تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-04-2020

کورونا سے مقابلہ: احتیاط یا خوف؟

ذراتصور فرمائیے‘ ایسا غریب خاندان جس کا روزگار ختم ہو جائے! پہلے یہ خاندان اِدھر اُدھر سے قرض لے کر کام چلانے کی کوشش کرے گا‘ پھرصاحب ِ حیثیت رشتے دار اس کی کچھ مدد کریں گے‘ چند ہی دن میں یہ رشتے دار بھی مدد کرنے کے قابل نہ رہیں گے ۔ پھر شرم کی چادر اترے گی اورواقف کاروں کے آگے ہاتھ پھیلادیا جائے گا۔ یہ مرحلہ چند دن چلے گا اور پھر بھوک ‘ بھیک یا جرم میں سے کسی ایک کا انتخاب درپیش ہوگا۔ غیرت کا تقاضا ہوگا بھوک سے مرجاؤ ‘ پاپی پیٹ حیا کے سارے پردے پھاڑ دینے پر ابھارے گا۔ پھر ایسی نفسیاتی کیفیت آئے گی کہ دنیا کا ہر خوشحال آدمی اپنا دشمن معلوم ہوگا‘ چالاکی اور عیاری اخلاقیات کی جگہ لے لے گی‘ اپنی بھوک کے سوا ہر کسی کی بھوک جھوٹ اور دھوکا لگنے گی ۔ اضطرار کی اس کیفیت میں ریاست مدد کو آبھی گئی تو کیا کرسکے گی۔بدگمانی معاف لیکن ریاست کے پیسے کا بڑا حصہ ان لوگوں کی جیبوں میں چلا جائے گا جو بانٹنے پر مامور ہوں گے۔ بدعنوانی کے دستر خوان کے چند ریزے اگر پہنچ بھی گئے تو کتنے ہوں گے؟روٹی مل گئی تو جسم ننگا ‘ اسے ڈھانپا تو علاج رہ جائے گا‘ علاج کرایا تو بچوں کی تعلیم قربان ہوجائے گی۔آخرکار یہ سب کچھ مل کر پاکستان میں اس خاندان کوا ن کروڑوں لوگوں کا حصہ بنا ڈالے گا جو غربت کی گہری کھائی میں پڑے سسک رہے ہیں۔ اب یہ بھی حسا ب لگا کر بتائیے کہ اپنے زور ِبازو پر زندہ رہنے کی کوشش کرنے والا یہ خاندان کتنی دیر میں تباہی کے یہ سارے مراحل طے کرلے گا؟ آپ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ یا سٹیٹ بینک کے گورنررضا باقر نہیں تو بڑی آسانی سے انگلیوں پر گن کرکے بتا دیں گے کہ انسانی زندگی کے یہ سب مراحل آٹھ دس دن سے ایک مہینے کے اندر اندر طے ہوجائیں گے ۔ جب یہ سب ہو رہے گا تو یہ بھی بتا دیجیے کہ اس خاندان کے مسائل کی فہرست میں کورونا کہاں آئے گا؟ 
غربت کی اندھی کھائیوں پر کھنچی روزگار کی تنی ہوئی رسیوں پر چلنے والے ایک ذرا سے ہوا کے جھونکے سے اپنا سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ نکتہ ہمارے فیصلہ سازوں میں اگر کوئی سمجھ رہا ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ ان کی حیثیت بھی اس غریب خاندان کے سربراہ کی ہے جسے اپنی جیب کا علم بھی ہے اور مشکلات کا اندازہ بھی۔ ان کے گرد جتنے لوگ ہیں ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو انہیں کرفیو جیسے لاک ڈاؤن کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ کابینہ کا اجلاس ہو یا سکیورٹی کونسل کی میٹنگ ‘ انہیں ایک ہی بات سننا پڑ رہی ہے کہ لاک ڈاؤن‘ مکمل سناٹا‘ پورا پاکستان ایک مہینے کے لیے بند۔ ان کے ارد گرد صرف ڈاکٹر ثانیہ نشتر ایسی شخصیت ہیں جنہیں امراض کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تاریک گوشوں کا بھی علم ہے۔ انہوں نے ہی عمران خان کو بتایا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے برعکس پاکستانیوں کی قوتِ مدافعت کسی بھی وائرس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جب کابینہ کے ایک اجلاس میں انہوں نے مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف مشورہ دیا تو تقریباً ساری کابینہ ان کے خلاف ہوگئی۔ اب ان پر یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ وہ وزیراعظم کو 'گمراہ ‘ کررہی ہیں۔ ظاہر ہے ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے دیے ہوئے مشورے کی تکنیکی جانچ تو کوئی ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے لیکن پاکستان کی غربت تو وہ حقیقت ہے جو سب جانتے ہیں۔ اگر کسی کو نہیں معلوم تو جان لے کہ پاکستان کے ہر شہری سال بھر میں اوسطاً ایک ہزار تین سو باون ڈالر پیدا کرتا ہے‘ یعنی تین ڈالر ستر سینٹ روزانہ۔ اگر ڈالر کی قدر ایک سو ساٹھ روپے بھی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ پانچ سو بانوے روپے فی کس روزانہ۔ اب ظاہر ہے منڈی میں سب لوگ ایک جتنا نہیں کما پاتے لہٰذا ہماری آبادی کا تقریباً پچیس فیصد حصہ یعنی ساڑھے پانچ کروڑ لوگ وہ ہیں جو دن میں ایک ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان لوگوں کو لاک ڈاؤن کرکے گھروں میں بٹھا دیا گیا ہے۔ انہیں گھروںمیں رکھنا ہے تو کم ازکم ایک سو ساٹھ روپے روزانہ تو انہیں دینا ہوں گے۔ فرض کیا انہیں ایک سو ساٹھ روپے روزانہ دے دیے جائیں‘ لیکن اگلا سوال یہ ہے کہ یہ روپے لانے کہاں سے ہیں؟ کارخانوں‘ منڈیوں اور بازاروں پر تو تالے پڑے ہیں۔ جہاں سے حکومت کو ٹیکس مل سکتا ہے وہاں کورونا کے خوف سے ہُو کا عالم ہے‘ کاروبار کیا خاک چلے گا۔ گویا سرکار کے خرچے بڑھ گئے‘ آمدن نہ ہونے جیسی رہ گئی اور غربت کا شکار ریاست مزید غربت میں دھنس گئی۔
ظاہر ہے دنیامیں کوئی معقول شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ خود کو بیماری کے حوالے کردیا جائے‘ لیکن یہ بھی تو کوئی سمجھائے کہ کورونا یا بھوک میں سے انتخاب کیسے کیا جائے۔کورونا کے خلاف چین نے لاک ڈاؤن کیا ‘مگر ایک صوبے کا اور بس‘ باقی ملک میں فیکٹریاں بھی چلتی رہیں اور دکانیں بھی۔ ہر فرد نے اپنی حفاظت کا بندوبست کیا اور محفوظ رہا ‘لیکن یہاں تو کورونا سے پہلے ہی جان کے لالے پڑے ہیں ‘ اس مشکل نے نکلنے کا راستہ کیا ہے‘ اس پر سبھی خاموش ہیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ پندرہ دن مہینے کی ہی تو بات ہے‘ لیکن کہنے والے شاید جانتے ہی نہیں کہ اتنے دنوں میں بھوک سب کچھ لوٹ لیتی ہے۔جن مخیر حضرات کے بل پر یہ تجویز دی جارہی ہے‘ ایک ہفتے بعد ان کا جذبہ خیر کتنا باقی رہے گا کوئی نہیں جانتا۔ ریاستیں اہل خیر کے دستِ تعاون پر بھروسہ کرنے سے نہیں حکمت عملی سے چلائی جاتی ہیں۔ اس لیے آخری حل یہی ہے کہ کام کرنے والوں کو کام پر لانے کا طریقہ سوچا جائے‘ نہ کہ بھیک دینے کے لیے بھیک مانگنے کے پروگرام کو حکمت عملی قرار دینے پر اصرار کیا جائے۔ یہی بات وزیر اعظم عمران خان کررہے ہیں اور ٹھیک کررہے ہیں۔ انہوں نے خوب کیا کہ ''اہل ِخیر‘‘ کے امتحان کے لیے بینک اکاؤنٹ بھی کھول دیا ۔ اب تک تو حالت یہ ہے کہ خیر و اخوت کے سارے دعوے ملا کر ایک لاکھ لوگوں تک راشن نہیں پہنچ سکا پانچ کروڑ لوگوں تک پہنچنا تو شاید ریاست کے بس میں بھی نہیں۔ 
وزیراعظم ٹھیک کہتے ہیں کہ گھبراہٹ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے‘ لیکن ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ اور اب اس کو طول دینے کی بات چیت درحقیقت کسی نہ کسی گھبراہٹ کا ہی نتیجہ ہے۔ کسی درجے میں یہ گھبراہٹ فطری بھی تھی کہ کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کا درست اندازہ کسی کو نہیں تھا۔ اس فیصلے سے ایک دن پہلے مجھے پنجاب حکومت کے ایک اجلاس کی کارروائی دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بتایا گیا کہ اگر سب تدبیریں الٹی ہوجائیں تو اپریل کے پہلے ہفتے تک پنجاب میں کورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔ مجھے ایک لاکھ مریضو ں کا سن کا دھچکا لگا لیکن وزیراعلیٰ کا اعتماد دیکھ کر حوصلہ بڑھا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر یاسمین راشد اورشریک افسروں کی بے خوفی بھی دیدنی تھی کہ ان میں سے ایک بھی خوفناک صورت ِ حال دیکھ کر ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔وہاں لاک ڈاؤن کی بات تو ہوئی‘ لیکن فیصلہ نہیں ہوسکا۔ بعد میں غالباً کہیں گھبراہٹ غالب آگئی اور سب کچھ بند ہوگیا۔ اسے لاک ڈاؤن کی برکت کہیے ‘ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی بتائی ہوئی قوت مدافعت کا نام دیجیے یا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کی بات کو درست مانتے ہوئے پاکستان میں آئے کورونا کو چینی کورونا کی نسبت کمزور سمجھ لیجیے‘یا میڈیا کی خیر خواہی میں یہ سمجھ لیں کہ اب عام آدمی رضاکارانہ طور پر ہی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کے اصول پر عمل کررہا ہے‘ وجہ کچھ بھی ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے بہت پیچھے ہے۔اس لیے گھبراہٹ میں بھی  کچھ کمی کر لی جائے تو مضائقہ نہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعت‘ تعمیر‘ تجارت سبھی کچھ بند ہے۔ کورونا سے بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے مکمل طور پر نہیں تو جزوی طور پر کام شروع ہوجانا چاہیے۔ بازار وں کے اوقات کار کم کرکے‘ صنعتوں میں کام کے اصول بہتر بنا کر اور ٹرانسپورٹ کو محدود کرکے ہم کورونا پر بھی قابو پاسکتے ہیں اور بھوک پر بھی۔ پاکستا ن جیسے حالات میں لاک ڈاؤن بھی ریاست کی تباہی ہے اور بے روزگار ی بھی۔ 
کورونا سے لڑائی احتیاط سے جیتی جاسکتی ہے‘ ڈر کر یا گھبرا کر نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved