کرونا وائرس کی اس عالمی وبا سے دنیائے انسانیت کو بچانے کی خاطر پاکستان سمیت عالمی براداری‘جس طرح کی حفاظتی تدابیر بروئے کارلا رہی ہے ‘وہ قابل قدر اور شرف آدمیت سے مَیل کھاتی ہیں۔بیشک‘بقائے نفس کے لیے فطرت نے انسان کو ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں ودیعت کر نے کے علاوہ اس عالم رنگ و بو میں اسباب کے جو لامحدود وسائل پھیلا رکھے ہیں‘ وہ ایسی ہی مساعی کے متقاضی ہیں ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود انسان اپنی بربادی کے محرکات پہ قابو پا سکا‘ نہ اپنی کم مائیگی کا ازالہ کرنے کے قابل ہوسکلا ہے۔معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ اپنی آخری کتاب''بڑے سوالوں کے مختصر جوابات‘‘ میں اسی کیفیت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں : ''ہماری زمین اتنے زیادہ معاملات اور مسائل کے حوالے سے خطرات میں مبتلا ہے کہ مثبت سوچنا بے حد مشکل ہے‘یہ خطرات نا صرف بڑے ہیں‘ بلکہ تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں‘سب سے پہلے یہ کہ زمین ہمارے لئے بہت چھوٹی ہوگئی ہے‘ہمارے مادی ذرائع نہایت سرعت کے ساتھ‘خطرناک شرح سے ختم ہوتے جا رہے ہیں‘ہم نے اپنے سیارے کو ماحولیاتی تبدیلی کا بھیانک اور تباہ کن تحفہ دیا‘درجۂ حرارت میں اضافہ‘قطبین پہ جمی برف میں مسلسل کمی‘جنگلات اور درختوں کی بے دریغ کٹائی‘حد سے بڑھی ہوئی آبادی‘بیماریاں‘جنگ‘ قحط‘پانی کی قلت اورجانواروں کی نسل کشی‘یہ تمام مسائل‘ اگرچہ لاینحل نہیں تھے ‘لیکن ابھی تک حل نہیں ہو پائے‘‘۔
گویا تمام تر وسائل کی موجودگی اوربھرپور ذہنی توانائیوں کے باوجود انسان کی اجتماعی ذہانت نظام کائنات کی بوقلیمونیوں کو سمجھ سکی ‘نہ اپنی بقاء کے اصول مرتب کرنے میں کامیاب ہوئی؛چنانچہ اسے مجبوراً پھر اُسی مبدائے فیض کی طرف رجوع کر نا پڑے گا‘ جس نے اسے سحر انگیز کائنات اورتجسس سے لبریز زندگی بخشی۔شایدیہی وجہ تھی کہ ہر نبی نے نوع انسانی کو اپنی ذہنی و جسمانی مساعی کو بروئے کار لانے کے بعد آخر کار خالق کون و مکان کے سامنے سرنیاز جھکانے اور اسی سے مدد مانگنے کی تلقین کی ‘کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زندگی کی ہمہ جہتی اور اس کائنات کا تنوع انسانوں کے محدود اذہان کے احاطہ سے باہر ہے‘لیکن انسان بھی ازل سے خدا پہ بھروسہ کرنے کی بجائے اسباب و علل کی فراوانی میں ہی نوع انسانی کی بقاء تلاش کرنے کا خوگر نکلا اور دل و دماغ کی یہی تقسیم ہر آن نفس انسانی کے اندرخیر و شر کی کشمکش برپا رکھتی ہے۔
علیٰ ہذالقیاس‘ایک ایسے وقت میں جب پوری انسانیت سائنسی ترقی کے بام عروج کو چھو رہی تھی اور اہل علم کی زبان پہ خلا کی وسعتوں پہ تصرف پانے کی بحث جاری تھی‘ایک چھوٹے سے کرونا وائرس کی وبا نے عہد جدید کی اُس سائنسی ترقی اور حیرت انگیز ایجادات کی کلی کھول کے رکھ دی‘جس کے برتے پہ انسان انفرادی اور اجتماعی زندگی کی جزیات کو کنڑول کرنے کے زعم میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا۔دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں صرف چند دنوں میں ہی بے بسی کی تصویر بن گئیں‘خاص کر وہ اہل مغرب جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی کامیابیاں پانے کی وجہ سے موت اور زندگی کی حقیقت کو پالینے کے دعوے کئے‘آج وہی اہل ِخرد ایک حقیر وائرس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں‘جس کسی نے بھی مغرور لوگوں کی سرزمین اٹلی کے شہر روم میں الحاد پسند عیسائیوں کو نہایت بے بسی کے عالم میں سربسجود ہونے کی ویڈیو دیکھی ہو گی۔وہ سرکش انسان کی کم مائیگی کا اعتراف ضرور کرے گا۔یہ اٹلی کے وہی لوگ ہیں‘ جن کے ابا و اجداد روم جیسی عظیم الشان سلطنت کا معمار تھے۔آج بھی وہ خود کو روم کی پرشکوہ تہذیب کا وارث سمجھتے ہیں‘اسی اٹلی کی پوری سائنسی ترقی اورجدیدترین ریاستی مقتدرہ کرونا وبا کی لہر کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔
Italian Prime Minister Giuseppe Conte 'We have lost control, we have killed the epidemic physically and mentally. Can't understand what more we can do, all solutions are exhausted on ground. Our only hope remains up in the Sky,
اٹلی کے وزیراعظم نے تو بہت جلد اس حقیقت کو پا لیا کہ انسان کو دست قضا سے صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے‘ لیکن مسلمان حکمرانوں میں ابھی تک خدا کی طرف رجوع کرنے کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ '' طاعون عذاب ہے‘ جو پہلے گزشتہ امت پر بھیجا گیا۔ اس لئے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے) تو وہاں نہ جاؤ‘ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے ‘جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو‘‘۔آپﷺ کے اس قول مبارک میں یہی حکمت پنہاں تھی کہ اپنی جان بچانے کی کوشش میں ایسی وبائی امراض کو دیگر علاقوں میں پھیلانے کا وسیلہ مت بنو۔حضرت عمرؓ کے زمانہ میں حمص کی اُس خون ریز جنگ کے دوران مسلم فوج میں طاعون کی وبا پھیل گئی‘ جس میں ہرقل واپس شام کی طرف پلٹے کی کوشش کر رہا تھا‘اسے تاریخ میں عمواس کا طاعون کہتے ہیں‘اس وبا نے بہت سے مسلمانوں کی جان لی۔اس وقت اسلامی فوج کے سپاہ سالار حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ جیسا عظیم صحابی تھا۔حضرت عمرؓ نے خط لکھ کر ابوعبیدہؓ کو واپس مدینہ بلانے کی کوشش کی تو ابن جراحؓ نے جواب دیا: ''امیر المومنین میں آپ کی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا‘ لیکن مسلمانوں کی فوج میں ہوں اور میرا دل ان سے جڑا ہوا ہے‘اس لیے میں واپس نہیں آ سکتا‘‘۔اس نامہ و پیام کے تین دن بعد حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کی بغل میں گلٹی نکلی تو وہ اسے دیکھ کے مسکراتے ہوئے فرماتے تھے:''میرا بلاوا آ گیا‘‘۔یوں وہ طاعون کی مرض سے اٹھاون سال کی عمر میں شام میں وفات پا گئے۔ابو عیبدہ بن جراحؓ اسلام کے وہ عظیم جرنیل تھے‘ جنہوں نے شام اور بیت المقدس فتح کیا۔ ان کی فقیرانہ طبیعت کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے؛ فتح کے بعد حضرت عمرؓ جب بیت المقدس تشریف لائے تو انہوں نے ابوعبیدہ بن جراحؓ کے ہاں کھانا کھانے کی خواہش ظاہر کی۔اسلامی فوج کے سپاہ سالار نے اس ضیافت میں امیر المومنین کے سامنے روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے رکھے ‘جنہیں ابو عبیدؓ روز پانی میں بھگو کے کھایا کرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا: ''شام میں آ کے سب لوگ بدل گئے‘ لیکن ابو عبیدہ ؓصرف تم ہی ہو جو اپنی وضع پہ قائم ہو‘‘۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینہ میں قحط پڑ گیا‘ تو حضرت عمر ؓنے شام کے گورنر کو حکم دیا کہ یہاں اناج پہنچاؤ ‘شامی گورنر کئی ماہ تک غلّہ کے ہزاروں اونٹ بھجواتے رہے‘ لیکن قحط ختم نہ ہوا ۔روایت میں آیا ہے کہ حضور اکرمﷺ ایک صحابی کو خواب میں ملے اور فرمایا کہ ''عمر سے کہو کہ ہم تو تمہیں عقل مند آدمی سمجھتے تھے‘‘۔ صحابیؓ رسولﷺ کی آنکھ کھلی تو رات کی تاریکی میں اُسی وقت حضرت عمرؓ کے گھر پہنچ گئے۔کہا '' اٹھو امیر المومنین میں آپ کیلئے حضورﷺ کا پیغام لایا ہوں‘‘صحابیؓ رسولﷺ نے کہا :''مجھے خواب میں حضورﷺ نے پیغام دیا ہے‘ انہیں کہہ دو کہ اے عمرؓ میں تو تمہیں بہت ذہین انسان سمجھتا تھا‘‘۔حضرت عمرؓ کو بات سمجھ آ گئی؛ چنانچہ صبح سویرے انہوں نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور حضور ؐکے چچا حضرت عباسؓ کو ساتھ لیکرننگے پاؤں احد کی پہاڑی کے قریب بیٹھ کر قحط کی وبا کے خاتمہ کیلئے گڑگڑا کے اللہ سے دعا مانگی اورفرمایا: ''یا اللہ دیکھو میں تیرے محبوبﷺ کے چچا کو ساتھ لایا ہوں‘تو ہمارے حال پہ رحم فرما‘‘۔کہتے ہیں کہ اس دعا کی قبولیت کے بعد جلد مدینہ سے قحط کی وبا ٹل گئی۔
آج بھی ہمیں اسباب کی دنیا میں تگ و دو جاری رکھنے کے باوجود اپنے رب سے مدد مانگنے کی اشد ضرورت ہے۔حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بارگاہ ِالٰہی میں سربسجود ہو جائیں‘ بلکہ پوری امت اس وبا سے نجات کی خاطر اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے۔