تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-05-2013

بلاعنوان

میرے اندر ایک مسافر ہے جو مجھے سدا متحرک اور بے چین رکھتا ہے۔ یہ صرف گھر سے باہر پر ہی منحصر نہیں ہے میں گھر میں بھی اسی طرح ہوں۔ اپنے کمرے میں میرا اب دل نہیں لگتا۔ بچے میرے آنے سے محتاط اور مودب سے ہوجاتے ہیں۔ میں جلد ہی ان کے کمرے سے اٹھ کر چلا جاتا ہوں۔ میں ابھی دروازے سے پار بمشکل پہنچتا ہوں کہ ان کی زندگی اور شرارت سے بھرپور قہقہے سنائی دیتے ہیں۔ میں لائونج میں بیٹھتا ہوں۔ وہاں سے کچن کا جائزہ لینے اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ کچن کیبنٹس، فریج اور پھر کچن سٹور پر نظر دوڑاتا ہوں۔ ختم ہوچکی اور ختم ہونے کے قریب اشیاء نوٹ کرتا ہوں۔ پھر باہر صحن میں چلا جاتا ہوں۔ گرمی سے پودے مرجھا رہے ہوتے ہیں۔ پانی کا پائپ لگا کر پودوں پر پھوار مارتا ہوں‘ پھر دروازہ بند کرکے لائبریری میں آجاتا ہوں۔ ایک کتاب کے چند صفحے پڑھتا ہوں۔ نظر دھندلا جاتی ہے۔ اب نظر زیادہ دیر ساتھ نہیں دیتی۔ کتاب کو واپس اس کی مقررہ جگہ پر رکھتا ہوں۔ پھر واپس اپنے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔ میری منجھلی بیٹی اس ساری صورتحال سے پریشان ہوتی ہے مگر خاموش رہتی ہے۔ میں بھی اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا مگر اس عمر اور حالات میں طبیعت مکمل طور پر بدلی تو نہیں جاسکتی۔ بے چینی کا اور میرا جنم جنم کا ساتھ ہے۔ اللہ بخشے میری والدہ مجھے بے چین روح کہا کرتی تھیں۔ وہ بھی ہر وقت گھر میں میری مسلسل بے چینی سے پریشان رہتی تھیں مگر کبھی تنگ نہیں پڑتی تھیں۔ یونیورسٹی میں میرے سارے استاد آہستہ آہستہ اس چیز کے عادی ہوگئے تھے کہ میں خاموشی سے آدھ پون گھنٹے بعد کلاس سے اٹھ کر چلا جائوں گا اور چار پانچ منٹ بعد برآمدے میں گھوم کر، کلرکوں کے کمرے میں جھانک کر یا کینٹین پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لے کر آجائوں گا۔ والد صاحب اکثر لاہور جاتے تھے۔ میں ان کے ساتھ ہمیشہ لاہور جاتا تھا۔ شاید بچپن کے اسی مسلسل ساتھ کے باعث میری والد صاحب سے ان کی طبیعت کی سختی کے باوجود بڑی کمپنی تھی اور محبت بھی۔ صبح ان کے ساتھ حاجی بٹے کے باغ میں سیر کرنے جانا، پیر روڑے ہر منگل کی سہ پہر کُشتیاں دیکھنے جانا۔ عصر کی نماز کے بعد پھکر پہلوان کے اکھاڑے پر جانا۔ غرض چھوٹی چھوٹی سیرو تفریح کی ایک دنیا تھی اور میں تھا۔ ابھی گرمیوں کی چھٹیاں دور ہوتی تھیں کہ لاہور جانے کی تیاری شروع ہوجاتی تھی۔ لاہور جانے کے لیے سکول سے ملا ہوا گرمیوں کی چھٹیوں کا کام ختم کرنا اس سلسلے کی پہلی اور آخری شرط ہوتی تھی۔ دوپہر کو جب والد صاحب سو جاتے ہم چپکے سے دروازہ کھول کر گھر سے باہر چلے جاتے۔ شدید گرمی میں گھر کے پچھواڑے واقع کھیتوں میں آم کے پودے تلاش کیے جاتے۔ دائرہ بستی میں جا کر آنہ لائبریری والے کو پچھلی کتاب واپس کی جاتی اور نئی کتاب کرائے پر لائی جاتی۔ اسی دوران راستے میں کسی نہ کسی سے خوامخواہ پنگا لیا جاتا۔ نتیجتاً مارکٹائی ہوتی۔ کبھی کبھار سوجی ہوئی آنکھ یا پھٹا ہوا ہونٹ مصیبت کھڑی کردیتا۔ لہٰذا والد صاحب سے جھوٹ گھڑنا پڑتا تاہم والدہ ہمارے کسی بہانے پر یقین کیے بغیر مارنے والے کو زیرلب بددعائیں دیتے ہوئے گرم کی ہوئی اینٹ کے ٹکڑے کو کپڑے میں لپیٹ کر سوجی ہوئی جگہ کی ٹکور کرتیں۔ ہفتہ دس دن بعد جب کام کے صرف چار پانچ صفحے ہی لکھے گئے ہوتے تھے میری بڑی بہن ترس کھاتے ہوئے دوپہر کو شدید گرمی میں چھت پر جا کر برآمدے میں بیٹھ کر میرا کام کرتی۔ تین چار دن میں وہ چھٹیوں کا سارا کام مکمل کرتی۔ اگلے روز ریل کار میں ایڈوانس بکنگ کروائی جاتی اور دو تین دن بعد ہم لاہور روانہ ہو جاتے۔ لاہور روانگی سے ایک دو دن پہلے منڈی سے آم منگوائے جاتے۔ ٹوکریاں اور ٹاٹ خریدا جاتا۔ سؤا اور ستلی منگوائی جاتی۔ آموں کو ٹوکریوں میں ڈالنے سے پہلے نیچے خشک گھاس بچھائی جاتی۔ ٹاٹ کاٹ کر ٹوکری کے منہ پر لگایا جاتا اور پھر سوئے اور ستلی کی مدد سے ٹاٹ سی دیا جاتا۔ لکڑی کی باریک شاخ کو لکھنے کے قابل بنانے کی غرض سے ایک سرے کو کسی سخت چیز سے کوٹا جاتا‘ پھر سیاہی سے اس خود ساختہ منی برش سے تایا، چچا، ماموں اور خالو کے نام اور پتے لکھے جاتے۔ آم بک کروائے جاتے اور ہم ان کی بکنگ کی رسیدیں لے کر بشیر کے ساتھ لاہور روانہ ہوجاتے۔ آم اگلے روز پہنچتے مگر ہمیں مزید دو چار دن انتظار کرنا پڑتا تاکہ آم پک سکیں۔ بشیر ہمیں چھوڑ کر واپس آجاتا۔ کبھی ہم لوگ خالہ کے پاس وحدت کالونی چلے جاتے اور کبھی ماموں کے پاس لوہاری دروازے کے اندر چار منزلہ ایسے مکان میں چلے جاتے جس کی ہر منزل ایک کمرے پر مشتمل تھی۔ ہم چاروں بہن بھائی اور چھ کزن تیسری اور چوتھی منزل والے کمروں پر قابض ہوجاتے۔ لوڈشیڈنگ کا لفظ بھی موجود نہیں تھا۔ ائیرکنڈیشنڈ کی شکل تب تک صرف دور سے دیکھی تھی۔ کمرے کے دونوں طرف والی کھڑکیاں کھول کر جب پنکھا چلایا جاتا تھا تو پسینے کے باوجود ہم خود کوکسی چھوٹے موٹے ہل سٹیشن پر محسوس کرتے تھے۔ باقی بہن بھائی پندرہ بیس دن بعد واپس آجاتے مگر میں لاہور میں ٹک جاتا تھا۔ کاچھوپورہ میں چچا شہباز اور اس سے متصل پھپھو رضیہ کے گھر جتنے دن بھی گزرتے روز نیا ایڈونچر ہوتا۔ پھپھو کا بیٹا ہمارا چیف ہوتا تھا۔ روز شام کو کوئی نہ کوئی فریادی یا شکایتی پارٹی پیش ہوتی۔ طارق کی پٹائی ہوتی اور مجھے مہمان ہونے کی رعایت دی جاتی۔ ویسے بھی چچا کا خیال تھا کہ میں اتنا شریف بچہ ہوں کہ کوئی گڑبڑ کر ہی نہیں سکتا۔ سارا ملبہ طارق پر ڈالا جاتا کہ اس کی شہرت اس سلسلے میں ویسے بھی خراب تھی۔ ہمیں طارق کی محبت سے محفوظ رکھنے کی غرض سے طارق کو محمود بوٹی پھوپھا کے پاس رقبے پر بھیج دیا جاتا۔ ہمارا سارا چارم ختم ہوجاتا لہٰذا میں وہاں سے پیدل شادباغ تایا نواز کے گھر چلاتا جاتا۔ وہاں بھائی جان پرویز اور ان کے چھوٹے بیٹے عابد سے میری بنتی تھی۔ میں آدھا دن ان کے ساتھ ہنڈا70 پر گھومتا۔ ہر تیسرے دن چڑیا گھر جاتا۔ تائی مرحومہ میرے ہر تیسرے دن چڑیا گھر جانے کا مذاق بھی اڑاتیں اور تیسرے دن چڑیا گھر جانے کے لیے ٹکٹ اور کھانے پینے کے پیسے بھی دیتیں۔ چار پانچ بار چڑیا گھر جانے کے بعد بھی میرا دل تو نہیں بھرتا تھا مگر کوئی کزن ساتھ جانے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔ جب کزن چڑیا گھر کی مزید سیر سے یکسر انکاری ہوجاتے تو میں بھی ملتان جانے کے لیے تیار ہوجاتا۔ اب اگلی منزل بہاولپور ہوتی تھی۔ فرید گیٹ کے ساتھ وسیع گورنمنٹ ووکیشنل سکول کی ہیڈمسٹریس میری والدہ کی منہ بولی ماں تھی۔ نانی اماں کی ایک ہی بیٹی تھی جسے جائیداد کے لالچ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے میری والدہ کو بیٹی بنایا ہوا تھا۔ میں چھ سات دن کے لیے بہاولپور آجاتا۔ سکول کا چوکیدار مجھے سائیکل پر بٹھا کر چڑیا گھر لے جاتا اور ٹکٹ خرید کر مجھے گیٹ کے اندر چھوڑ جاتا۔ دوپہر کو وہ میرا کھانا لے کر چڑیا گھر آتا۔ مجھے تلاش کرتا۔ گھاس پر دسترخوان بچھاتا۔ ٹفن سے کھانا نکال کر مجھے کھلاتا اور پھر واپس چلا جاتا۔ چار بجے کے قریب مجھے لینے آتا اور لے کر واپس سکول میں چھوڑ دیتا۔ مجھے خرچے کے لیے نانی اماں سے روزنہ پانچ روپے ملتے تھے جن میں سے بیشتر پیسے میں بندروں کو کھلانے کے لیے چنے خریدنے میں لگا دیتا۔ تب پانچ روپے آج کے پانچ سو روپے سے بھی بڑی رقم تھے۔ قارئین! میں یہ کالم امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک قصبے ڈائوننگ ٹائون کے ہوٹل میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ لکھنے کچھ اور بیٹھا تھا مگر لکھ کچھ اور دیا ہے۔ ممکن ہے آپ یہ سب کچھ پڑھ کر مسکرائیں کہ میں نے یہ کیا لکھا ہے؟ آپ ہی کیا اگر میرے بچے بھی یہ پڑھیں تو ہنسیں گے کہ ان کے خیال میں ان کی زندگی اور خاص طور پر ان کا بچپن ہم سے بہت بہتر ہے مگر مجھے یقین ہے کہ جب وہ میری عمر میں اپنی یادیں لکھنے کی کوشش کریں گے تو ان کے پاس اس قدر رنگین اور زندہ یادیں کم کم ہونگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved