مشکلات اور پریشانیوں کو ٹالنے کے لیے شریعت نے جن اچھے اعمال کی طرف رہنمائی کی ہے‘ ان میں دعا ‘ توبہ واستغفار‘ توکل‘ صبر اور نماز کے قیام کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا بھی شامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی اہمیت کے حوالے سے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 1سے 3میں ارشاد ہوا: ''الم‘ (یہ) وہ کتاب ہے ‘کوئی شک نہیں ‘اس میں ‘ پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور وہ نماز قائم کرتے ہیں اور اس سے جو ہم نے انہیں رزق دیا ہے ‘وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘ ان آیات مبارکہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پرا للہ تبارک وتعالیٰ نے پرہیز گاروں کی جو نشانیاں بتلائی ہیں‘ان میںایمان بالغیب اور نمازوں کے قیام کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرنا بھی شامل ہے۔ ارکانِ اسلام میں شہادتین اور نماز کے بعد زکوٰۃ بھی شامل ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول‘ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺاللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘اس حدیث پاک سے زکوٰۃ جو کہ فرضی انفاق ہے کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے۔
قرآن مجید کے مختلف مقامات پر انفاق فی سبیل للہ کے فوائد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274میں ارشاد ہوا : '' وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن کو ‘ چھپا کر اور اعلانیہ طور پر تو ان کے لیے ان کا اجر ہے‘ ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انفاق فی سبیل للہ کے سبب لوگوں کے خوف اور غم دور فرما دیتے ہیں؛چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 277میں ارشاد ہوا : ''بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور نمازقائم کی اور زکوٰۃ ادا کی ان کے لیے ان کا اجر ہے‘ ان کے رب کے پاس سے اور نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ بالخصوص جب خفیہ انفاق کیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی خطاؤں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 271میں ارشاد ہوا : ''اگر تم ظاہر کرو (اپنے) صدقات کو تو وہ (بھی) اچھا ہے اور اگر تم چھپا لو انہیں اور دے دو‘ وہ (صدقات) فقراء کو تو وہ زیادہ بہتر ہے‘ تمہارے لیے اور (ان صدقات کی وجہ سے ) وہ دور کر دے گا تم سے تمہارے گناہ اور اللہ اس سے جو تم عمل کرتے ہو خوب باخبر ہے۔‘‘
بہت سے لوگوں کا یہ گمان ہے کہ شاید اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے سے کمی واقع ہو جائے گی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سوچ کی قرآن مجید کے مختلف مقامات پر تردید کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 39میں ارشا د فرماتے ہیں : ''اور جو تم دیتے ہو سود (پر قرض)تاکہ وہ بڑھتا رہے لوگوں کے مالوں میں تو وہ نہیں بڑھتا اللہ کے ہاں اور جو تم دیتے ہو زکوٰۃ سے تم چاہتے ہو اللہ کا چہرہ (اس کی خوشنودی یا دیدار) تو وہی لوگ ہی (ثواب کو) کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔‘‘ اسی طرح سورہ سباء کی آیت نمبر 39میں ارشاد ہوا : ''اور جو تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہو کوئی چیز تو وہ عوض دیتا ہے‘ اُس کا (یعنی اس کی جگہ اور دیتا ہے)۔‘‘
اسی حوالے سے صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ کچھ یوں مذکور ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راویت ہے کہ رسول کریمﷺنے فرمایا: ایک دفعہ ایک شخص زمین میں ایک صحرائی ٹکڑے پر کھڑاتھا۔ اس نے ایک بادل میں آوازسنی: فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل ایک جانب ہٹا اور ایک پتھریلی زمین میں اپناپانی انڈیل دیا۔ پانی کے بہاؤوالی ندیوں میں سے ایک ندی نے وہ ساراپانی اپنے اندر لے لیا۔ وہ شخص پانی کے پیچھے پیچھے چل پڑا تو وہاں ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال سے پانی کا رخ (اپنے باغ کی طرف) پھیررہا ہے۔ اس نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟اس نے کہا: فلاں وہی نام جو اس نے بادل میں سنا تھا۔ اس (آدمی) نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! تم نے مجھ سے میرانام کیوں پوچھا ہے؟اس نے کہا: میں نے اس بادل میں‘جس کا یہ پانی ہے‘ (کسی کو) یہ کہتے سناتھا۔ فلاں کے باغ کو سیراب کرو تمہارا نام لیا تھا۔ تم اس میں کیا کرتے ہو۔ اس نے جواب دیا تم نے یہ بات کہہ دی ہے تو میں (تمہیں بتادیتا ہوں) اس باغ سے جو کچھ حاصل ہوتا ‘ہمیں اس پر نظر ڈال کر اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کردیتا ہوں ایک تہائی میں اور میرے گھروالے کھاتے ہیں۔ اور ایک تہائی اسی (باغ کی دیکھ بھال) میں لگادیتا ہوں۔
جہاں پر قرآن مجید میں انفاق فی سبیل للہ کے بہت سے فوائد بیان کیے گئے ہیں ‘وہیں پر انفاق نہ کرنے پر بہت سے وعیدوں کو بھی سنایا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ماعون میں ارشاد فرماتے ہیں : ''کیا دیکھا آپ نے (اسے) جو جھٹلاتا ہے جزا کو۔ تو یہ وہ شخص ہے‘ جو دھکے دیتا ہے یتیم کو۔ اور نہیں ترغیب دیتا مسکین کو کھانا کھلانے پر۔ پس ہلاکت ہے (ان) نمازیوں کے لیے۔ وہ جو اپنی نماز سے غفلت کرنے والے ہیں۔ (اور) وہ جو دکھلاوا کرتے ہیں اور روکتے ہیں‘ عام استعمال کی چیزیں۔‘‘ اسی طرح سورہ مدثر کی آیت نمبر 40سے 44میں جہنم میں جانے کے اسباب کے حوالے سے یہ بات بیان کی گئی ہے۔ ''جنتوں میں وہ پوچھتے ہوں گے گناہ گاروں سے کس چیز نے داخل کر دیا تمہیں سقر (جہنم) میں۔ وہ کہیں گے نہیں تھے‘ ہم نماز ادا کرنے والوں میں سے ۔ اور نہیں تھے ہم کھانا کھلاتے مسکینوں کو۔‘‘ اپنے مال کو روکے رکھنے کے حوالے سے سورہ توبہ کی آیت نمبر 34‘35سے میںارشادہوا : ''اور وہ لوگ جو جمع کرکے رکھتے ہیں ‘سونا اور چاندی اور نہیں خرچ کرتے اللہ کی راہ میں تو انہیں خبر سنا دیں درد ناک عذاب کی۔ جس دن تپایا جائے گا‘ اس (سونا چاندی) کو جہنم کی آگ میں پھر داغا جائے گا اُن سے اُن کی پیشانیوں کو اور اُن کے پہلوؤں کو اور اُن کی پیٹھوں کو‘ (اور کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے جمع کرکے رکھا اپنے نفسوں کے لیے‘ تو مزا چکھو(اس کا) جو تھے تم جمع کرکے رکھتے۔‘‘
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے انفاق فی سبیل للہ نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے دل میں نفاق پیدا کر دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 75سے 77 میں ارشادہوا :''اور اُن میں سے (کوئی ایسا بھی ہے) جس نے عہد کیا اللہ سے البتہ اگر اُس نے دیا ہمیں اپنے فضل سے (مال تو) البتہ ضرور ہم صدقہ کریں گے اور البتہ ضرور ہم ہو جائیں گے نیکوں میں سے۔ پھر جب اس نے دیا انہیں اپنے فضل سے (تو) وہ بخیلی کرنے لگے اس میں اور پھر گئے (اپنے عہد سے) اس حال میں کہ وہ روگردانی کرنے والے تھے۔ تو اُس نے سزا دی انہیں نفاق (ڈال کر) اُن کے دلوں میں اُس دن تک (کہ جس دن) وہ ملیں گے اُس سے (اس) وجہ سے جو اُنہوں نے خلاف ورزی کی اللہ کی (اس میں) جو اُنہوں نے وعدہ کیا‘ اُس سے اور اس وجہ سے جو وہ جھوٹ بولتے تھے۔‘‘ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس مال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کیا جاتا کئی مرتبہ اُس کو تلف کر دیا جاتا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قارون کو اس کے گھر اور خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ سورہ کہف میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوم جزا کے ایک منکر باغبان کی تباہی کا ذکر کیا ۔ اسی طرح سورہ قلم میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک نیک باغبان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اس کے بیٹوں کی بخیلی کا ذکر کیا کہ جو اس بات پر آمادہ ہو چکے تھے کہ اپنے مال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کریں گے؛ چنانچہ ان کے باغ کو بھی تباہ وبرباد کر دیاگیا۔
صحیح بخاری میں بھی اس حوالے سے ایک اہم واقعہ مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک اندھے‘ کوڑھی اور گنجے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحت یاب فرما کر مال دے کر آزمایا تھا‘ جب ان کی اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں آزمائش کی گئی تو کوڑھی اور گنجے نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے سے انکار کر دیا‘ جب اندھے کو آزمایا گیا تو اس نے سائل کو جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم میرے پاس موجود جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو‘ اللہ کی قسم‘ جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ‘ میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو‘ یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سارا سال اپنے راستے میں خرچ کرنے بالخصوص ان ایام میں غریبوں ‘ بدحالوں‘ مفلسوں اور ضرورت مند لوگوں کی معاونت کرنے کی توفیق دے۔( آمین)