تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     28-03-2020

سب سے ہلاکت خیز مخلوق

کیا دہشت پھیلائی ہے اس ننھی سی جان نے۔ مشرق سے مغرب تک۔ شمال سے جنوب تک۔ ایسا خوف، ایسی قید نہ دیکھی، نہ سنی، نہ تصور کی۔ لیکن اس دنیا اور اس کائنات کے عجائبات کبھی ختم ہوتے ہی نہیں۔ کورونا کی پھیلائی تباہی اپنی جگہ لیکن اس کا خوف اس سے بھی سوا ہے۔ ہر جسم میں رینگتا کنکھجورے جیسا یہ خوف ایسا سمایا ہے کہ کچھ اور سوچنے، کسی اور طرف دیکھنے کی مہلت ہی نہیں دے رہا۔
ہر ایک جسم میں موجود ہشت پا کی طرح 
وبا کا خوف ہے خود بھی کسی وبا کی طرح 
لیکن بات انصاف کی کرنی چاہیے۔ حافظہ ٹٹولیں، کتابیں کھنگالیں، تاریخ پڑھ لیں پھر دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔ کیا تمام تر اموات کے باوجود، ساری حشر سامانی کے ساتھ بھی، کوئی وائرس، کورونا سمیت کوئی بھی وائرس انسان جیسا بے رحم ثابت ہو سکا ہے؟ کوئی بھی بیماری، طاعون جیسی وبائی بیماری سمیت، انسان کی اپنی ہلاکت خیزی کے عشر عشیر کو بھی چھو سکی ہے؟ کیا کسی جرثومے نے انسانی سروں کے مینار بنوائے؟ دودھ پیتے بچوں کو سنگینوں اور نیزوں پر اچھالا؟ غذا اور پانی وافر ہوتے ہوئے بھی انسانوں پر کھانا پینا حرام کیا؟ کسی وائرس نے کوئی عقوبت خانہ بنایا؟ ایذا رسانی کے نت نئے طریقے ایجاد کیے؟ لوگوں کی چیخیں سن کر تسکین محسوس کی؟ سچ یہی ہے کہ یہ سارے شرف صرف حضرت انسان کے حصے میں آئے۔
زمین زادوں نے بے شمار وبائیں چکھی ہیں لیکن غالباً انسانی تاریخ کی مہلک ترین وبائی بیماری طاعون یا پلیگ رہی ہے۔ دہشت اور خوف کی کالی دیوی۔ اسے کالی موت کا لقب دینا بذات خود اس دہشت کو ظاہر کرتا ہے۔ بغل میں گلٹی نمودار ہوتی تھی تو چہروں پر موت کی زردی کھنڈ آتی تھی۔ آخری ساعت غیر یقینی ہونے کے باوجود جیسے سامنے کھڑی ہوتی تھی۔ ایک ایک دن میں سینکڑوں اور ہزاروں لوگ اس پل کے دوسرے پار اترتے تھے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ حالت ہوتی تھی کہ کسی بستی، کسی علاقے میں تیماردار، معالج نہیں صرف بیمار ہوتے تھے۔ اسی زمین نے طاعون کی کیسی کیسی کہانیاں سنیں۔ شجروحجر نے کیسے کیسے واقعات دیکھے۔ بہت سے طاعونوں کی تاریخ میں ایک وہ بھی تھا جو 541-542 عیسوی میں نمودار ہوا تھا اور جسے تاریخ 'جسٹنین کا طاعون‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد انسان اس کی نذر ہو گئے تھے۔ 639 عیسوی یعنی 18 ہجری میں طاعون عمواس تو مسلم تاریخ کے بہت اہم واقعات میں سے ہے۔ عمواس دراصل فلسطین کا ایک شہر تھا جہاں یہ وبا نمودار ہوئی تھی۔ بے شمار جلیل القدر صحابہ سمیت تنہا اس طاعون میں 25 ہزار انسان جاں بحق ہوئے تھے۔ کتابیں پلٹتے جائیے اور جرثوموں، وباؤں اور بیماریوں کی انسان کش تاریخ پڑھتے جائیے۔
لیکن انسان ان انسانیت کش وباؤں، ان بیماریوں، ان جرثوموں میں سب سے بڑا اور سب سے عظیم ہونے کا اعزاز باقی رکھے ہوئے ہے۔ انسان کی پھیلائی تباہی اور اس کے دیگر اثرات مثلاً بے گھری، بے وطنی، دربدری، معذوری اور بھوک سے روز جینا اور روز مرنا تو اس ہشت پا کی محض چند ٹانگیں ہیں۔ قابیل نے پہلے انسانی قتل کے ذریعے جو روایت قائم کی تھی وہ کم ہونے میں نہیں آرہی جبکہ زمین کا آخری دور قریب آلگا ہے۔ سکندر اعظم کی ہوس ملک گیری ہو، چنگیز کی خون آشامی یا ہلاکو کی بربریت‘ سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک۔ یہ سب سروں کی وہ فصلیں کاٹنے کے لیے نمودار ہوئے تھے جو انسانوں نے بڑی محنت سے تیار کی تھیں، کتنی نسلوں نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا۔
قبل از تاریخ کو چھوڑئیے، انسانی تاریخ کی قریب ترین عالمی جنگوں میں پہلی جنگ عظیم 1914-1918 میں ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ انسان ہلاک اور دو کروڑ کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ انسانی تاریخ کی تاحال بھیانک ترین بڑی جنگ یعنی دوسری جنگ عظیم 1939-1945 میں ساڑھے آٹھ کروڑ لوگ موت کے گھاٹ اترے۔ یہ تعداد 1940میں دنیا کی مجموعی آبادی 2.3 ارب کا 3 فیصد بنتی ہے۔ زخمیوں کی تعداد الگ ہے۔ جنگ عظیم دوم میں صرف دو دنوں کے دوران ڈریسڈن میں آتشگیر بموں سے مرنے والے عام شہریوں کی تعدادایک لاکھ 35ہزار تھی۔ ایک ہفتے بعد فورزہیم، جرمنی میں صرف 22 منٹ میں مرنے والے عام شہریوں کی تعداد 18ہزار کے قریب تھی۔ میں یہاں روس اور سٹالن گراڈ کی ہولناک لڑائیوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کا ذکر چھوڑ رہا ہوں۔ لڑائیوں، ان جنگوں سے پھوٹنے والی بیماریوں اور وباؤں کی بات بھی الگ ہے اور دربدر ہوجانے، بے گھر ہونے، پناہ گزینوں کا ذکر بھی یہاں نہیں ہے۔ قیدوبند کے مصائب کا ذکر بھی یہاں بہت وقت لے گا۔ یہ سب انسان کے ہاتھوں انسانی جان کی وہ پامالی ہے جس کیلئے قتل، تذلیل، بے حرمتی سمیت لغت کے سبھی الفاظ ناکافی لگتے ہیں۔
آپ کو شاید معلوم نہ ہوکہ جنگ کی سادہ سی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ انسانی لڑائی جس میں کم از کم 1000 جانیں گئی ہوں۔ یہ تو آپ کو یقینا علم نہیں ہوگا کہ انسانی تاریخ کے گزشتہ 3500 سالوں میں صرف 268 سال امن کے گزرے ہیں جس میں کوئی جنگ نہ ہوئی ہو‘ یعنی معلوم انسانی تاریخ کا صرف 8 فیصد۔ ریکارڈ شدہ انسانی تاریخ کو دیکھیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لگ بھگ ایک ارب یعنی سو کروڑ لوگ صرف جنگوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ صرف بیسویں صدی میں دس کروڑ اسی لاکھ ہلاکتیں۔ اندازہ کیجیے کہ دنیا کے تمام ممالک میں دو کروڑ تیرہ لاکھ انسان فوجی اور جنگی خدمات کیلئے ہیں۔ تنہا چین کی فوج 24 لاکھ انسانوں پر مشتمل ہے۔ 2003 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق اس سال دنیا میں 30 جنگیں لڑی جارہی تھیں۔ تنہا گوری اقوام نے براعظم امریکہ کی دریافت کے بعدصرف شمالی امریکہ میں الگ الگ اور ایک ملک بننے تک لگ بھگ ایک کروڑ کے قریب مقامی باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ پھر دوسری اقوام کی جو ہلاکتیں امریکہ کے ہاتھوں آج تک ہوئیں اور جو آج تک جاری ہیں میرا اندازہ ہے کہ سب ملا کر ایک کروڑ کے قریب انسان تو بنتے ہی ہوں گے۔ 1900 سے1990 کے دوران جنگوں میں 4کروڑ 30لاکھ فوجی اور 6کروڑ 20لاکھ سویلین فنا ہوگئے۔ زیادہ ہلاکت تو ان کے نصیب میں آتی ہے جن کا جنگوں سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ اور خود لڑنا بھی ایک طرف۔ دوسروں کو لڑنے پر اکسانا، اس کے اسباب پیدا کرنا۔ ہتھیار بنا کر لڑنے والوں کو فروخت کرنا۔ ان ہتھیاروں کی آزمائش کے لیے ملکوں اور اقوام کو موت کے گھاٹ اتارنا۔ کیا کوئی وائرس یہ سب کرسکتا تھا؟ صرف 2001 میں امریکہ نے 9.7 بلین امریکی ڈالرز، روس نے 5.8 بلین ڈالرز، یوکے نے 4 بلین ڈالرز کا اسلحہ اور ہتھیارعالمی خریداروں کو فروخت کیے۔
مانیں نہ مانیں، زمین کی تاریخ کا سب سے بڑا جرثومہ انسان ہے۔ اس نے کیا کیا زمین زاد قتل نہیں کیا۔ نباتات، جمادات، حیوانات، ماحول، فضا، آب و ہوا‘ قدرت کا توازن‘ فطرت کی ترتیب۔ اور یہ جرثومہ ہر کچھ عرصے بعد اسی طرح پھوٹتا اور زمین پر حملہ آور ہوتا رہا ہے جیسے انسانی جسم میں وبا پھیلتی ہے۔ ہر ذی روح میں اللہ نے ایک دفاعی نظام رکھا ہے جو بیماری سے لڑتا اور اسے یا ختم کردیتا ہے یا لڑتے لڑتے خود ختم ہوجاتا ہے۔ زمین بھی ایک ذی روح ہے۔ ایک دفاعی نظام اس کا بھی ہے۔ کچھ انسان اس انسانی جرثومے کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور یا خود ختم ہوجاتے ہیں یا اسے ختم کردیتے ہیں۔ وقت، اسباب، علاقہ اور ہتھیار بدلتے جاتے ہیں لیکن یہ تماشا جاری رہتا ہے۔ تو کیا غلط کہا میں نے کہ انسان زمین کا سب سے بڑا اورمہلک جرثومہ ہے۔ ذرا کورونا کی بعد کی دنیا پر ایک نظر ڈالیے۔ تمام جنگیں رک چکی ہیں۔ تمام سرحدی جھگڑے کم از کم ظاہری طور پر دب چکے ہیں۔ ایک دوسرے پر غلبے کی خواہش دم دبا کر بیٹھ گئی ہے۔ کورونا کے خوف نے ہر بڑھک، ہر نعرے اور ہر دھمکی کے منہ پر تالا ڈال دیا ہے۔
خلاصہ؟ خلاصہ یہ ہے کہ ایک دکھائی نہ دینے والے جرثومے نے زمین کے سب سے بڑے جرثومے کو چاروں شانے چت گرا دیا ہے اوراس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا ہے۔ بڑے صاحب کی گھگھی بندھی ہوئی ہے۔ کل کیا ہو خبر نہیں، لیکن اس منظر کے عینی شاہد ہیں۔ دعائیں اپنی جگہ، انسانیت کا درد اپنی جگہ۔ تکلیف اپنی جگہ۔ لیکن انہی کے درمیان زمین کے طاقتور ملکوں، سب سے بڑے جرثوموں کی مٹی پلید ہوتے دیکھنا۔ ایک کمینی سی خوشی تو بہرحال ہے۔ کیا نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved