''آبِ رواں‘‘ سے ایک شعر ہے؎
دل سے تو خیر دھو گئی بارش تمام نقش
دیوارِ شہر کا بھی وہ عالم نہیں رہا
بارشیں رکنے کی بجائے متواتر ہوتی جا رہی ہیں اور گرمیوں کا انتظار اس لیے بھی ہے تا کہ کورونا کا زور ٹوٹے، اس لیے بارشوں کا خلافِ معمول کوئی مزہ نہیں آ رہا۔ اگرچہ درختوں کے پتے مزید سبز ہو گئے ہیں اور گھاس بھی خوب چمکنے لگی ہے البتہ پرندے کافی حد تک سہمے ہوئے ہیں، چہکار کم ہو گئی ہے۔ فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہوا مزید صاف ہو گئی ہے جو عام حالات میں نصیب نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہاں فارم ہائوس پر ویسے ہی اس کی فراوانی ہے اور اس شعر میں جو حسرت ظاہر کی گئی ہے وہ یہاں پوری ہو گئی ہے؎
اب تو وہاں جا رہیں جہاں ہو
تازہ ہوا اور میٹھا پانی
جبکہ یہاں تو پانی بھی زیادہ صاف ہے کیونکہ علاقہ شہر سے دور ہے اور زیر زمین پانی آلودہ ہونے سے بچا ہوا ہے اور زیر زمیں پانی کے حوالے سے بھی بری خبر یہ ہے کہ اگر ہم پانی کا استعمال اسی طرح بے رحمانہ طور پر کرتے رہے تو پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسا کریں گے کیونکہ زیر زمیں پانی رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا جا رہا ہے اور شاید اسی لیے حکومت نے کاروں کو پائپ کے ذریعے دھونا خلافِ قانون اور قابلِ سزا قرار دیا ہے!
پرندوں کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ فاختہ جو کئی دن سے غیر حاضر تھی اور میری فکر مندی کا باعث بن رہی تھی، آج کہیں سے آ نمودار ہوئی ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ کہیں خلیل خاں کے ہتھے چڑھ گئی ہے جو اسے اڑا رہے ہیں یا مودی کو امن کا پیغام دینے کے لیے بھارت چلی گئی ہے لیکن اگر وہاں جاتی تو زندہ واپس کیسے آتی؟ مجھے دیکھ کر یہ بھی حیران ہوئی ہوگی کہ یہ بابا جی ایک دم کہاں سے آ گئے ہیں، میں تو سمجھ رہی تھی کہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں! ایک اور تبدیلی یہاں پر یہ نظر آئی ہے کہ صفائی ستھرائی کے لیے ایک فلپائنی خاتون کو برسرِ کار دیکھا۔ معلوم ہوا کہ یہ بی بی دراصل آفتاب کی چار پانچ سالہ بیٹی کی اتالیق ہے اور چونکہ سکول آج کل بند ہیں، اس لیے اسے یہاں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ اس سے باقاعدہ پوچھا گیا تھا کہ یہ اور کیا کیا کام کرنا پسند کرے گی جس میں اس نے گھر کی صفائی کا بھی عندیہ دیا تھا کہ ہماری طرح ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے کاموں کو عیب نہیں سمجھا جاتا اور جیسا کہ غالبؔ نے کہا ہے ؎
پیشے میں عیب نہیں رکھیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
واضح رہے کہ یہاں جواں میر کا مطلب جوان میر تقی میرؔ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب جلد ہی یعنی جوانی ہی میں وفات پا جانے والا ہے۔
ایک زیادہ تشویشناک بلکہ مایوس کن خبر یہ بھی ہے کہ اخبارات کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہو سکا۔ ہاکر حضرات کے حوالے سے بھی کہیں نہ کہیں مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں پر ہاکرز کے مدار المہام وارث نقوی جو میرے دوست بھی ہیں، نے ہاکرز کے پرابلم کے بارے بتایا تھا۔ تاہم یہ وعدہ کیا تھا کہ اخبار وہ کسی نہ کسی طرح پہنچائیں گے لیکن فی الحال اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ غالب نے جو کہا تھا؎
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
رویے زار زار کیاکیجیے ہائے ہائے کیوں
لیکن اب تو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ غالبؔ ہیں یا نہیں، سارے کام بند پڑے ہیں۔ اور جاری ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں اور رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
تنو مند اور ثمر دار شجر ہوتے تھے
اب جہاں گھاس کھڑی ہے وہاں گھر ہوتے تھے
اتنی بیگانگی آپس میں نہ تھی، اور سب کے
ایک ہی دوسرے کی سمت سفر ہوتے تھے
شہر آباد تھا ایسا کہ ہم ایسوں کی جگہ
کُوچے کُوچے میں یہاں اہلِ ہنر ہوتے تھے
چاند کی چاندنی بھی تھی نہ ضروری یکسر
کہ سمندر یہاں خود زیر و زبر ہوتے تھے
گرچہ موقعہ تو ملاقات کا آتا نہیں تھا
اس کے امکان مگر شام و سحر ہوتے تھے
خود ہی جو منزلِ مقصود کا دیتے تھے سراغ
اس طرح کے بھی یہاں راہگزر ہوتے تھے
عشق میں کوئی تجارت نہیں ہوتی تھی کبھی
اس لیے اس میں زیاں تھے نہ ضرر ہوتے تھے
نازنینوں کے جو ہوتے تھے دلوں پر حملے
اور ہی طرح کے ہوتے تھے اگر ہوتے تھے
آنا جانا، ظفرؔ، اس طرح نہیں تھا مشکل
تھی جو دیوار تو دیوار میں در ہوتے تھے
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں ، ظفر
کہاں سے دور ہے دنیا ، کہاں سے دور نہیں