تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     30-03-2020

کورونا وائرس کس نے بنایا؟مختلف تھیوریز

دنیا اس وقت ایک ایسے وائرس کی لپیٹ میں ہے ‘ بنی نوع انسان کے پاس جس کی ویکسین موجود نہیں ۔ ہاں ‘البتہ ایک بڑی اکثریت بیمار ہو کے خودہی صحت یاب ہو جاتی ہے ۔دریں اثناء تیزی سے سازشی تھیوریاں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہیں ۔ کچھ کرم فرمائوں کا اصرار ہے کہ کورونا وائرس انسانی ہاتھوں سے لیبارٹری میں بنایا گیا ۔ ان تھیوریز میں سب سے زیادہ انگلیاں امریکا کی طرف اٹھ رہی ہیں کہ اس نے چین کو تباہ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔
مجھے کسی نے ایک ویڈیو بھیجی ہے۔ اس ویڈیو میں بتایاگیا ہے کہ آج دنیا کورونا وائرس کے سبب جن حالات سے گزر رہی ہے ‘ وہ سب 2011ء میں ایک فلمContagion میں پہلے ہی بتا دئیے گئے تھے ۔اس فلم میں دنیا میں ایک وائرس پھیلتا ہوا دکھایا گیا ہے ‘ نیز اس فلم میں بھی موجودہ حالات کی طرح بڑے بڑے مذہبی مقامات بند کر دئیے جاتے ہیں ۔ ویڈیو بنانے والے کا دعویٰ سن کر میں چونک اٹھا کہ اس فلم میں ''کورونا‘‘ کا نام بھی لیا گیا ہے۔ یہ ویڈیو اس وقت وائرل ہو چکی ہے ۔ 
کلپ بھیجنے والے سے سوال کیا کہ کیا آپ نے Contagionخود دیکھی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ فلم دیکھ لیجیے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ''کورونا‘‘ کا نام اس میں کہیں نہیں ہوگا۔ اس نے وہ دیکھی اور پھر بتایاکہ جی ہاں ''کورونا‘‘ کا نام فلم میں کہیں نہیں ؛البتہ باقی حالات وہی ہیں ‘ جو کہ آج ہمیں پیش آرہے ہیں ۔
99فیصد لوگ فلم دیکھے بغیر اس ویڈیوکوآگے پھیلا رہے ہیں ‘ جبکہ فلم میں کہیں بھی ''کورونا‘‘ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔وہ پوچھنے لگا کہ مجھے کیسے پتا چلا کہ ''کورونا‘‘ کا نام فلم میں نہیں ہو گا۔ میں نے کہا : اگر 9سال پہلے بننے والی کسی فلم میں ''کورونا‘‘ کا ذکر ہوتا تو بی بی سی اور سی این این سمیت عالمی میڈیا میں ایک طوفان اٹھ چکا ہوتا۔ کسی نے اپنے یو ٹیوب چینل کا پیٹ بھرنا تھا ‘ اس نے مرچ مصالحہ لگا کے سب کچھ ہی دیگ میں تُن دیا۔ جو سنسنی پھیلی‘ اس کی بلا سے ‘ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہو تو اس شخص کو گرفتار کیا جائے ۔ 
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ 9سال پہلے فلم میں وہ حالات کیسے دکھائے گئے‘ جن سے ہم آج گزر رہے ہیں ۔ جواب: پولیو سے لے کر تپِ دق تک اور کورونا سے لے کر مستقبل کے کسی بھی وائرس تک ‘ جب بھی کوئی بڑی وبا پھیلے گی‘ دنیا انہی حالات سے گزرے گی اور ماضی میں بھی گزرتی رہی ہے ۔ فرق یہ تھا کہ پہلے ہوائی جہاز نہیں تھے‘ اس لیے بیماری کافی حد تک محدود رہتی تھی ۔ 1950ء کے عشرے میں پولیو امریکا پر ایک قہر بن کے ٹوٹا تھا‘ پھر اس کی ویکسین بنی۔دنیا کے امیر ممالک نے عالمی اداروں کے تعاون سے اپنے خرچ پر یہ ویکسین دنیا کے انتہائی غریب ممالک تک پہنچائی ۔ اس لیے نہیں کہ ان کے اندر درویشی پیدا ہو گئی تھی ۔ اس لیے کہ وبائی بیماری دنیا کے ایک انسان کو بھی ہو تو وہ پوری دنیا میں پھیل جانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ پولیو ہی کی ویکسین کیوں پلائی جاتی ہے ؟جواب: اسی وبائی بیماری کی ویکسین پلائی جاتی ہے ‘ جو تیزی سے پھیل سکتی ہو۔ اپینڈکس یا آنتوں کے کینسر کی ویکسین تھوڑا ہی بنائی جا سکتی ہے ۔ پولیو کی اگر ویکسی نیشن نہ کی جاتی توکروڑوں مرنے والوں کے علاوہ آج آدھی دنیا معذورو ں پہ مشتمل ہوتی ۔ 
جن لوگوں کا اصرار ہے کہ یہ وائرس انسانی ہاتھ سے بنا ہے ‘ ان کے بیانیے پر غور کیجیے۔ پہلے تو امیر ممالک اربوں روپے لگا کر ایک وائرس ایجاد کرتے ہیں ‘ پھر اسے دنیا میں پھیلاتے ہیں ۔دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی تجارت اور کاروبارِ زندگی بھی تباہ کرتے ہیں ۔ٹریلین ڈالرز کا نقصان اٹھاتے ہیں ‘ پھر اس وائرس کی ویکسین بناتے ہیں اور پوری دنیا میں مفت تقسیم کرتے ہیں ۔ایک تھیوری یہ ہے کہ یہ وائرس امریکا نے بنایا ہے‘ چین کو تباہ کرنے کے لیے ۔ چین کے سائنسدانوں میں اتنی قابلیت موجود ہے کہ اقوامِ متحدہ میں اس کے ثبوت پیش کر سکیں کہ یہ امریکی سازش ہے‘ لیکن وہ کبھی بھی نہیں کریں گے ۔ اس لیے کہ ایسی کوئی سازش ہوئی ہی نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملک شدید نقصان سے دوچار ہیں ۔چین نے تو پھر بھی قابو پا لیا۔اب‘امریکا میں حالات خراب ہیں ۔ امریکا نے یہ کیسی سازش کی؟جس کا نقصان ‘اسے خود ہی اٹھانا پڑرہ ہے۔ 
اب‘ آجائیے عبد اللہ حسین ہارون صاحب کی تھیوری پر ۔ پہلے تو اس بات کامزہ لیں کہ جنہوں نے وائرس بنا کر دنیا میں پھیلانا تھا‘ انہوں نے اسے باقاعدہ پیٹنٹ کروایا‘تاکہ ساری دنیا کو ان کے ارادے کا علم ہوجائے۔ یہ پیٹنٹ نمبر عبد اللہ حسین ہارون صاحب کے پاس تو موجود ہے ‘ سپین اور اٹلی کے پاس نہیں ۔ان کے مطابق‘ وائرس امریکا میں بنا‘ یورپ میں ویکسین بنی ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اٹلی اور سپین میں اس وقت صف ِماتم بچھی ہوئی ہے ۔ لوگ سڑکوں پر سجدے کر رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں معاف کر دے۔ روزانہ ہزاروں افراد مر رہے ہیں‘ لیکن اٹلی اور سپین میں اتنی عقل نہیں ہے ‘ جتنی ہمارے ریٹائرڈ سفارت کاروں میں ہے ۔ اٹلی اور سپین کبھی بھی اقوامِ متحدہ میں یہ معاملہ نہیں اٹھائیں گے کہ امریکا نے ایک وائرس ایجاد کر کے ہمیں تباہ و برباد کر دیا‘کیونکہ اٹلی اور سپین کے معاملات چھوٹے دماغ والے لوگ چلا رہے ہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ وائرس انسانی ہاتھوں سے ایجاد ہو ا ہوتا تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سائنسدان ‘ ماہرینِ حیاتیات اکٹھے ہو کر ایک پریس کانفرنس میں اس کے ثبوت پیش کر دیتے اوروہ جائزہ لے رہے ہوں گے ‘ اگر مستقبل میں بھی انہیں ایسے ثبوت ملے ‘تو وہ خاموش نہیں رہیں گے ۔ اس صورت میں امریکا کو پوری دنیا میں منہ چھپانے کی جگہ بھی نہ ملے گی۔ دنیا میں لاکھوں بڑے سائنسدان موجود ہیں ‘ جو سائنسی تحقیق کے میدان میں سگے باپ کی بھی نہیں سنتے ۔ سائنس میں ملاوٹ نہیں ہو سکتی اور جو چیز ثابت ہو جاتی ہے ‘ اسے کوئی بھی غلط قرار نہیں دے سکتا ہے۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔ سائنسدانوں کی عظیم اکثریت خاموش ہے ‘ جبکہ سائنس کی ابجد کا علم بھی نہ رکھنے والے بڑے زور و شور سے روز ایک نیا انکشاف فرما رہے ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چین سمیت دشمن ممالک امریکا کی اس مبینہ حیاتیاتی دہشت گردی کو اقوامِ متحدہ میں بے نقاب بھی نہیں کررہے‘ پھر ایسی بیماریوں کے وائرس پھیلانے والے ممالک بعد میں زرِ کثیر خرچ کرتے ہوئے پوری دنیا کو مفت ویکسین بھی پلاتے ہیں ۔سامنے کی اس حقیقت کو سازشی تھیوریز بنانے والے بڑی سہولت کے ساتھ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ آج ہوائی جہاز کے دور میں وبائی مرض تو ایک ملک تک محدود رہ ہی نہیں سکتا ہے۔ 
آخری تھیوری : امریکا اور چین نہیں ‘ بلکہ ملٹی بلین ڈالر فارما انڈسٹری نے یہ وائرس بنا کر پھیلایا ہے ۔ فارما انڈسٹری کورونا وائرس بنا کر پوری دنیا کی معیشت تباہ کر دے اور سی آئی اے اور چینی خفیہ اداروں کو اس کی بھنک تک پڑے‘ جو پوری دنیا کی جاسوسی کررہی ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر ایسا ہو توامریکا اور چین کی خفیہ ایجنسیاں ایسی فارما کمپنیز کو قبرمیں نہ اتار دیں گے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved