تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     27-05-2013

ایک تجویز بجلی کے لیے

جنرل مشرف نے 2001ء میں کوشش شروع کردی کہ پاکستان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایران کی سرحد سے لے کر ملتان تک گیس پائپ لائن بچھا ئی جائے تاکہ ملک میں توانائی کی ضرورت سے نمٹا جاسکے۔ اس منصوبے میں ان کی دلچسپی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ایران سے پاکستان تک گیس پائپ لائن کا یہ تصور 1950ء میں ایک نوجوان فوجی افسر نے ہی پیش کیا تھا۔ اس تصور کو حقیقت میں بدل کر وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ فوجی ملکی دفاع سے آگے بڑھ کر ملکی معیشت کے بارے میں بھی نئی سوچ دے سکتے ہیں۔ نائین الیون کے واقعات کے بعد جب امریکہ کو جنرل مشرف کی غیر معمولی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے یہ سمجھا کہ مفاد کے اس کھیل میں امریکہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی طرف سے آنکھیں بند کرلے گا۔ ان کی یہ توقع بڑی حد تک پوری بھی ہوئی، جب تک ایران اور پاکستان کے درمیان اس موضوع پر صرف باتیں ہوتی رہیں، امریکیوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی‘ پھر جیسے ہی گفتگومیں بھارت شریک ہوا تو سفارتی زبان میں یہ سمجھایا جانے لگا کہ جناب ایسا نہ ہی کریں تو بہتر ہے، دوسری طرف بھارت کو سول نیوکلیر ٹیکنالوجی کالالچ دیا گیاتو اس نے فوری طور پر اس منصوبے سے منہ موڑ لیا۔ بھارت کے اس معاملے سے نکل جانے کے باوجود ایران اور پاکستان نے دھیمے سُروں میں یہ راگ چھیڑے رکھا۔ 2006ء میں جب لوڈشیڈنگ شروع ہونے لگی تو پاک ایران مذاکرات میں بھی تیزی آگئی، قبل اس کے کہ ان مذاکرات کے نتائج کا اعلان ہوتا‘ امریکی وزیر برائے توانائی سیموئل بوڈمین نے پاکستان آکر اپنے ایک امریکی دوست کے ذریعے ایک ایسے پاکستانی بزنس مین سے ملاقات کی جو جنرل مشرف کے بڑے قریب سمجھے جاتے تھے۔ امریکی وزیر نے اس نجی ملاقات میں واضح انداز میں کہا ’میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے دوست(جنرل مشرف) کو بتا دیں کہ ایران سے پاکستان تک گیس پائپ لائن ہم نہیں بچھانے دیں گیـ، البتہ بجلی کے معاملے میں کوئی اور مدد درکار ہو تو ہم تیار ہیںـ‘۔ غیر روایتی طریقہ کار اختیار کرکے یہ پیغام جنرل مشرف تک اس لیے پہنچایا گیا تھا کہ انہیں معاملے کی سنگینی تو معلوم ہوجائے لیکن ریکارڈ پر کچھ بھی نہ آئے۔ امریکی خواہش کے مطابق ریکارڈ پر تو کچھ نہیں آیا لیکن پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ایران سے پاکستان کو گیس کی ترسیل ،سعودی عرب سے تیل کی ادائیگیوں پر رعایت یا ڈیم بنانے کے لیے عالمی اداروں سے سرمائے کی فراہمی ایسے معاملات ہیں جن میں دوسروں اور ’تیسروں‘ کی مداخلت مسائل کو مزید الجھا دیتی ہے یا کم ازکم حل کا راستہ دشوارضرورہوجاتا ہے۔اس لیے اب ہمیں دوسروں اور تیسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے کوئی ایسی پالیسی وضع کرنی ہے جو ہمارے حالات کے مطابق ہو نہ کہ مشکل وقت میں ہم الٹے سیدھے معاہدے کرکے اپنی جان عذاب میں ڈال لیں۔ اپنی مختلف غلطیوں سے ہم نے بجلی ، تیل اور گیس کے مسائل اتنے زیادہ الجھا دیے ہیں کہ اگلے روز سابق حکومت کے ایک نمایاں وفاقی وزیر بتا رہے تھے کہ ’ ہمیں لوڈ شیڈنگ نے اقتدار سے نکال دیا، لیکن لوگ جانتے نہیں کہ بجلی کا معاملہ ایک بھنور کی طرح ہے، شاید ہی کوئی آئندہ دس سالوں میں بھی اس سے باہر نکل سکے‘۔ تقریباً دو عشروں کے الجھے ہوئے معاملات اور دس سال کی بے عملی کے باعث نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ بجلی کا موجودہ نظام چلایا جائے تو یقینی بات ہے کہ ملک برباد ہوجائے گا اور اگر اس سے جان چھڑا لی جائے تو شاید پھر بھی بربادی ہی مقدر ہے۔ اس بربادی سے نکلنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے ایک سے دوسال کے اندر اندر تین سے پانچ ہزار میگاواٹ سستی بجلی کا حصول لیکن صورت حال یہ ہے کہ ڈیم بن نہیں سکتے، ایٹمی بجلی گھر لگ نہیں سکتا اور ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ بن بھی جائے تو دوہزارمیگا واٹ سے زیادہ بجلی نہیں دے پائے گا۔اس کے علاوہ یہ امکان بھی ذہن میںرکھنا چاہیے کہ یہ منصوبہ ابھی تک کاغذوں پر لکھا ہوا خواب ہی ہے ، جس کی تعبیر مستقبل کی دھند میں گُم ہے۔ ہماری معیشت کو گھُن کی طرح کھانے والے اس بحران کا راستہ ہمیں کہیں باہر سے نہیں، اندر سے ہی نکالنا ہے۔ اس راستے پر پہلا قدم تو بجلی کے انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ تیل سے بجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانوں پر مکمل طور پر پابندی لگا دی جائے اور ان کی بجائے صرف اور صرف کوئلے، گیس اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر ہی غور کیا جائے۔ ہمیں اپنے مروجہ نظام سے باہر نکل کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ نیشنل گرڈ کے ذریعے منتخب شہروں اور دیہات کو ہی بجلی فراہم کی جائے اور باقی جگہوں پر ضلعے یا ڈویژن کی سطح پر بجلی کے محکمے نجی شعبے کے سپرد کردیے جائیں۔ ضلعے یا ڈویژن کی سطح پر بجلی کے محکمے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ڈویژن میں اگر چار سو میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے تو اسی ڈویژن کے ہیڈ کوارٹرسے گزرنے والی ریلوے لائن کے قریب ہی پانچ سو میگاواٹ کاکوئلے کا پلانٹ لگا دیا جائے تاکہ کوئلے کی ترسیل میں بھی آسانی رہے ۔ حکومت یہ پلانٹ خود لگانے کی بجائے نجی شعبے کے ذریعے لگوائے اور اس مقصد کے لیے نیپرا ہر علاقے کی ضروریات کے مطابق کم ازکم ایک اور زیادہ سے زیادہ تین لائسنس ، طے شدہ ٹیرف کے ساتھ جاری کرے۔ لائسنس ہولڈر کی ذمہ داری ہو کہ وہ نہ صرف اس علاقے میں ضرورت کے مطابق مسلسل بجلی فراہم کرے گا بلکہ اس کی تقسیم کا ذمہ دار بھی ہوگا۔ لائسنس ہولڈر کے لیے ضروری ہو کہ وہ اس کمپنی کو سٹاک مارکیٹ میں لسٹ کروائے اور کم ازکم دس فیصد حصص مقامی حکومتوں کو ان کی سرمایہ کاری کے عوض دے۔ ہوسکتا ہے ابتدائی طور پر نجی شعبہ تقسیم کا نظام سنبھالنے سے گریز کرے تو ایسی صورت میں یہ کام صوبائی اور مقامی حکومتیں کچھ عرصے کے لیے اپنے ذمے لے سکتی ہیں۔ کوئلے کے ذریعے چلنے والے پلانٹ با آسانی دو سے چار سال کے اندر اندر لگ سکتے ہیں۔ اگر حکومت نجی شعبے کو اس طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے تو پاکستان میں کئی جگہوں پر بیک وقت ایسے پلانٹس کی تنصیب شروع ہوسکتی ہے جہاں سے بجلی آٹھ سے دس روپے فی یونٹ میسر ہوگی۔ اس انتظام میں یہ بہرحال یقینی بنانا ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ کوئلہ وہ استعمال ہو جو پاکستان کے اندر میسر ہے۔ اگر درآمدی کوئلے سے ہی پاور پلانٹ چلانے ہیں تو پھر انہیں پاکستان کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ہی لگنا چاہیے، لیکن بجلی کے اتنے بڑے کارخانے پھر اسی پیچیدگی کا باعث بنیں گے جس میں ہم پہلے سے گرفتا رہیں۔ سو سو یا دو دو سو میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرکے ہم دراصل بجلی ضائع ہی کر رہے ہیں ، قابل عمل راستہ یہی ہے کہ یہ پلانٹس شہروں کے قریب نجی شعبے کی مدد سے لگائے جائیں ، ایک بار نجی شعبہ اس میدان میں مناسب طریقے سے متحرک ہوگیا تو بجلی کا نظام بڑی حد تک درست ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اپنی پوری قوت ایٹمی توانائی کے حصول، ڈیموں کی تعمیر ، تھر میں کوئلے کے ذخائرکی ممکنہ ترقی اور ملک میں تیل و گیس کی تلاش پر لگائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اس بحرانی کیفیت پر قابو نہ پا سکے۔ شر ط صرف یہ ہے کہ سمت کا تعین کرکے سفر شروع کردیا جائے۔نجانے اس سفر میں ایران سے آنے والی گیس بھی کوئی سنگِ میل ہے یا نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved