ایک تصویر میں نظامِ شمسی کے مختلف سیاروں کا آپس میں اور سورج کے ساتھ اور پھر سورج کا موازنہ دوسرے ستاروں سے کیا گیا ہے ۔ اندرونی مدار کے چار سیاروں ‘ عطارد‘ زہرہ ‘ زمین اور مریخ میں کرّ ہ ٔ ارض سب سے بڑا ہے ۔اسے اگر ایک فٹ بال کے برابر تسلیم کر لیجیے تو عطارد ایک گیند ہے ‘پھر جب ہم اپنے سیارے کا موازنہ بیرونی مدار کے سیاروں سے کرتے ہیں تو پیمانے بدل جاتے ہیں ۔ کرّہ ٔ ارض اب مٹر کا ایک دانہ ہے اور مشتری ایک فٹ بال ‘ پھر مشتری مٹر کا دانہ اور سورج فٹ بال‘ لیکن ہمارا یہ پیارا سورج ایک اجنبی سورج (یا ستارے )سیریس (Sirius)کے مقابل پانچ گنا چھوٹا دکھائی دیتا ہے ۔ ذرا رک جائیے ۔ اب‘ سیریس مٹر کا دانہ ہے اور آرک چورس (Arcturus)فٹ بال‘ لیکن یہ فٹ بال ایلڈی بیرن(Aldebaran)سورج سے پانچ گنا چھوٹا ہے ۔ ایلڈی بیرن کا موازنہ جب اینٹاریس(Antares)نامی سورج سے کیا گیا تو پھر مٹر کے دانے اور فٹ بال کا پیمانہ ابھر آیا۔ اینٹا ریس Betelgeuse سے آدھا ہے ۔ اب‘ Betelgeuseکو ایک گیند سمجھ لیجیے تو VY Canis Majoris ایک فٹ بال ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ بڑے ترین ستارے ہمارے سورج سے قریب پندرہ سو گنا عظیم ہو سکتے ہیں ۔پندرہ سو گنا...!
قارئین! ''سورج ‘‘اور'' ستارے ‘‘کے الفاظ کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتاہے ۔ ہم اپنے ستارے کو سورج کہتے ہیں۔ ہم سے بے حد قریب ہونے کی بنا ء پر وہ بہت بڑ ادکھائی دیتاہے ‘لہٰذا اسے ایک الگ نام دینا ضروری تھا۔ اسی کے گرد ہم گردش کرتے ہیں ۔ ہماری زمین اور باقی سیارے اسی کی پیدائش کے بعد بچنے والے مواد سے بنے ہیں ‘ اسی طرح آسمان پر دکھائی دینے والے تمام ستارے بھی اپنی اپنی جگہ مکمل سورج ہیں ۔ ان میں سے اکثر دو یا تین کے گروپ میں روبہئِ عمل ہیں ۔ ان میں سے اکثر ہمارے سورج ہی کی طرح سیارے رکھتے ہیں ۔ ان سیاروں میں سے بہت سے ہماری زمین کی طرح چاند رکھتے ہیں ۔ ان سب کے مقابل ہماری زمین کا افتخار یہ ہے کہ یہاں ذہین زندگی (Intelligent Life)براجمان اور کائنات کا جائزہ لے رہی ہے ۔(اور ساتھ ہی ساتھ آپس میں جھگڑ بھی رہی ہے )
ستارہ یا سورج ہائیڈروجن گیس کی ایک گیند ہے ۔ ہائیڈروجن یہاں جلتی اور ہیلیم گیس میں بدلتی ہے ۔ جب تمام تر ہائیڈروجن ہیلیم میں بدل چکے ‘ تو ستارے کو فنا ہونا ہے ۔اب‘ یہ ستارے کے حجم پر ہے کہ وہ اسے ایک حقیر موت سے ہمکنار کرے یا ایک مردہ ہاتھی کی طرح سوا لاکھ کا کردے ۔ وہ ایک سفید بونا (White Dwarf)بن سکتاہے ۔ وہ خطرناک تابکاری خارج کرنے والا نیوٹران ستارہ بن سکتاہے ۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ لاکھوں کروڑوں کلومیٹر پر پھیلا ہوا ‘اس کا قطر سمٹ کر نہایت مختصر ہو جائے گا۔ حجم کم اور کمیت بڑھ جائے گی ۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ اس کے ایک چمچ کا وزن ٹنوں میں ہوگا۔ ستارے اپنی موت کے دوران جو مواداور جو عناصر خلا میں بکھیرتے ہیں ‘ وہ نئے سورجوں کی پیدائش میں استعمال ہوجاتاہے ۔
بڑے ستارے ہائیڈروجن پر مشتمل اپنا ایندھن جلدی ختم کر ڈالتے ہیں‘ لہٰذا جلدی مر جاتے ہیں ۔ کائنات کی عمر 13.8ارب سال ہے ۔قریب 13 ارب سال کی عمر کا ایک نہایت بوڑھا ستارا دریافت ہو چکا ۔
SMSS J031300.362670839.3نامی اس ستارے کی تعمیر میں کائنات کے ایک اوّلین عظیم الشان سورج کی باقیات استعمال ہوئی تھیں ‘اسی لیے یہ ماہرِ فلکیات کی توجہ کا مرکز ہے کہ یہ ستاروں کی سب سے پہلی نسل کے اجزا (Composition)کے بارے میں معلومات فراہم کرتاہے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہمارے اجسام میں موجود آکسیجن‘ کاربن‘ سمیت سبھی عناصر ستاروں کے اندر یا ان کی موت کے دوران ہونے والے دھماکوں ہی میں وجود میں آئے ہیں۔ لوہا بڑے ترین ستاروں کے خاتمے کے وقت عظیم دھماکوں سے وجود میں آتا ہے ۔ ان دھماکوں کو سوپر نووا (supernova)کہتے ہیں ۔ یہ کائنات میں موجودہر قسم کے بھاری عناصر کی تشکیل کا ذریعہ (Source)ہیں ۔
قیامت سے متعلق جس عظیم دھماکے کا القارعہ قرآنِ حکیم میں ذکر ہے ‘ وہ ایسا ہی ایک سوپر نووا بھی ہو سکتاہے‘ جو زمین کجا‘ سارے نظامِ شمسی کو ہلا کے رکھ دے‘جبکہ ایک بہت بڑا دھماکہ ہمارے سورج میں بھی ہونا ہے ۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ بلیک ہول بھی ایک عظیم ستارے کی باقیات کے سوا کچھ نہیں ۔کم حجم میں بہت بڑے وزن یا کمیت کی وجہ سے یہاں کششِ ثقل اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اس پر پڑنے والی روشنی کی شعاع بھی واپس آنے کی بجائے مڑ (Bent) جاتی ہے ؛لہٰذا ہم اسے دیکھ نہیں سکتے ۔ وہ اپنی زد میں آنے والے ستاروں تک کو نگل لیتاہے ۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ سورج اور اس کے گرد گھومنے والے چند سیارے ہی ننھی منّی زندگی کے لیے بہت کافی تھے ۔آخر کائنات اس قدر وسیع کیوں ہے ؟آپ کا کیا خیال ہے ؟
پس تحریر:ہم جس زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں ‘ اس میں ہر طرف ڈس انفارمیشن کی جنگ ہے ۔ گزشتہ روز ایک وڈیو دیکھی ‘ جس میں صدر پیوٹن کے خطاب پر اپنی مرضی کی اُردو ڈبنگ کر دی گئی تھی ۔اس ویڈیو میں صدر پیوٹن یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ امریکیو‘ تم نے جان بوجھ کر یہ وائرس تخلیق کر کے پھیلایا ‘تاکہ ہماری نسل کشی کر سکو‘ لیکن تم ایسا کبھی نہیں کر سکو گے ‘ اگر صدر پیوٹن ایسا بیان جاری کرتے تو اسے عالمی میڈیا میں ہیڈ لائن کے طور پر نشر کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اس وقت انتہائی کشیدہ صورتِ حال کا شکار ہوتی ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بے شمار لوگ اس جعلی خطاب کو تیزی سے شیئر کر رہے تھے ۔ اس طرح سے سازشی تھیوریز پھیلائی جاتی ہیں ۔
حقیقت میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہے ۔ چاند پر امریکیوں کے اترنے پر ایک ڈس انفارمیشن کی تحریک سویت یونین نے چلائی تھی ۔ باضابطہ طور پر اس کے سائنسدانوں نے کوئی اعتراض پیش نہیں کیا ‘لیکن لاکھوں عام لوگوں کو ای میل اور انٹرنیٹ پر سازشی تھیوریز پھیلانے کا ہدف دے دیا گیا تھا‘ اسی طرح اب سویت یونین میں ہزاروں لاکھوں اکائونٹس سوشل میڈیا پر یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ کورونا وائرس امریکا نے پیدا کیا ہے ۔ اس پر امریکا اور یورپ نے سخت اعتراض بھی کیا ہے ‘لیکن روسی حکام کا کہنا ہے کہ ہم ایسے کوئی اکائونٹس نہیں چلا رہے ۔(وہ از خود چل رہے ہیں )۔سوویت یونین یہ موقف باضابطہ طور پر اقوامِ متحدہ میں اختیارنہیں کر رہا کہ کورونا وائرس ‘امریکا نے بنایا اور پھیلایا ہے ؛البتہ ڈس انفارمیشن کی یہ جنگ چلتی رہے گی ۔ ہاں کبھی اگر ایسے ثبوت روسی سائنسدانوں کے ہاتھ میں آگئے ‘ جس سے یہ ثابت ہو کہ امریکا نے یہ وائرس بنایا ہے تو پھر روس کے لیے یہ سنہری موقع ہوگا کہ وہ پوری دنیا میں اپنے ازلی حریف امریکا کا منہ کالا کر سکے‘ لیکن اس کے لیے سالوں کا وقت اور ریسرچ درکار ہوتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن پھیلانے والوں کو اس ریسرچ کی ضرورت ہی نہیں۔ ان کا مشن یہ ہے کہ دیکھتے جائو اور پھیلاتے جائو۔ وہی حدیث کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔