کس قدر خوش قسمت ہے یہ خطّہ اور کس قدر خوش نصیب ہیں اس سرزمین کے لوگ کہ آقائے دو جہان‘ سرورِ دو عالم حضرت محمدﷺ نے جہاں اس سرزمین سے اپنی محبتوں کا اظہار اس صورت میں کیا کہ انہیں یہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی وہاں ذخیرۂ حدیث میں ایک ایسی حدیث بھی ملتی ہے جسے پاکستان کے دفتر خارجہ کے صدر دروازے پر تحریر ہونا چاہیے۔ یہ حدیث اس خطے میں سازشوں کے تانے بانے اور چھپے ہوئے دشمنوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اسے امام قرطبی نے تذکرہ القرطبی میں درج کیا ہے۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں رسول اللہﷺ زمین کے اطراف میں خرابیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ امام ابو عبداللہ القرطبی مسلم ہسپانیہ کے شہر قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ وہی قرطبہ جو یورپ میں مسلمانوں کے عروج کی علامت تھا اور جس شہر کے علم کے خزانوں سے یورپ میں تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا تھا۔ یہ قرطبہ کے زوال کا وقت تھا۔ عیسائی متحدہ قوت کے طور پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ ان کے والد ایک کسان تھے جو 1230ء میں ایسے ہی ایک حملے میں مارے گئے۔ اس وقت امام قرطبی ایک مدرسے میں تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے۔ مالی وسائل نہ رہے تو کمہاروں کے برتن بنانے کے لیے مٹی ڈھونے کا کاروبار شروع کیا اور تعلیم جاری رکھی۔ آپ عبدالرحمن ابن احمد الاشعری جیسے عالمِ دین کے شاگرد رہے۔ جب قرطبہ پر فرڈیننڈ نے قبضہ کیا تو آپ مصر کے شہر سکندریہ آ گئے اور پھر قاہرہ میں تحصیل علم جاری رکھی۔ قرطبی اس دور کے عظیم مفسر اور محدث تھے جو مدینہ کے باسی امام مالکؒ کے مسلک پر تھے۔ آپ نے شہرۂ آفاق تفسیرِ قرطبی تحریر کی جو بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کی کتب میں تزکیۂ نفس اور خواہشاتِ نفس کے کچلنے کا بہت تذکرہ ہے۔ ایک ایسا درویش صفت اور نام و نمود سے دور یہ شخص 1273ء عیسوی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ انہیں منیہ ابی الخوسب میں دفن کردیا گیا۔ لیکن قرطبی کے علم کا شہرہ ایسا پھیلا کہ 1971ء میں ان کے جسدِ خاکی کو قاہرہ کی بڑی مسجد کے پہلو میں لا کر دفن کیا گیا اور عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ حدیث میں امام مالکؒ کے مسلک پر قائم لوگ حدیث کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ ان کی روایات کا سارا دارومدار میرے آقاﷺ کے شہر مدینہ کے رہنے والوں پر رہا ہے۔ اسی لیے امام قرطبی جیسا عالم اور صوفی منش درویش جب کسی حدیث کو اپنی کتابوں میں درج کرتا ہے تو بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس حدیث کا ویسے بھی مسلمانوں کے چودہ سو سال کے اندر ہونے والے علمی اختلافات اور سیاسی جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ یہ شیعوں کے حق میں ہے نہ سنیوں کے‘ نہ یہ معتزلہ کے مسلک والی ہے اور نہ ہی خارجیوں کی تائید کرتی ہے۔ اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے آج سے ایک ہزار سال قبل ایک خاص مقصد کے لیے گھڑا گیا تھا تاکہ فلاں گروہ کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ تو آنے والے زمانوں کی خبر ہے جو میرے آقاؐ نے میرے خطے کے لیے دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’خراب السند بالھند و خراب الھند با العین‘‘ (سندھ کی بربادی ہند سے اور ہند کی بربادی چین سے)۔ سندھ کا جغرافیہ اس زمانے کی تاریخ کی کتابوں میں اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو علم ہوگا کہ یہ بلوچستان کے ساحلوں سے لے کر راوی و چناب کے کنارے آباد بستیوں تک جاتا تھا۔ وہ تمام ماہرینِ آثار قدیمہ جنہوں نے دریائے سندھ کی تہذیبوں کی کھدائی پر کتابیں لکھی ہیں‘ سب کے سب اسے ایک منسلک تہذیبی علاقہ سمجھتے ہیں‘ جبکہ اس علاقے کے شمال اور مغرب میں قدیمی خراسان کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا جو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ژہوب اور پشین سے ہوتا ہوا قندھار اور غزنی اور پھر ہلمند سے مشہد تک جاتا ہے۔ مشہد کے رہنے والے ایران میں خراسانی کہلاتے ہیں۔ افغانستان میں خراسانیوں کو اکھڑ اور گنوار کے طورپر لیا جاتا ہے اور ایران میں بھی خراسانیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ لیکن یہ وہی خراسان ہے کہ جہاں سے اٹھنے والے سیاہ پرچموں کے بارے میں میرے آقاؐ نے فرمایا کہ وہ سیدھے ایلییا یعنی بیت المقدس میں جاکر نصب ہوں گے۔ اس زمانے کے جغرافیے کو ذہن میں رکھیے۔ اس زمانے کا چین آج بھی ویسا ہی ہے، جیسا تب تھا اور ہند بھی ویسا ہے یعنی بھارت ، لیکن سندھ کا خطّہ اور کچھ خراسان کا حصہ مل کر پاکستان بن چکا ہے۔ خراسان کے اس حصے پر ڈرون حملے ہوں، فوجی آپریشن ہوں، قتل وغارت اور بربریت ہو لیکن وہاں سے کبھی اس مملکت خداداد پاکستان سے علیحدگی کی صدا بلند نہیں ہوئی۔ ایک زمانے میں پختونستان کا نعرہ تھا جو اپنی موت آپ مرگیا۔ اب تو دنیا بھر میں سب سے زیادہ پختون اگر کسی ایک شہر میں آباد ہیں تو وہ کراچی ہے۔ اس پاکستان کا وہ حصہ جہاں اگر کوئی ایک سیٹ ہارنے لگے تو چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ ہمیں پاکستان سے الگ کردو ، کراچی اسی قدیمی سندھ میں واقعہ ہے۔ جس سرزمین یعنی بلوچستان پر 1948ء سے علیحدگی کی تحریکوں کو پذیرائی مل رہی ہے‘ وہ بھی اسی قدیمی سندھ میں ہے، خواہ وہ مکران کے ساحل ہوں یا بولان کی اس ندی کے آس پاس جو دریائے سندھ میں آکرگرتی ہے۔ اس تمام معاملے کے بارے میں تجزیہ نگار جو بھی منطق بھگارتے رہیں، سیاسی شعبدہ باز جیسی بھی تقریریں کرتے رہیں، دنیا بھر کے معاشی پنڈت جس طرح کی مرضی توجیہات پیش کریں، میرے پاس تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر ایمان لانے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ میرا اللہ قرآن پاک کی سورہ الحشر کی آیت نمبر 7میں حکم فرماتا ہے ‘‘ اور رسول تمہیں جوکچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں ، اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔ اور اللہ نے اسی میں کامیابی کی ضمانت بھی رکھ دی۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر 71میں فرمایا ’’جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی‘‘۔ میرے آقاؐ جس خطے یعنی بھارت کو پاکستان کے لیے خرابیوں کی جڑقرار دیتے ہیں ہم بار بار اس سے دوستی کواپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں جب میں نے سیدالانبیاؐء کی یہی حدیث سنائی تو اس ملک پر برسراقتدار آنے والے اور مستقبل میں بھارت سے دوستی کا خواب دیکھنے والوں کو زمینی حقائق یاد آگئے ۔ یہ لوگ کس قدر خوش ہیں اور وہ سب لوگ جو اس ملک میں بھارت سے دوستی کا خواب دیکھ رہے تھے ان کی خوشی بھی قابلِ دید ہے۔ یہ سب لوگ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خارجہ پالیسی گائیڈ لائن کے مقابل زمینی حقائق پر گفتگو کرتے ہیں۔ نظام الدین اولیاؒء یاد آرہے ہیں۔ دربار میں طلب ہوئے، وقت کے بادشاہ نے سوال پوچھا‘ تم چشتیوں کے ہاں سماع کے بارے میں کیا دلیل ہے؟ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنائی اور فرمایا اس سے گنجائش نکلتی ہے۔ دربار میں موجود ایک درباری عالم نے سوال کیا، اس پر امام ابوحنیفہؒ کا کیا قول ہے۔ نظام الدین اولیاؒء نے فرمایا ’’وہ شہر ویران کیوں نہیں ہوجاتا جہاں رسولﷺ کی حدیث کے بعد کسی اور کا قول طلب کیا جائے‘‘ اور تاریخ نے دیکھا کہ صرف چند سال بعد 1323ء عیسوی بمطابق 727ہجری دلی کا شہر ایسا اجڑا کہ وہاں بازاروں میں کتے بھونکتے تھے اور انسان غائب۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved