کیا دنیا بدل گئی ہے یا بدل جائے گی؟ کیا دنیا ماسک اتار کر جب پھر اپنا چہرہ دکھائے گی تو اس کے خدوخال مختلف ہوں گے؟ کیا دنیا ابھی بدلنے کے عمل سے گزر رہی ہے؟ لوگوں کے معمولات جو بدل گئے ہیں کیا مستقل اسی جگہ منجمد ہو جائیں گے؟ کیا واقعی انسان کوکسی ان دیکھے ہاتھ نے جھنجھوڑا ہے؟ کیا حقیقت میں کسی غیبی آواز نے دنیا بھر میں ایک ہی وقت میں اذان دی ہے؟ نیند سے جگایا ہے؟ یہ بتایاہے کہ نماز نیند سے بہتر ہے؟
یہ عالم اسیری، یہ ڈراؤنا خواب ختم ہوگا توبیداری کیسی ہوگی؟ ہوگی بھی کہ نہیں؟ کیا جب لوگ دوبارہ دفتروں، دکانوں میں جائیں گے تو صبح صبح دروازے اور شٹر کھلنے کی آوازیں سنائی دیاکریں گی؟ کیا مغرب کے فوراً بعد دکانوں کے روشن قمقمے ایک ایک کرکے گل ہوجایا کریں گے؟ کیا فیکٹریوں اور ملوں سے وہ دھواں، وہ زہر نکلنا بند ہوجائے گا جو زمین کا اوزون غلاف روز چاک کرنے کے درپے ہوتا ہے؟ کیا زہر دریاؤں میں بہایا جانا بند ہوجائے گا؟ مچھلیوں اور سمندری حیات کو پھر میٹھا خالص پانی میسر آیا کرے گا؟کیا ہوا میں پھیلتا ہر طرح کا ناقابل برداشت، نہ ختم ہونے والا شورہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا؟ کیا فضا کے رگ و ریشے میں ہر وقت سرایت کرتی موت ہوا کو آلودہ کرنا چھوڑ دے گی؟ کیا سرمئی سموگ، گردوغبار چھٹ جائے گا، ہمیں ہمارا نیلا آسمان واپس مل جائے گا؟ کیا ساحلوں پر بکھرے ڈبے، شاپنگ بیگ، لفافے سمٹ جائیں گے اور نیلا سمندر سفید ریت کو پھرپیار سے بوسہ دے سکے گا؟
کیااسلحہ ساز فیکٹریاں بند ہوجائیں گی؟ بائیو ہتھیار تلف کردئیے جائیں گے؟ جنگیں رک جائیں گی؟ سرحدی جھگڑے نمٹ جائیں گے؟ ویزا کے بغیر پاؤں بڑھاکر سرحدی لکیر عبور کرلیا کریں گے؟ کچھ پاسپورٹوں پر درجہ اول اور کچھ پر درجہ دہم کی غیرمرئی مہریں ختم ہوجائیں گی؟ کالے، سفید، گندمی، پیلے ایک ہی صف میں کھڑے ہوا کریں گے؟ سفید چمڑی کا غرور ختم ہوجائے گا؟ امیر لوگ غریبوں کا ہاتھ تھام کر اپنے برابر کی آسائشیں فراہم کیا کریں گے؟ ٹی وی چینل آنکھوں اور کانوں کا عذاب بننا چھوڑ دیں گے؟ آزادیٔ اظہار کا شورمچاتے اینکر لوگوں کی آزادی کا احترام کرنا شروع کردیں گے؟
کیا سمندر پاٹ کر بنائی گئی پُرتعیش آبادیاں مسمار کردی جائیں گی؟ سمندر کا حق اسے واپس مل جائے گا؟ کیا صحرا کا دل چیر کر اس میں بنائی گئی مصنوعی نہریں، جھیلیں خشک کردی جائیں گی؟ یہ سوچ کرکہ یہ فطرت کا حصہ نہیں تھے۔ جنگلوں، درختوں کے ذخیروں کو پھلنے پھولنے دیا جائے گا۔ گھونسلوں میں رہنے والی فاختاؤں، کوئلوں، چڑیوں کے حق شہریت کا احترام ہوگا؟ درختوں کے بیچ رہنے والے جانوروں کو ہمسایہ قراردے کر ان کی جاگیر پر قبضہ گیری رک جائے گی؟ مسلم فوبیا نئی دنیا میں وہی ہوگا یا مٹ جائے گا؟ ہندوستان میں مسلمانوں کوگھیر کرسرکاری سرپرستی میں مارنے کا سلسلہ تھم جائے گا؟ انہیں برابر کا شہری تسلیم کرلیا جائے گا؟ ہندو مسلم، سکھ، عیسائی واقعی بھائی بھائی بن جائیں گے؟
زمین پھر اپنے معمول پر آئے گی تو ان میں سے کیا تبدیلی آئے گی؟ آپ کو کیا لگتا ہے؟ تبدیلی آئے گی بھی کہ نہیں۔ سب یہ کہہ رہے ہیں کہ وائرس کے بعدکی دنیا تبدیل شدہ ہوگی‘ تو میرا دل کیوں نہیں مانتا کہ دنیا کچھ خاص تبدیل ہوگی۔ لیکن ایک منٹ کیلئے میری بات چھوڑیں۔ تمام دانشور یہ فرمائیں کہ دنیا ویسے تبدیل تو نہیں ہوگی جیسی سوویت یونین ٹوٹنے کے بعدہوئی تھی۔ نیو ورلڈ آرڈر طے ہوا تھا۔ ہلاکت خیزی، ظلم کا ایک دورختم ہوا تھا اور دوسرا شروع ہوا تھا۔ یہ دوڑتی بھاگتی دنیا نائن الیون کے بعد بھی اچانک تبدیل ہوئی تھی۔ ہم نے دیکھا تھاکہ اس سے پہلے کی دنیا اور تھی۔ اس کے بعد کی اور۔ لیکن صرف وحشت، بربریت اور ظلم کا نقاب بدلنے کیلئے۔ ایک نئے دور کے آغاز کیلئے جس کی ہلاکت خیزی افغانستان، عراق، شام، یمن، الجزائر، مصر کے زخمی اور معذور مرد، عورتیں بچے آنسوؤں کی زبان سے ہی بتا سکتے ہیں۔ انصاف کے نام پر جس بے انصافی، ہمدردی کے نام پر جس بے رحمی کا کھیل کھیلا گیا وہ آج تک جاری ہے۔ صرف چہرے بدلے تھے، باقی سب کچھ وہی تھا۔
کیا ایسی کوئی تبدیلی ہوگی؟ اس بار تو کوئی جنگ، کوئی سرحدی جھگڑا بھی نہیں ہوا۔ کوئی عالمی تنازعہ بھی پیش نہیں آیا۔ خدا خیر کرے، یہ نئی جنگ، نئے جھگڑے، نئے تنازعے کا پیش خیمہ تو نہیں؟
یہ غیرمعمولی صورتحال جس نے ہر دل میں خوف بٹھا رکھا ہے، ہر طرف راستے تلاش کر رہی ہے۔ ٹرمپ ماسک نہ ملنے کی صورت میں سکارف کا مشورہ دے رہے ہیں۔ حکمران مذہبی رہنماؤں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ وہ وزیر، اینکر اور کالم نگار بھی کھلی اور ڈھکی چھپی مذہبی رہنمائی مانگ رہے ہیں جن کی ساری عمر مذہب کو ہر مسئلے کی جڑ بتانے میں گزری ہے۔ جن کی ایک چوتھائی زندگی خود غرضیوں اور باقی تین چوتھائی علما پر طعن و تشنیع میں گزرتی رہی ہے۔ جو جتنا زیادہ دین بیزار تھا اتنا ہی رد بلا کے وظیفے کر رہا ہے۔پرانے نسخے تلاش کر رہے ہیں۔ راشن تقسیم کررہے ہیں۔ حکومتیں غریبوں کی امداد کیلئے بڑے بڑے پیکیج کا اعلان کر رہی ہیں۔ سر کے بل گرتے سٹاک ایکس چینجزکو سہارا دے رہی ہیں۔ کاروباری طبقے کو سہولتیں دے رہی ہیں؟ یہ سب باطن کی تبدیلی ہے، فطرت کی طرف لوٹنے کی کوشش ہے یا وقتی ڈرامے بازی؟ کیا اچھا لفظ ہے اس کیلئے دفع الوقتی۔ دفع الوقتی لفظ ہی نہیں بات بھی درست ہے حضور۔ آپ کہتے ہیں کہ دنیا ہوش میں آرہی ہے لیکن جناب! معاف کیجیے گا۔ تبدیلی کا چلن تسلیم مگر میں پُرامید نہیں اس تبدیلی کے بارے میں۔ تمام تر رجائیت کے باوجود۔ ذرا سا یہ بھیانک دور گزر جائے پھر اسی دنیا کو دیکھیے گا۔ میں تو اس انسان کو جانتا ہوں جس نے تمام مذاہب کی امن و آشتی اور انسان دوستی کی تلقین کو پیروں تلے روندا تھا۔ جس نے سکندر، چنگیز، ہلاکو، تیمور جیسی وباؤں کے بنائے سروں کے مینار دیکھ کر جشنِ فتح منائے تھے۔ کیا آپ اپنے اپنے مزعومہ فلسفوں پر ایمان رکھنے والے ان ملکوں کو نہیں جانتے، جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں چھ کروڑ انسان قتل اور دو کروڑ زخمی کیے تھے‘ اور اس کی ہولناکیوں کے بعد توبہ کرنے اور آئندہ جنگ سے پناہ مانگنے کے محض بیس سال بعد دوسری جنگ عظیم برپا کی تھی اور ایک بار پھرلگ بھگ دس کروڑ انسان موت کے گھاٹ اتارے تھے یا زخمی کیے تھے۔ یہی سب ملک تھے نا دونوں میں۔ اٹلی، انگلینڈ، فرانس، جرمنی، امریکہ وغیرہ۔ جو آج وائرس سے امان چاہتے ہیں‘ انہوں نے خود کسی کو امان دی تھی؟
یہی شخص جو اب جہانِ مکافات میں قاتلوں سے امان چاہتا ہے‘ کبھی پھینکتا تھا کمند آہوؤں پر، کبھی طائروں پر کماں کھینچتا تھا۔ میں تو اس انسان کو جانتا ہوں جو اگر خود جنگ نہ کرے تو دوسروں کو جنگ کرنے پر اکساتا ہے اور اس کیلئے مالی اخلاقی قانونی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ کیا توقع کروں اس سے؟
اور میں کیا جانتا ہوں بھلا۔ میراعلم، میرا قیاس، میرا اندازہ ہی کیا۔ انسان کو اندر باہر سے جاننے والا تو وہی ہے جس نے اسے شر اور خیر کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ اس کی فطرت کو جانتا ہے۔ فرعون نے تو صر ف ایک نسل کو غلام بنایا تھا۔ ہم نے تو کتنی ہی نسلوں کو محکوم بنا رکھا ہے۔ یاد کریں فرعون کی قوم کے بارے میں کیا کہا تھا اس سب سے بڑے جاننے والے نے۔
اور جب ان پر عذاب آپڑتا تو وہ کہتے: اے موسیٰ! تمہارے پاس اللہ کا جو عہد ہے، اس کا واسطہ دے کرہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر دو (کہ یہ عذاب ہم سے دور ہوجائے) اور اگر واقعی تم نے ہم پر سے یہ عذاب ہٹا دیا تو ہم تمہاری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو ضرور تمہارے ساتھ بھیج دیں گے۔ پھر جب ہم ان پر سے عذاب کو اتنی مدت تک ہٹا لیتے، جس تک انہیں پہنچنا ہی تھا، تو وہ ایک دم اپنے وعدے سے پھر جاتے (الاعراف۱۳۴۔۱۳۵)
اور جب انسا ن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے بیٹھے اور کھڑے ہوئے (ہر حالت میں) ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو اس طرح چل کھڑا ہوتا ہے جیسے کبھی اپنے آپ کو پہنچنے والی کسی تکلیف میں ہمیں پکارا ہی نہیں تھا۔ جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں انہیں اپنے کرتوت اسی طرح خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ (یونس ۱۲)
کیا یہ آیات آپ کے لیے نہیں؟ میرے لیے نہیں؟