۔ دل ہے کہ بارش سی برستی رہتی ہے‘ برف سی گرتی رہتی ہے۔ محبوبِ خزاں نے پوچھا تھا ’’اتنا حسن کیا کرو گے؟ اتنا حسن کیا کرو گے؟‘‘۔ اپنے آپ سے مسافر پوچھتا ہے: اتنا درد؟ کیا کرو گے؟ اتنا درد؟ کیا کرو گے؟ 1857ء میں اسد اللہ خاں غالب کے دل و دماغ پر قیامت گزری تو انہوں نے یہ کہا تھا نا دیدنی کی دید سے ہوتا ہے خونِ دل بے دست و پا کو دیدۂ بینا نہ چاہیے تہران سے پاکستان واپسی پر کراچی میں پندرہ بیس باخبر لوگوں سے طویل ملاقاتوں کے بعد منظر کھلا کہ 11 مئی کو قائداعظم کے شہر پہ کیا بیتی۔ کوئی اقبال چاہیے‘ تاتاریوں کی یلغار سہہ کر حواس برقرار رکھنے والا کوئی سعدی شیرازی چاہیے کہ اس ہمہ جہت المیے کو بیان کر سکے۔ مجھ ایسے کسی معمولی اخبار نویس کے بس کی بات نہیں۔ افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے الیکشن کی دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی ناکردہ کاری الگ موضوع ہے‘ جس پر جناب اشتیاق احمد نالش کرنے اور عدالت میں کھینچنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ ہوا‘ جو شاید کبھی پوری طرح بیان نہ کیا جا سکے۔ میاں محمد نوازشریف کو اگر کراچی کا امن عزیز ہے اور میرا خیال ہے کہ عزیز ہے تو اقتدار سنبھالتے ہی انہیں آئی ایس آئی‘ ملٹری انٹیلی جنس‘ انٹیلی جنس بیورو کے علاوہ کراچی کے قابلِ اعتماد‘ با خبر معززین کو اسلام آباد مدعو کرنا چاہیے۔ ایک طوفان تھا‘ جو گزر گیا ہے اور اللہ کرے‘ میرا اندازہ غلط ہو مگر اس سے بڑا ایک طوفان ابھی باقی ہے۔ جو کچھ بیت گیا ہے‘ گلی کوچوں میں‘ گھروں اور دلوں میں اس کے آثار باقی ہیں۔ آگ بجھی ہوئی ادھر‘ ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں ملک کے نئے حکمران کو مغربی ممالک اور اس سے زیادہ حال ہی میں جنوبی افریقہ سے پاکستان پہنچنے والوں کی فہرست امیگریشن حکام سے طلب کرنی چاہیے۔ انٹیلی جنس حکام کو حکم دینا چاہیے کہ سندھ بالخصوص کراچی میں ایم آئی سکس کے ایجنٹوں پر نگاہ رکھیں۔ بھارتیوں پر بھی۔ الیکشن میں کامیابی انہیں مبارک ہو مگر اس پر غیر معمولی فراوانی سے اظہارِ مسرت کرنے والے غیر ملکیوں کو ایک بار اس محاورے کی روشنی میں بھی جانچ لیں: ماں سے زیادہ جو محبت جتلائے‘ وہ ڈائن ہی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اخبار میں تفصیل نہیں لکھی جا سکتی۔ پوری ذمہ داری سے مگر میں عرض کرتا ہوں کہ کراچی میں آگ بھڑکانے کا منصوبہ ہے اور پوری بے دردی کے ساتھ۔ الیکشن 2013ء کے باب میں کسی کے کتنے ہی تحفظات ہوں‘ استحکام کے امکانات اب پہلے سے زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب کھلے عام وہ پہلی سی لوٹ مار جاری نہیں رہ سکتی کہ ڈاکٹر عاصم ہیں اور نہ پرویز مشرف‘ رحمن ملک بروئے کار ہیں اور نہ ان کے مربی جناب آصف علی زرداری پہلے سے با اختیار۔ ایسے با اختیار کہ 80 ارب روپے کی ملکیت کا ایوانِ اقبال جو پاکستانی عوام کے خون پسینے سے بنا ہے‘ اپنے ایک پسندیدہ کو دے دیا اور وہ کوس لمن الملک بجاتا ہے۔ کون کون ہے‘ جسے پاکستان میں استحکام گوارا نہیں؟ بھارت کے باب میں میاں محمد نوازشریف کو جو خوش فہمی ہے‘ جلد ہی دور ہو جائے گی۔ طالبان کے نام پر قبائلی علاقوں میں جو گروہ منظم ہیں‘ ان میں سے بعض کا ملّا عمر اور ان کے ساتھیوں سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ ان میں جرائم پیشہ ہیں اور فقط جرائم پیشہ۔ بعض ایسے ہیں کہ بھارتیوں سے مستقل ان کے مراسم ہیں اور ’’را‘‘ سے وہ ہدایات لیتے ہیں۔ میں اصرار کرتا ہوں اور میرا یہ اصرار تحقیق کے بعد ہے کہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس مستقل طور پر ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے‘ جس کا مقصد گوادر سے کراچی تک کے ساحلی علاقے کو پاکستان سے الگ کرنا ہے۔ یہ منصوبہ انشاء اللہ ناکام رہے گا کہ عوامی تائید اس کے لیے کبھی میسر نہیں آ سکتی‘ ان کے اندازِ فکر سے اختلاف مگر ایم کیو ایم کا ووٹر بھی اتنا ہی محب وطن ہے‘ جتنا کوئی دوسرا۔ ثانیاً الیکشن میں بلوچستان کے قوم پرستوں کی شمولیت نے قیامِ امن کے لیے ماحول سازگار کردیا۔ قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے غالباً یہ سب سے اچھی پیش رفت ہے۔ مقصد عزیز اور ارادہ مستحکم ہو تو شورش زدہ صوبے میں ان کا حصول اب ممکن ہے؛ اگرچہ ریاضت درکار ہوگی اور پیہم ریاضت‘ صبر اور مسلسل صبر‘ تحمل‘ تدبر اور حکمت۔ یہ وہ بلند مقصد ہے کہ حکومت کے حامی تو کیا‘ مخالفین میں بھی‘ جو ذرا سی نجابت اور حب الوطنی کے حامل ہوں‘ وہ شریف حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہوں گے۔ برطانیہ اور ایران سے نفرت کرنے والے امریکہ کے کاسہ لیس بعض عرب ممالک بہرحال مدتوں سے یہاں بدامنی پھیلانے والوں کی مدد کر رہے ہیں۔ اگر انٹیلی جنس بیورو کی جدید خطوط پر تنظیم نو کی جائے‘ اگر اس میں بلوچستان کے لیے ایک خصوصی سیل قائم کیا جا سکے‘ اور وہ گرفتار ایجنٹوں سے اگر عرق ریزی کے ساتھ تفتیش کرے تو بعض چھوٹی عرب ریاستوں کے بارے میں ہولناک انکشافات ہوں گے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ اردن کے شاہ حسین کو راز کی ایک بات انہوں نے بتائی تو فوراً ہی تل ابیب اور پھر اس کے توسط سے واشنگٹن کو خبر ہو گئی۔ دیکھا جو کھا کے تیر‘ کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی جو فساد کراچی میں برپا ہوا اور خدا نہ کرے جو برپا ہو سکتا ہے‘ اس کا سب سے زیادہ ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے۔ جب یہ مطالبہ کیا گیا کہ پولنگ بوتھوں کے اندر بھی فوجی جوان تعینات ہوں تو جنرل کیانی نے جسٹس کیانی سے پوچھا: کیا اس جوان یا اس کے کمپنی کمانڈر کو دھاندلی روکنے کا اختیار حاصل ہوگا؟ جواب ملا: بالکل نہیں‘ یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے‘ وہ کمیشن جس کا عملہ سندھ کی نگران صوبائی حکومت نے فراہم کیا تھا۔ وہ نگران حکومت جو دو برسراقتدار جماعتوں کی مفاہمت سے تشکیل پائی۔ وہ سرکاری اہلکار جن میں سے اکثر پارٹیوں کی سفارش سے بھرتی ہوئے اور رابطے میں رہتے ہیں۔ بیلٹ باکس تو کیا بعض مقامات پر پولنگ کا عملہ ہی غائب تھا۔ آخر کیوں غائب تھا؟ کس کے اشارے پر؟ پولنگ بوتھوں کے اردگرد جتھے موجود تھے جو ووٹروں کو ہراساں کرتے تھے۔ ان میں سے 70 گرفتار ہوئے اور تھانوں میں ان کے خلاف مقدمات درج کرائے گئے۔ تفتیش مگر کس کو کرنی ہے؟ فیصلہ کس کو صادر فرمانا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا حال یہ ہے کہ جنرل کیانی سے کئی گھنٹے کی ملاقات کے بعد‘ انہی سے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف کو ان کا سلام پہنچا دیں۔ جنرل کیانی جو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ آدمی ہیں۔ ان کی جگہ کوئی مجھ سا ہوتا تو عرض کرتا: ضرور‘ ضرور اور اگر آپ ارشاد کریں تو میں ان سے آپ کی ملاقات بھی کرادوں گا۔ اوّل دن سے یہ ناچیز چیختا رہا کہ وہ کسی کام کے نہیں۔ عہدہ و منصب کا شوق انہیں بہت ہے‘ مگر ذمہ داری ادا کرنے سے کم ہی دلچسپی ہے۔ خوف اور احتیاط سے پیدا ہونے والی ان کی رقّت کو اخبار نویس دردِ دل سمجھتے ہیں۔ دردِ دل اور احساس؟ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود کراچی میں انہوں نے جدید حلقہ بندیوں اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کا انتظام کرنے سے انکار کردیا۔ کوئی چارہ ساز ہوتا‘ کوئی غم گسار ہوتا غالباً 18 مئی کی شام تھی‘ جب جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے چالیس پچاس مظاہرین فخرو بھائی کے دفتر پر احتجاج کرنے گئے۔ زیادہ تر ان میں خواتین تھیں اور بچے۔ ربط و ضبط کے لیے کچھ مرد بھی۔ چیف آف آرمی سٹاف کو انہوں نے فون کیا: ارد گرد فائرنگ ہو رہی ہے۔ اگر میں قتل کر دیا گیا تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔ ان کے کان بج رہے تھے‘ فائرنگ تھی ہی نہیں۔ مستقبل کی کلید‘ اقتصادی نمو میں ہے۔ اقتصادی ترقی کا زیادہ تر انحصار قائداعظم کے شہر میں قیام امن پر اور قیامِ امن عدل ہی سے ممکن ہے۔ ایسا عدل جس میں انتقام کا سایہ تک نہ ہو۔ انصاف جو برپا ہو اور برپا ہوتا نظر بھی آئے۔ یہی ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کامیاب رہے تو سبحان اللہ‘ دوست تو کیا دشمن بھی داد دیں گے‘ وگرنہ وہی پرانی داستان اور دو مصرعے۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا اتنی سی بات بس یاد رہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کیا کرتا۔ کوئی نوازشریف تو کیا کسی ہنی بال‘ کسی سکندر اعظم‘ کسی امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر کے فرزند شہنشاہ ہمایوں کا بھی ہرگز نہیں۔ وقت کا شیر شاہ سوری ہر ایک کے تعاقب میں ہوتا ہے اور صفوی میزبان ہر بار نہیں ملا کرتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved