کورونا وائرس دنیا بھر کے ممالک کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے اور اب اقوام عالم کا شاید ہی کوئی ملک یا شہر ہو‘ جہاں اس وائرس نے اپنے پنجے نہ گاڑ رکھے ہوں۔ شہری آبادیاں‘ دیہات، پربتوں کی وادیاں‘ سمندروں اور دریاؤں میں زندگی بسر کرنے والی آبادیاں سب کی سب اس وائرس کے شکنجے میں آ چُکی ہیں۔ اور تو اور بڑے بڑے فوجی بحری بیڑے بھی اس قاتل وائرس سے محفوظ نہیں رہے۔ امریکہ جیسی دنیا کی واحد سپر پاور کو اب سب سے زیادہ خطرہ کورونا وائرس سے ہے۔ امریکی افواج پر بھی یہ حملہ آور ہو چکا ہے‘ جس کے بعد اس وبا کو امریکہ نے قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ قرار دے دیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل امریکی بحری بیڑے روزویلٹ‘ جس میں پانچ ہزار فوجی سوار تھے‘ کو ہنگامی بنیادوں پر لنگر انداز ہونا پڑ گیا ہے۔ بحری بیڑے کے کپتان نے پینٹاگون کو مدد کے لیے خط لکھا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ ہم حالت جنگ میں نہیں ہیں اور سیلرز کی جانوں کو شدید خطرہ ہے۔
اس ایئر کرافٹ کیریئر پر 5000 سیلرز اور دیگر عملہ تعینات ہے‘ جن میں سے 80 میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی‘ (یہ تعداد اب ایک سو ہو چکی ہے) ایٹمی صلاحیت کے حامل امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس تھیوڈور روزویلٹ پر کورونا وائرس پھیلنے کے بعد اسے گوا نامی جزیرے میں لنگر انداز کیا گیا ہے۔
امریکی جنگی بحری بیڑا ایران اور شمالی کوریا سے درپیش خطرات کے سد باب کے لیے ان دنوں بحرالکاہل کے علاقے میں اپنے مشن پر تھا۔ ایئر کرافٹ کیریئر پر پہلا کورونا کیس ایک ہفتہ پہلے رپورٹ ہوا تھا۔ وائرس کیسے پھیلا؟ حکام کو یہ معلوم نہیں؛ تاہم تین ہفتے پہلے یہ ویت نام کے ساحل پر لنگر انداز رہا۔ تھیوڈور روزویلٹ پر ایک روز میں صرف 200 کورونا ٹیسٹ کرنے کی سہولت ہے؛ چنانچہ 5000 افراد کو چیک کرنے کیلئے کئی ہفتے درکار ہوں گے۔ جنگی بحری جہاز خالی کرنے کے بعد 5000 بیڈز کی دستیابی کا مسئلہ درپیش ہو گا۔ اس لیے ہنگامی امداد کیلئے چار صفحات پر مشتمل اپنے خط میں جنگی بحری بیڑے کے کپتان بریٹ کروزیئر نے خبردار کیا کہ ''ہم نہ تو حالت جنگ میں ہیں اور نہ ہی سیلرز کو مرنے دینے کی ضرورت ہے‘ اگر فوری اقدام نہ کیا تو اپنے انتہائی قابل بھروسہ اثاثے یعنی سیلرز کی حفاظت میں ناکام ہو جائیں گے، پینٹاگون ایئر کرافٹ کیریئر خالی کر کے سیلرز کو قرنطینہ منتقل کرنے سے متعلق فوری فیصلہ کرے‘‘۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے ردعمل میں کہا تھا ''میرا خیال ہے ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ اس وقت جنگی بحری بیڑے کو خالی کیا جانا چاہئے‘‘۔ سماجی فاصلہ بھی فوجی آپریشنز میں حائل ہے۔ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس صورتحال سے ایران اور شمالی کوریا جیسے دشمن ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس لیے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آپریشنز برقرار رکھے جائیں یا سیلرز کو بچایا جائے؟ اس سوال پر امریکی فوج کی رائے تقسیم ہے۔ وائرس پھیلنے سے امریکی فوج کی کمیونی کیشن، فاسٹ ریسپانس، لاجسٹکس، اور نظم و ضبط جیسی صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ یہ بات امریکی جریدہ بلوم برگ میں کہی گئی جبکہ پینٹاگون کے مطابق گزشتہ منگل تک امریکی فوج کے 673 آن ڈیوٹی اہلکاروں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ عراق میں امریکی فوجی تنصیبات پر حملوں کا ارادہ ترک کر دے کیونکہ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے صدر ٹرمپ کو اطلاع دی ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال سے ایران فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ اس حوالے سے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اسی نوعیت کا خطرہ ایران سے سعودی عرب کو بھی لاحق ہے۔ شاید اسی لیے سعودی عرب کو اپنی حالیہ بغاوت میں ایرانی ہاتھ کی اطلاعات ہیں‘ جس کے بعد سعودی عرب نے کورونا کے ساتھ ساتھ اپنی سلامتی کو درپیش خطرے کے پیش نظر غیر معمولی اقدامات کیے ہیں اور وہاں پر طویل دورانیے کا کرفیو اور بعض مخصوص علاقوں کو سیل کرنے کا تعلق بھی محض کورونا سے نہیں ہے۔ خلیج فارس سے جُڑے سعودی شہروں کو بھی خاص طور ہر سیل کیا گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا‘ کورونا نے کسی کو بھی معاف نہیں کیا اور تازہ اطلاعات کے مطابق کورونا کے بڑھتے ہوئے مریضوں کے پیش نظر ریاض‘ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں کُل وقتی کرفیو لگا دیاگیا ہے۔ تمام ممالک کورونا کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ اس لئے بھی قرار دے رہے ہیں کہ اس وبا نے اقوام عالم کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ نے اس مقصد کیلئے دو ہزار ارب ڈالر جبکہ پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر رکھے ہیں۔ یہی وجہ کہ پاکستان نے بھی کورونا کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے دیا ہی اور اس سے نمٹنے کیلئے ایک خصوصی ادارہ نیشنل کوآرڈینیشن اینڈ آپریشن سینٹر تشکیل دے دیا ہے جو کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے تمام فیصلے برق رفتاری سے کرنے میں مکمل با اختیار ہو گا۔ یہ ادارہ سادہ زبان میں ون ونڈو آپریشن کیلئے بنایا گیا ہے۔ اس ادارے کو آپریٹ کرنے کیلئے ایک لیفٹیننٹ جنرل کو نیشنل کوارڈی نیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ این ڈی ایم اے کو اس کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ ایسی ہی صورتحال صوبوں میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ تمام کور کمانڈرز کو آرمی چیف کی طرف سے ہدایات جا چکی ہیں کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے سول حکومتوں کی مکمل معاونت کی جائے اور جب سے اس معاملے میں افواج پاکستان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہے‘ فیصلے کرنے اور عملدرآمد کرنے میں کافی بہتری آئی ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس مسلسل ہو رہے ہیں جس میں سول اور فوجی قائدین‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ حکام مل بیٹھ کر فیصلے کر رہے ہیں؛ تاہم لاک ڈاؤن یا کرفیو لگانے اور کس حد تک لگانے جیسے معاملات پر اختلاف رائے اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس لئے یہ اطلاعات بھی اب آنا شروع ہو گئی ہیں کہ مقتدر حلقے بھی کُچھ کُچھ ذرا ہٹ کے سوچنا شروع ہو گئے ہیں اور ان اطلاعات کو منظر عام پر لانے کے لئے قدرے غیر معروف اور غیر معتبر ذرائع کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ کُچھ کہہ بھی دیا جائے اور کوئی منظر عام پر بھی نہ آئے۔ نہ انگلی اٹھے نہ اشارہ کسی کی طرف ہو۔ رد عمل بھی چیک کر لیا جائے اور ذہن سازی کا عمل بھی ہو گزرے‘ لیکن بعض جلد باز دانشور بہت جلد تبدیلی دیکھنے کے خواہش مند نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ایسا ہونا کُچھ دور معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک نہیں ہو جاتیں تب تک ایسی کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی کسی صورت مسلم لیگ ن اور خاص طور پر شریف فیملی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ کمزور عمران خان ان کیلئے مسلم لیگ ن سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ اور پھر شریف فیملی کے اپنے اندر بہرحال بڑی تقسیم موجود ہے۔ شہباز شریف کے راستے میں خاندان کے اندر لوگ اور پیپلز پارٹی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں‘ یہاں تک کہ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو اقتدار کے ایوانوں سے کوسوں دور رکھنے کی خواہش مند ہے اور اسے یہ بھی گلہ ہے کہ ہر بار شریف فیملی پر ہی عنایات کیوں؟؟ یہ رسہ کشی‘ گلے شکوے اپوزیشن کے اندر بھی جاری و ساری ہیں‘ جس کی وجہ سے عمران خان صاحب کو مسلسل لائف لائنز مل رہی ہیں۔ مسئلہ کسی کو ہٹانا یا گرانا نہیں ہوتا عددی اکثریت بھی پلک جھپکنے میں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہے‘ اکثریت سادہ ہو یا نہ ہو دو تہائی ہو یا تین چوتھائی اس سے فرق نہیں پڑتا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگلا کون ہو گا اور کیسا ہو گا اور وہ آ کر کیا سلوک کرے گا؟ نیا تجربہ کرنے سے بہتر ہے جو ہے جیسا ہے اس پر گزارہ کیا جائے کہ کم از کم اس کا پتا تو ہے۔ لیکن اگر کوئی موزوں امیدوار مل جائے تو پھر تبدیلی پلک جھپکنے میں ہی آ جاتی ہے۔ ایسی کسی صورتحال سے بچنے کیلئے اگر معاملات کو خود ہی ٹھیک کر لیا جائے تو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔