بروقت اقدامات نہ ہونے سے ہلاکتوں کے
ذمہ دار وزیراعظم ہوں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بروقت اقدامات نہ ہونے سے ہلاکتوں کے ذمہ دار وزیراعظم ہوں گے‘‘ کیونکہ میرے وقت میں جو لوگ ڈینگی سے مرے تھے‘ ان کا ذمہ دار میں ہی تھا‘ لیکن اس وقت چونکہ کسی کو کسی کا ذمہ دار ٹھہرانے کا رواج ہی نہ تھا ‘کیونکہ ہر چیز چونکہ قدرت کی طرف سے ہوتی ہے‘ اس لئے کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرانا قدرت کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا اور ہم چونکہ قدرت کی قدرت پر مکمل طور پر یقین رکھنے والے ہیں‘ اس لئے اس کے کاموں میں کسی مداخلت کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں‘ کیونکہ جس چیز کے ذمہ دار ہم تھے‘ اس کا قدرت کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں تھا کہ یہ ہمارا ذاتی معاملہ تھا اور قدرت نے اپنے نیک بندوں کو خود مختار بنا کر بھیجا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ویڈیو لنک سے اجلاس میں شریک ِگفتگو تھے۔
حکومتی روّیہ نے قومی اتحاد کو سخت نقصان پہنچایا ہے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومتی روّیہ نے قومی اتحاد کو سخت نقصان پہنچایا ہے‘‘ اور یہ نقصان دراصل مجھے پہنچایا گیا ہے ‘کیونکہ قومی اتحاد کا سب سے بڑا علمبردار میں ہوں ‘کیونکہ میری تقریروں ہی نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ ہونے سے بچایا ہوا ہے‘ جبکہ پوری قوم اس بات پر متحد اور متفق ہے کہ میں جو کچھ بھی کہتا ہوں ‘اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے‘ بلکہ عام اہمیت بھی نہیں ہے ‘کیونکہ قومی اتحاد کی فی الحال کوئی وجہ دریافت نہیں ہو سکی ہے اور جس بات کی بھی کوئی وجہ معلوم نہ ہو‘ اس کا اتفاق رائے سے مجھے ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے‘ کیونکہ میں بہرحال ایک ذمہ دار آدمی ہوں‘ ورنہ یہ سارا ملک غیر ذمہ داروں سے بھرا پڑا ہے‘ جس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی ہے۔ آپ اگلے روز جے آئی یوتھ کے مرکزی عہدیداروں سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے۔
سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کوئی ایک بھوکا نہ رہ جائے: بلاول
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کوئی ایک شخص بھوکا نہ رہ جائے‘‘ اور اُس ایک شخص کی تلاش سرگرمی سے جاری ہے ‘جبکہ ہمارا ایک بھی سوا لاکھ کے برابر ہے اور انصاف کی بات بھی یہی ہے کہ سندھ حکومت خود کھائے یا بھوکوں کو کھلائے‘ جبکہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ پیاسے بھی مر رہے ہیں‘ اس لئے بھوک اور پیاس سے مرنے والوں کو صرف اور صرف قدرت ہی بچا سکتی ہے‘ کیونکہ سارے لوگ کورونا سے نہیں مر سکتے اور جس جس نے جس جس وجہ سے مرنا ہو‘ اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اور تقدیر کے لکھے کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ اول تو ہماری حکومت کی وجہ سے صوبے میں وسائل ہی کی اس قدر کمی واقع ہو گئی ہے کچھ نہ پوچھئے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے ویڈیو خطاب کر رہے تھے۔
درستی
برادرم اظہار الحق نے کالم میں اقبالؔ کا شعر اس طرح نقل کیا : ؎
اقبالؔ تیرے عشق نے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
میری ناقص رائے میں اس کے پہلے مصرع میں لفظ ''تیرے‘‘ کے آگے پیچھے ہونے سے شعر کا مطلب ہی تبدیل ہو گیا ہے‘ کیونکہ موجودہ صورت میں زور عشق پر ہے کہ اس نے سب بل نکال دیئے‘ جبکہ یہ پتا نہیں چلتا کہ بل‘ اقبالؔ کے نکلے ہیں یا محبوبہ کے‘ جبکہ اقبالؔ کا مقصد یہ بتانا تھا کہ عشق نے اُس کے سب بل نکال دیئے ہیں‘ جس کے لیے مصرع کی صورت یہ ہونی چاہیے: ع
اقبال ؔعشق نے ترے سب بل دیئے نکال
بھائی بابر اعوان نے کالم میں شعر اس طرح سے درج کیا : ؎
قُمریاں لوٹ کے آئیں گی چمن چہکے گا
ٹُھمریاں دادرے گائیں گی صحن لہکے گا
اس کے دوسرے مصرع میں لفظ ''صحن‘‘ صحیح وزن میں نہیں بندھا ہے‘ جو دراصل بروزن ''فعل‘‘ ہے ''چمن‘‘ نہیں!
اور‘ اب آخر میں رفیع رؔضا کی خوبصورت شاعری:
میں نے گزارنی تھی محبت میں زندگی
میرا تو سارا وقت ہی مرنے میں لگ گیا
جوڑتا رہتا ہوں ٹوٹی ہوئی آوازوں کو
شور اتنا ہے سنائی نہیں دیتا سائیں
تری مٹی‘ مری مٹی‘ یہ ہماری مٹی
ایک بیکار سے بیکار کا اونچا ہونا
بتا کے ناک کو حیران کر دیا میں نے
ہمارا زہر ہمارے دلوں میں ہوتا ہے
خود اپنا گھر جلا رہے ہیں‘ کون لوگ ہیں
اور اس پہ مسکرا رہے ہیں‘ کون لوگ ہیں
میں شاخِ عمر پہ بس سوکھنے ہی والا تھا
لپٹ گیا کوئی آ کر ہرا بھرا مجھ سے
لے آئی چھت پہ کیوں مجھے بے وقت کی گھڑی
تیری تو خیر بام پہ آنے کی عمر ہے
میں سامنے سے اُٹھا اور لَو لرزنے لگی
چراغ مجھ سے کوئی بات کرنے والا تھا
نہ جانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھا گھر نہیں لائے
آج کا مقطع
چراغِ چہرہ کو بجھنے نہیں دیا کہ ظفرؔ
ہم اپنے گرد ہوا کا حصار رکھتے ہیں