دنیا بھرمیں ان دنوں کورونا وائرس کے باعث کروڑوں انسان خطرے میں ہیں۔چین کے بعداس جان لیوا وائرس نے ایشیا اوراب‘ یورپ وامریکا میں اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں‘ کیونکہ چین اور اٹلی کے بعد سب سے زیادہ تعدادمتاثرین کی تعداد امریکا میں ریکارڈ کی جارہی ہے‘ جو قریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد بتائی جارہی ہے ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو یہ بیان دے کر مزید تشویش میں مبتلا کر دیاہے کہ اگر اموات کی تعداد ایک لاکھ تک کنٹرول کر لی گئی تو یہ امریکا کی بہت بڑی کامیابی ہو گی‘ لیکن دوسری طرف طبی ماہرین اموات کی تعداد دولاکھ بتا رہے ہیں۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کافی عرصے سے چلی آرہی ہے اور امریکا مسلسل چین کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں رہتا ہے‘ لہٰذا کیا ایسی صورتِ حال میں یہ موذی وائرس مصنوعی طریقے سے پھیلایا گیا؟یہ وہ سوال ہے‘ جس کی باز گشت اب ‘پوری دنیا میں سنائی جا رہی ہے اور اس حوالے سے کئی انکشافات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ اس ساری گیم کے پیچھے مخصوص لابی کا ہاتھ ہے ۔چینی سائنسدانوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی لیبارٹریز میں اس وائرس کو تخلیق کیا گیا اور اسے ایک'' بائیولوجیکل ہتھیار‘‘کے طور پر تیار کیا گیا‘روسی سائنسدانوں نے بھی چین کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ یہ امریکا کا ایک خوفناک بائیولوجیکل حملہ تھا‘جس کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی طور پر چین مضبوطی کی طرف گامزن ہے اور مختلف چیلنجز کو کامیابی کے ساتھ سنبھالتا رہا ہے ۔کورونا وائرس نے دنیا بھر کے تقریباً200کے قریب ممالک میں جو قہر ڈھایا ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس بیماری نے چین اور امریکا جیسے طاقتور ترین ممالک سمیت یورپ کی برتری پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔میدان جنگ سے وابستہ ٹیکنالوجی میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے اور اس سے نئے چیلنجز پیدا ہورہے ہیں۔ نئی اور غیر روایتی جنگوں نے ان چیلنجوں کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے اور ان کی وجہ سے صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے عملی تجویز پیش کرنے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا‘کیونکہ ایٹمی ‘ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی وجہ سے صورتِ حال دن بدن پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔حیاتیاتی دہشت گردی‘ جس طرح ایک حقیقی خطرہ بن کر سامنے آئی ہے‘ لہٰذا اب اس نمٹنے کیلئے انسانی حقوق کے علمبردار محافظ ممالک کو مشترکہ طور پر ایسی پالیسیاں بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہو ں گے‘ جس سے انسانیت کیخلاف جاری اس جنگ کا وقت پر ہی خاتمہ کیا جا سکے۔
20ویں صدی میں امریکا میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم جنگی نقطہ ٔنظر سے تیار کئے گئے‘ جن میں ''انتھراکس‘‘جیسے جراثیم شامل تھے۔ سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس نے اس میدان میں بہت تحقیق کی اور متعدد جراثیم اور ان کے توڑ تیار کئے۔ کوریا کی جنگ کے دوران بھی امریکا نے ان ہتھیاروں کو استعمال کیا؛ حالانکہ حیاتیاتی یا مہلک جراثیم ہتھیار بنانے پر جنیوا معاہدے کے تحت 1925ء سے پابندی عائد ہے‘ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ امریکا نے ہمیشہ ایسے الزامات سے انکار کیا ہے۔ جنگی لحاظ سے حیاتیاتی ہتھیار کو بڑامئوثر قرار دیا جاتا ہے‘ جس سے جراثیم تیزی کے ساتھ انسانوں میں پھلتے ہیں ۔یا درہے کہ حیاتیاتی ہتھیار سب سے سے پہلے امریکا اور برطانیہ نے تیار کئے تھے۔ یہاں قابل ذکر یہ ہے کہ متعدی جراثیم ‘ وائرس یا فنگس‘ جنہیں حیاتیاتی ہتھیار کہتے ہیں‘کو بھی اب آنے والے دنوں میں جنگ میں نسل کشی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امریکا میں حیاتیاتی جنگ کا ایک پروگرام 1942 ء میں سول ایجنسی ''وار ریزرو سروس‘‘ کو سونپا گیا؛ چنانچہ 1950ء کی کوریا وار میں روس‘ چین اور شمالی کوریا نے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ حیاتیاتی ہتھیار کا باقاعدہ استعمال کر رہے ہیں۔ کیوبا کئی دہائیوں سے امریکی ستم ظریفی کا شکار بتایا جاتا ہے۔ 1981ء میں کیوبا میں ڈینگو بخار وبا کی طرح پھیلا۔کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے اس وبا کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرایا اور اسے کیوبا کے خلاف امریکی حیاتیاتی جنگ قرار دیا۔برطانوی لیبارٹری ''اوکزی ٹیک‘‘ نے ڈینگو بخار سے نمٹنے کے لیے جینیاتی متغیر مچھر تیار کئے۔ 2009ء میں یہ جزائر غرب الہند کے جزیرے ''گرینڈ کے مین‘‘ میں چھوڑے گئے۔2010ء میں ایسے 30 لاکھ مچھر خفیہ طریقے سے چھوڑے گئے تھے۔ حالات و واقعات ثابت کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس قدرتی نہیں‘ اسے لیبارٹری میں بنایا گیا ہے۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انسانیت کیخلاف ایک بہت بڑی سازش کی تیاری کی گئی ہے ۔ سابق امریکی صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ کہ اپنے لوگوں پہ کیمیکل ہتھیا ر استعمال کیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا رہا کہ آئندہ ہتھیار کی بجائے ایک ایسی خوفناک بیماری پیدا کر دی جائے گی‘ جس کے ذریعے لوگوں کو اس قدر خوف میں مبتلا کر دیا جائے گا کہ اتنی ہلاکتیں شاید جنگ عظیم میں نہ ہوئی ہوں‘ اس سے بڑی تعداد کو ایک خطرناک وائرس سے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اور آج ایسا ہی ہو رہا ہے کہ 10 روزانہ کی بنیاد پر مرنے والوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ رہی ہے ۔ یہ جان لیوا وائرس 2006 ء میں ایک امریکا کی کیرون کمپنی نے حکومتی سر پرستی میں تیار کیا تھا اور اس کا لائسنس نمبر ہے؛US2006257952۔ یورپ میں 2014ء کے دوران مذکورہ ویکسین کے لائسنس کے حصول کیلئے دوڑ لگ گئی تھی اور اس کا نمبر ہے؛ EP3172319B1‘لیکن حیرت کی بات ہے کہ عموماً ویکسین 2 یا 3سال میں مارکیٹ میں آجاتی ہے‘ اس ویکسین کا باقاعدہ لائسنس نومبر2019ء میں دیا گیا ۔ اسرائیل نے اعلان کیا تھاکہ یہ ویکسین انہیں فراہم کی جائے گی‘ جو ہمیں بحیثیت ِملک تسلیم کرتے ہیں ‘جو ہمیں تسلیم نہیں کرتے ‘ہم انہیں یہ ویکسین نہیں دیں گے تواندازہ لگا لیجئے کہ اس ویکسین کو سیاسی و معاشی مفادات کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ا س حوالے سے ہولناک انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں ۔ کورونا وائرس کی ویکسین کی اجازت امریکا اور یورپ نے دی اور یہ مینوفیکچر اسرائیل میں ہوا‘ لیکن ابھی تک اسے باہر نہیں لا یا گیا ۔ کورونا وائرس انگلینڈ کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا‘ جس کی رجسٹریشن بھی ہوئی امریکا سے چین اور کینیڈاکے ذریعہ ووہان لیبارٹری میں بھیجا گیا اور چین بھی ٹھیک چیخ رہا ہے کہ یہ گھنائونا کھیل امریکا نے کھیلا اس سلسلہ میں 5امریکیوں کے ذریعے چین کے شہر ووہان میں پہنچایا گیا۔ انگلینڈ کے The Pirbright Institute میں تیار ہوا اور اس کی مالی معاونت بل المنڈا گیٹ فائونڈیشن نے کی ‘جس ادارے کا دنیا بھر میں یہ کہنا ہے کہ ہم آپ کی مدد کیلئے آئے ہیں۔امریکا کے ایک بڑا ہسپتال جونزہاکس کنگز واشنگٹن میں Bloomberg School of Public Health کے مالک کے امریکی صدرسے گہرے مراسم ہیں‘ یہ امیر کبیرآدمی 60بلین ڈالرز کا مالک ہے۔ انہوں نے اس وائرس کی تیاری میں معاونت کی تھی ‘جو ووہان بھیجا گیا تھا۔اس کے جملہ حقوق نمبر10,10.701اور اس کا کووڈ نام اسے لئے رکھا گیا تھا کہ اسے سی ڈی سی کی اجازت سے بنایا گیا۔ امریکا میں سی ڈی سی کا مطلب ہے؛ Centers for Disease Controlاور 2019ء میں کمپیوٹر پر اس کی پریکٹس بھی ہوئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم نے بھی مالی مدد کی ۔ووہان میں بیماری پھیلنے سے پہلے ایونٹ 201کے نام سے اس وائرس کی میڈیسن تیار کرنے کیلئے کمپیوٹر پر اس کی پریکٹس کی گئی تھی اور اسے کینیڈا کے ذریعے ایکسپورٹ کیا ۔ کینیڈا Winnipeg میں چینی بیالوجسٹ ڈاکٹر کیڈنگ چنگ کو قید کر رکھا ہے۔
لمحہ ٔ فکر یہ ہے کہ اس خطرناک ویکسین کی فراہمی اور مینوفیکچرنگ کا مالی فائدہ اسرائیل کو دیا جا رہا ہے‘ تا کہ اس کے ورلڈ پاور بننے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔حالیہ مخدوش حالات میں ہمارے ملک پاکستان کیلئے ایک مشکل گھڑی ہے ‘جہاں گزشتہ 73 برسوں میں ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ اب‘ بڑے بڑے بیانات دئیے جارہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں کانفرنس بھی بلائی‘ مگر وہ ان کی ذاتی تقریر تک محدود رہی‘کیونکہ اس کانفرنس میں شہباز شریف اور بلاول زرداری بائیکاٹ کر گئے۔ یہ وقت سیاسی اختلافات کانہیں ‘بلکہ یکجا ہو کر مقابلہ کرنے کا ہے۔ امریکا و یورپ کے گھر گھر میں ماسک تیار کئے جارہے ہیں امریکا میں اس وقت پاکستانی روپے کے مطابق 50سے60روپے میں بک رہا ہے۔ کیا ہم پاکستان میں یہ نہیں بنا سکتے؟ وہی سلائی مشینیں‘ پاکستان میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں‘ جو امریکا سے خریدی گئی تھیں۔ شاید ہمارے حکمرانوں کی عادت ہوگئی ہے کہ کشکول اٹھانے کی یا پھرہر ایک چیز کیلئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا نا ہمارا محبوب مشغلہ بن چکا ہے ۔