حکومت و قومی قیادت کو ان کے خول سے باہر نکلنا ہوگا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت و قومی قیادت کو ان کے خول سے باہر نکلنا ہوگا‘‘ جبکہ قومی قیادت ہی سے میں تو اس خول سے باہر نکل آیا ہوں اور جو تھوڑی بہت قیادت باقی رہ گئی ہے‘ اس کے لیے میرے نقشِ قدم پر چلنے کا یہ سنہری موقع ہے‘ جس سے اسے فائدہ اٹھانا چاہیے‘ کیونکہ میں اگر پھر اس خول میں داخل ہو گیا‘ تو پھر یہ کیا کرے گی‘ اگرچہ میرا خول کے اندر رہنا بے حد ضروری ہے‘ کیونکہ باہر کورونا وائرس کا خطرہ جو منہ پھاڑے کھڑا ہے‘ اس لیے میرے سمیت قومی قیادت کو اب ختمی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ خول سے باہر رہنے کے جو نقصانات ہیں ‘ان سے کس طرح بچا جا سکتا ہے‘ کیونکہ یہ خول بجائے خود ایک قرنطینہ کی حیثیت رکھتا ہے اور جب تک کورونا وائرس ختم نہیں ہوتا‘ سب کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صوبائی امراء سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن کو ایک منصوبے کے تحت تتر بتر کیا گیا ہے: سعد رفیق
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو ایک منصوبے کے تحت تتر بتر کیا گیا ہے‘‘ حالانکہ اس کے لیے کسی منصوبے کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ کیونکہ اس کے قائد مستقل طور پر باہر کے ہو کر رہ گئے ہیں اور باقی لوگوں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے؛ حالانکہ دال کا جوتیوں میں بانٹنا نا صرف دال‘ بلکہ جوتیوں کی بھی توہین ہے ‘ کیونکہ اگر یہ رواج عام ہو گیا تو سب کو ننگے پائوں پھرنا ہوگا ‘کیونکہ جوتیاں تو دال سے بھری ہوں گی ‘جبکہ میری رائے میں یہ محاورہ اس طرح ہونا چاہیے تھا کہ بوٹوں اور چپلوں میں دال بٹ رہی ہے‘ کیونکہ مثلاً ہوائی چپل میں کوئی دال ڈال کر دکھائے اور اگر ڈالی بھی جائے تو اِدھر اُدھر بہہ جائے گی اور ہوائی چپل مفت میں آلودہ ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
مشکل وقت میں اپنے حلقہ کے عوام
کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں: چوہدری نثار
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ''مشکل وقت میں اپنے حلقہ کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں‘‘ بشرطیکہ وہ بھی میرے ساتھ کھڑے رہیں‘کیونکہ ایسا نہ ہو کہ میں تو اپنے شانہ کے ساتھ کھڑا رہوں اور میرے حلقے کے عوام یہ سمجھ کر کہیں اِدھر اُدھر ہو جائیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں‘ جبکہ جس صوبائی اسمبلی کے حلقے سے میں کامیاب ہوا تھا ‘اس کا ابھی تک میں نے حلف تک نہیں اٹھایا اور اس حلقے کے عوام اگر سمجھتے ہیں کہ میں نے ان کے ساتھ مذاق کیا ہے‘ تو وہ صحیح سمجھتے ہیں ‘کیونکہ اگر میں اب تک ان کے لیے کچھ نہیں کر سکا تو کم از کم ان کے ساتھ مذاق تو کر ہی سکتا ہوں کہ آج کل کے تشویشناک اور مایوس کن ماحول میں اگر لوگوں کی دل پشوری ہو جائے‘ تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
خواب اکٹھے کرتا ہوں
اسے اصغر علی تبسمؔ کے کلام کا کلیات کہنا چاہیے‘ کیونکہ اس میں ان کے مختلف مجموعے شامل ہیں۔ اسے قرطاس نے چھاپا ہے اور انتساب اپنے دانشور بیٹے ڈاکٹر جبریل اصغر کے نام کیا گیا ہے۔ دیباچے ریاض مجید‘ رائو منظر حیات اور کوثر علی کے تحریر کردہ ہیں۔ ڈاکٹر ریاض مجید کے مطابق‘ تبسمؔ کی شاعری میں سادگی کے ساتھ انسانی نفسیات اور سماجی ماحول کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ نمونہ کلام کے طور پر چند اشعاردیکھیے:؎
حسن کے قرینے ہیں
زندگی کے زینے ہیں
یوں نہ اپنے دل کو چیر
زخم کس نے سینے ہیں
حسن کے خزینے میں
عشق کے دفینے ہیں
خارِ گُل کی نوکوں پر
بلبلوں کے جینے ہیں
ہم نے جان رکھا ہے
ہم نے زہر پینے ہیں
اور اب آخر میں فیصل آباد سے شہزاد ؔبیگ کی شاعری:
اے عمر زیادہ کا صلہ مانگنے والے
تو اپنے ہی گھر کے کسی کونے کے لیے تھا
ہم جو دیوار ہوئے بیٹھے ہیں‘ دیوار کے ساتھ
یہ نہ ہو سایۂ دیوار پہ تہمت لگ جائے
ہر کوئی ہاتھ میں تلوار لیے بیٹھا ہے
میں تو جیسے کسی مقتل میں اتارا ہوا ہوں
شہر میں تیری پذیرائی بہت
تُو تماشا بن تماشائی بہت
خشکی کا بھی رستہ تھا ترے شہر کی جانب
کشتی کا سفر مجھ کو ڈبونے کے لیے تھا
تُو نے کیا سوچ کے محفل سے اٹھایا ہے ہمیں
مہرباں ہم تو ترے بعد کے رکھے ہوئے ہیں
تیری دستک سے ہی پہچان لیا ہے تجھ کو
روشنی سے تری تنویر ہُوا جاتا ہوں
توڑ کر مجھ کو میاں تو بھی سلامت نہ رہا
اپنے ملبے سے ترے نقش اٹھانے لگا ہوں
ہر ایک دوست صفِ دشمناں میں شامل تھا
جبھی تو بنتی نہیں میری اس جہان کے ساتھ
آج کا مقطع
منکشف اُس پہ مرا شوقِ ملاقات‘ ظفرؔ
دُور رہنے سے ہوا‘ آنکھ چرانے سے ہوا