کورونا وائرس کی وبا تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ کل تک جو وبا چند ملکوں تک محدود تھی‘ اب دو سو ممالک میں پھیل گئی ہے۔ اس کا تشویشناک پہلو اس کا تیز رفتار پھیلاؤ ہے۔ جس تیزی سے کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہ سب کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق ''یہ وبا انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ پہلے 100,000 کیسز 67 دنوں میں رونما ہوئے، اگلے 100,000 کیسز 11 دنوں میں، اس کے بعد کے 100,000 کیسز 4 دنوں میں، اور پھر اگلے 100,000 کیسز محض 2 دنوں میں وقوع پذیر ہوئے‘‘۔
کچھ روز پہلے تک کورونا کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے چین پہلے‘ اٹلی دوسرے اور امریکہ تیسرے نمبر پر تھا لیکن امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق امریکہ میں کورونا مریضوں کی تعداد 86000 تک پہنچ گئی ہے اور یوں وہ کورونا کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے چین اور اٹلی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے فہرست میں پہلے نمبر پر آ گیا۔ یہ اعدادوشمار امریکی عوام کے لیے انتہائی پریشان کن ہیں جو پہلے ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے کورونا کے خلاف اقدامات کرنے میں تاخیر کی تھی۔ کورونا وائرس، جس کا آغاز چین سے ہوا تھا، کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت تک دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا مریضوں کی تعداد 550,000 تک پہنچ چکی ہے اور اس وبا سے 24863 اموات ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی میں سامنے آیا۔ یہ مریض زائرین کے اس قافلے کا حصہ تھا‘ جو تفتان سے آیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً ایک مہینے کے اندر پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 1,179 ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ ان میں وہ مریض شامل نہیں جو تفتان سے آئے اور جنہیں قرنطینہ (Quarantine) میں رکھا گیا ہے۔ اس عرصہ میں یہ وبا پاکستان کے تمام صوبوں میں پھیل گئی ہے۔ جمعہ کی شام تک کے اعدادوشمار کے مطابق مریضوں کی تعداد سندھ میں 440، پنجاب میں 419، خیبر پختون خوا میں 176، بلوچستان میں 131، گلگت بلتستان میں 92، آزاد کشمیر میں 1، اور وفاقی دارالحکومت میں 27 ہے۔ ان اعدادوشمار میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک اس سے 9 اموات ہو چکی ہیں جبکہ 5 افراد کی حالت نازک ہے۔ پاکستان میں یہ اعدادوشمار ناقابلِ اعتبار (Unreliable) ہیں کیونکہ ہسپتالوں میں Testing Kits کا شدید فقدان ہے‘ اور لوگوں کی سکریننگ نہیں ہوئی۔ ہسپتال جانے والے مریضوں کی اکثریت کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ گھر جا کر Panadol کھا لیں اور آرام کریں۔ خطرہ ہے کہ اگر وسیع پیمانے پر سکریننگ اور ٹیسٹ ہوئے تو مریضوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو گی۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اس وبا سے مقابلے کی تیاری کے لیے وقت تھا؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
31 دسمبر 2019ء کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کو الرٹ دیا گیا تھا کہ چین کے شہر ووہان میں نمونیا کے کیسز ہوئے ہیں۔ چینی حکومت نے بتایا تھا کہ یہ نئی قسم کا وائرس ہے۔ بعد میں اس وائرس کو COVID-19 کا نام دیا گیا۔ 30 جنوری کو WHO کے ڈائریکٹر جنرل نے COVID-19 کو اقوامِ عالم کے لیے پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دے دیا۔ چین کے بعد ایران میں تیزی سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہوا اور اموات کا تناسب زیادہ رہا۔ چین اور ایران دونوں پاکستان کے ہمسائے میں واقع ہیں۔ اس لیے پاکستان پر اس کے اثرات لازمی آنے تھے۔ لیکن ہم نے اس خطرے کو پوری طرح محسوس نہیں کیا۔ جب چین میں پاکستانی طالب علموں کے حوالے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اُنہیں فوری طور پر پاکستان نہیں لایا جائے گا تو یہ ایک مشکل لیکن مستحسن قدم تھا‘ لیکن اس کے بعد جس طرح کے حفاظتی اقدامات کیے جانے تھے‘ نہیں کیے گئے۔ بارڈر کو سیل نہیں کیا گیا۔ یوں تفتان سے ہزاروں زائرین اور سعودی عرب سے بے شمار لوگ پاکستان آئے جن میں بہت سے لوگ کورونا کے شکار تھے۔
اس دوران مختلف ممالک سے بے شمار مسافر آتے رہے لیکن ایئر پورٹس پر ان کی سکریننگ کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ یوں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگ آتے رہے اور مقامی آبادی میں گھلتے ملتے رہے۔ اس سارے عرصے میں سرکاری سطح پر ہسپتالوں میں جو انتظامات کیے جانے تھے نہیں کیے گئے۔ شاید یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ یہ وبا صرف دوسرے ممالک تک محدود رہے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے جتنے وینٹی لیٹرز، ٹیسٹنگ کٹس اور پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹس (PPE) کی ضرورت تھی ان کا انتظام نہیں کیا گیا۔
لوگوں کو کورونا کے حوالے سے معلومات اور احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔ سکول اور یونیورسٹیاں اسی طرح کھلی رہیں۔ بازار اور مارکیٹس میں لوگوں کا جمگھٹا ویسا ہی رہا۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کے وزیر اعلیٰ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پہل کرتے ہوئے دس ہزار کٹس کا آرڈر دیا۔ لیکن وفاقی سطح پر اور دوسرے صوبوں میں کورونا کے خلاف مہم میں کوئی جوش وخروش سامنے نہیں آیا۔
جب کورونا مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ شروع ہوا تو پتہ چلا ہمارے پاس نہ تو ہسپتالوں میں اتنے بیڈز کی گنجائش ہے نہ ہی Ventilators کی مناسب تعداد ہے۔ جو وینٹی لیٹرز موجود تھے‘ ان میں نصف کے قریب ناکارہ تھے۔ اسی طرح N95 ماسکس اور پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹس (PPE) جن کی مدد سے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکس کو محفوظ بنایا جا سکے‘ نہ ہونے کے برابر تھے۔
یہ بات طے ہے کہ اگر یہ وبا ایک جنگ ہے تو اس کی پہلی دفاعی لائن ہمارے میڈیکل پروفیشنلز ہیں۔ کورونا کے مریضوں کو علیحدہ رکھنے کے لیے جو قرنطینہ (Quarantine) بنائے گئے وہاں ڈاکٹرز بھی موجود رہتے ہیں۔ اسی طرح او پی ڈی میں بھی ڈاکٹرز اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے موجود رہتے ہیں۔ لیکن کیا ہم اس جنگ میں پہلی دفاعی لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکس کو وہ دفاعی آلات دے رہے ہیں‘ جن سے وہ اس موذی مرض کے خلاف جنگ لڑ سکیں؟ بد قسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اس کا پہلا شکار گلگت بلتستان کا ڈاکٹر اسامہ ریاض بنا۔ ڈاکٹر اسامہ کورونا کی سکریننگ پر مامور تھا لیکن اس کے پاس اپنی حفاظت کے لیے ضروری آلات نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ نتائج سے بے نیاز، دیوانہ وار اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہا۔ یہ اس کے پیشے کا تقاضا تھا۔ اس نے نہ دن کا چین دیکھا نہ رات کا آرام۔ آخر کار کورونا وائرس نے نوجوان ڈاکٹر کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ اسے بے ہوشی کے عالم میں گلگت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں لایا گیا‘ جہاں وہ جان کی بازی ہار گیا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر ڈاکٹر اسامہ کے پاس PCR کِٹ ہوتی تو وہ بچ سکتا تھا۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کورونا کے حوالے سے سب سے مؤثر احتیاط Social Distancing ہے۔ اسی لیے عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور دوسرے افراد سے کم سے کم Contact کریں لیکن ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف ہماری حفاظت کے لیے اپنے محفوظ اور آرام دہ گھروں سے نکل کر ہسپتالوں میں موجود رہتے ہیں جہاں وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہماری زندگیاں بچانے میں مصروف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا کے خلاف اگلے دفاعی مورچوں میں لڑنے والوں کو نہتا نہ چھوڑا جائے۔ اس موذی مرض سے لڑنے کے لیے انہیں فوری طور پر N95 ماسکس، گلوز، فیس شیلڈز، پروٹیکٹوگاگلز، شوکورز، مہیا کیے جائیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ایک سوال ہے جو سب کی نگاہوں میں ہے۔ اس وبا کے خلاف پہلے دفاعی مورچوں پر لڑنے والے قوم کے ان مسیحاؤں کی چارہ گری کون کرے گا؟ کب کرے گا؟