وزیر اعظم عمران خان کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے ملک میں لاک ڈاؤن کے حامی نہیں تھے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ اب ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران عوام کو بھوک سے بچانا ہے۔ اس کے لیے حکومت نے امدادی پیکیج کی منظوری دے دی ہے اور راشن گھروں تک پہنچانے کے لیے ٹائیگر فورس بھی بنائی جا رہی ہے۔ حکومت کی یہ فکر مندی بہت اچھی ہے کیونکہ شہریوں کو بھوک سے بچانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن کورونا وائرس سے معاشی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران اشیا کی قلت یا غریب طبقے کی مالی مدد کی فکر کے ساتھ مستقبل کے مسائل پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔
اقوام متحدہ کے ادارے ''کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے اثرات پاکستان کے لیے شدید ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں عالمی آبادی کا دو تہائی حصہ ہے۔ ان ملکوں کو کورونا وائرس کی وبا کے معاشی اثرات سے بچانے کے لیے ڈھائی ہزار ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ ترقی پذیر ملک سرمائے کی بیرون ملک پرواز، برآمدات میں نقصان اور کرنسی کی قدر کم ہونے سے شدید متاثر ہوں گے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے معاشی اثرات 2008ء کے معاشی بحران سے زیادہ تباہ کن ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی ''دی کووڈ شاک نائنٹین ٹو ڈویلپنگ کنٹریز‘‘ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کو بچانے کے لیے ایک ہزار ارب ڈالر کا سرمایہ درکار ہو گا‘ اس کے علاوہ ایک ہزار ارب ڈالر قرضوں میں ریلیف کے لیے درکار ہیں‘ جبکہ مزید 500 ملین ڈالر ایمرجنسی ہیلتھ سروسز کو بہتر بنانے پر خرچ کرنا ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور ارجنٹائن کے ساتھ ساتھ سب صحارا افریقی ممالک اس وبا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ان ملکوں کی خوفناک معاشی تصویر پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ قرضوں کے پہاڑ اور صحت کے بڑے بحران ان ملکوں کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ امسال اور اگلے برس کے دوران ان ملکوں کو2 سے 3 ہزار ارب ڈالر مالی خسارے کا سامنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے ان تجاویز کو سنجیدہ لیں، یہی ایک طریقہ ہے کورونا کی پہلے سے جاری تباہ کاریوں پر قابو پانے کا جو دن بدن مزید تباہ کن ہوتی جا رہی ہیں۔
چین اور G20 ملکوں نے عالمی معیشت میں5 ہزار ارب ڈالر شامل کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ آمدن کے نقصانات اور بیروزگاری کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اگر G20 ملک اپنے اس وعدے کو پورا کرتے ہیں تو G20 بلاک سے باہر رہنے والی 6 ارب آبادی کو بھی اس کا فائدہ ہو گا۔
برطانوی خیراتی ادارے آکسفیم نے (ایک سو ساٹھ) 160 ارب ڈالر کے فنڈز کے لیے اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ حکومتیں صحت کے تمام نجی اداروں کو بھی تحویل میں لیں اور دستیاب تمام وسائل اور طبی عملے کو اس جنگ میں شامل کریں۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین ہر انسان کو مفت مہیا کرنا ہو گی، دوا ساز عالمی اداروں کے کاروبار کو دیکھنے کی بجائے انسانیت کا مستقبل بچانا اہم ہے۔ آکسفیم کی اپیل اپنی جگہ لیکن کیا حکومتیں مفت ویکسی نیشن کے لیے تیار ہیں؟
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا فوری شمار ممکن نہیں، ان تباہ کاریوں میں کروڑوں افراد کا خط غربت سے نیچے گرنا اور دنیا بھر میں خطِ غربت سے نیچے آبادی کا تناسب بڑھنا بھی شامل ہے۔ ایشیا میں طویل ترین معاشی بحران کے نتیجے میں خط افلاس سے نیچے گرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہو گی۔ 2019ء میں ایشیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار پانچ اعشاریہ آٹھ (5.8) فیصد رہی لیکن کورونا کی تباہ کاری کے نتیجے میں اس سال ترقی کی شرح دو اعشاریہ ایک (2.1) فیصد رہنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے اور بری ترین صورت حال میں خطے کی اقتصادی ترقی کی شرح صفر اعشاریہ پانچ (0.5) فیصد رہنے کی بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ چین جیسی بڑی معاشی قوت کی اقتصادی ترقی کی شرح‘ جو پچھلے سال چھ اعشاریہ ایک (6.1)فیصد تھی، دو اعشاریہ تین(2.3) فیصد پر آنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے اور بری ترین معاشی صورت حال میں یہ شرح صفر اعشاریہ ایک(0.1) فیصد پر پہنچنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ چین دنیا کی معیشت کا انجن تصور ہوتا ہے۔ اس کی اقتصادی ترقی کی شرح اس قدر گرنے کے نتائج عالمی معیشت پر تباہ کن ہوں گے۔ نمایاں اقتصادی اثرات سے کوئی ملک بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔
عالمی اداروں کی طرف سے معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات کے یہ اندازے حتمی نہیں لیکن ان کا مقصد تمام ملکوں کو خبردار کرنا اور برے حالات کے لیے پہلے سے تیاری کرنا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل قریب اور بعید کے حوالے سے مناسب منصوبہ بندی کر سکیں۔ عالمی اداروں کی ان رپورٹس پر ابھی سے یعنی فوری طور پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی معاشی حالت پہلے ہی اچھی نہیں لیکن عالمی معاشی بحران کی صورت میں ہمیں کیسے معاشی طور پر زندہ رہنا اور عوام کی ضروریات کیسے پورا کرنا ہیں؟ اس سلسلے میں کسی مناسب پالیسی کی تیاری کا کام ابھی سے شروع ہو جانا چاہئے۔ اس معاشی خطرے سے نمٹنے کے لیے ملکی قیادت کو انتہائی فہم و فراست اور وسیع البنیاد مشاورت کے ذریعے دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون بھی بڑھانا ہو گا۔
معاشی بحران سے نکلنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کوئی ملک کتنی جلدی اس وبا سے نجات حاصل کرتا ہے۔ اسی صورت میں بند پڑے پیداواری یونٹ اور کاروبار کھل سکیں گے۔ معاشی بحران کے اثرات کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ جس قدر تیزی سے روکا جا سکے روکا جائے، اس کی مثال ہانگ کانگ کی ہے جس نے اس وبا کو روکنے کے ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی مثال دنیا بھر میں دی جا رہی ہے۔ ہانگ کانگ نے ملک واپس آنے والے 50 ہزار افراد کو لازمی قرنطینہ کے احکامات جاری کئے اور بیرون ملک سے واپس آنے والا کوئی شخص اس حکم سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ ہانگ کانگ میں 90 ہزار افراد کے ٹیسٹ کئے گئے اس طرح ٹیسٹ کی شرح 10 لاکھ افراد میں 12 ہزار ہے، جو دنیا بھر میں ٹیسٹنگ کی سب سے بڑی شرح ہے۔ ہانگ کانگ میں قرنطینہ احکامات کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرنس دکھائی گئی اور قرنطینہ احکامات کی خلاف ورزی پر 70 شہریوں کو سزائیں بھی دی گئیں۔ ان شہریوں کو سرکاری قرنطینہ میں بھجوایا گیا ہے جہاں سے فارغ ہونے کے بعد انہیں قید اور جرمانہ بھی بھگتنا ہو گا۔ ہانگ کانگ کے بعد جنوبی کوریا کے اقدامات بھی مثالی ہیں۔ ان دونوں ملکوں نے 2003ء میں سارس وائرس کی وبا سے سبق سیکھا اور وبائی امراض کی روک تھام میں سرمایہ کاری کی۔
حکومتوں کو اپنے عوام کی بھلائی کے لیے اور غربت سے بچانے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سبسڈی دینا ہو گی، درمیانے اور چھوٹے پیمانے کے کاروباروں کو سہارا دینے کے لیے آسان قرضے دینا پڑیں گے، سکولوں کی فیس میں رعایت دینا ہو گی۔ بین الاقوامی تعاون کو بڑھانا ہو گا، تجارت اور دواؤں کی سپلائی کھلی رکھنا ہو گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دوا اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات پر ٹیرف ختم کرنا پڑے گا۔