نظریہ ایک معاشرے کو تصور، سمت اور ایک واضح منزل کا روڈ میپ فراہم کرتا ہے تاہم آج کی عملیت پسند دنیا میں روایتی نظریات کے پیمانے سمٹ رہے ہیں ۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں سیاسی جماعتیں، ریاستیں اور سماجی گروہ روایتی اور متبادل نظریات کی حمایت کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں، تاہم پاکستان میں کے حالیہ انتخابات میں جیتنے یا ہارنے والی جماعتیں اپنے لیبل یا پرانی شناختوں کے علاوہ کوئی بھی نظریاتی منشور لے کر سامنے نہیں آئیں۔ مذہبی جماعتیں کئی عشروںسے اسلامی نظریے کا پرچار کر رہی ہیں لیکن وہ عوام کو متاثر کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ مذہب سے دور ہو چکے ہیں بلکہ یہ کہ وہ جان چکے ہیں کہ سیاسی معروضات معاشی ، نہ کہ مذہبی ، تصورات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظریہ اہمیت رکھتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایک سیاسی جماعت کا نظریہ کس پیرائے میں بیان ہونا چاہیے؟کیمونزم کے بعد کی دنیا میں ہر قوم ، چاہے وہ کہیں بھی آباد ہو، ایک ہی نظریے پر یقین رکھتی ہے اور چاہے آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں، یہ آزاد معیشت ، نج کاری اور مختصر حکومت کا نظریہ ہے۔ مختصر حکومت کا مطلب یہ ہے کہ جدید حکومتیں چند بنیادی معاملات کے علاوہ تمام امور نجی ملکیت میں دے دیں۔ آئینی طور پر اس نظریے کی بنیاد جمہوریت ، شخصی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق پر استوار ہے۔ ان میںسے جمہوریت عالمی لبرل ایجنڈے کے حوالے سے تو اہم ہے لیکن یہ کاروبار، سیکورٹی اور دفاعی معاملات کے لیے ضرور ی نہیںہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں لبرل نظریات طاقتور ہیں اورہر ریاست اور جماعت مارکیٹ اکانومی کے بنیادی نظریے کی پیروی کرتی ہے۔ چنانچہ یہ حیرانی کی کوئی بات نہیںکہ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوںکے منشور کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ فری مارکیٹ اکانومی کے نظریے کو قبول کر چکی ہیں۔ دراصل نظریہ ایک مجرد حقیقت ہے، چنانچہ اس کو عالم ِ امکانات میں پرکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس کے معاشی رجحانات کیا ہیں۔۔۔معیشت کو کون کنٹرول کرتا ہے اور اس کے فوائد معاشرے تک کیسے منتقل ہوتے ہیں؟کسی بھی معاشرے کے سماجی رجحانات، معاشی فوائد، کام کی قدر ، معاشرتی نظریات اور آخرمیں حکومت سازی کا عمل وہاں مروّج معاشی نظام سے متاثر ہوتا ہے۔ اس معیار پر پرکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے نظریات ایک جیسے ہی ہیں، چاہے اُن کے پرانے نعرے یا القاب کچھ بھی ہوں۔ نظریاتی ڈھانچے میں ہمیں لبرل اور روایتی رجحانات کی شناخت مل جاتی ہے۔ تاہم یہ شناخت برائے نام ہے کیونکہ ہمارے ملک کی چاہے لبرل جماعتیں ہوں یا روایتی نظریات رکھنے والی، ہر دو آزاد معاشی قدروں پر یقین رکھتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں بڑی سیاسی جماعتوں کے سماجی معاملات اور معاشی ترقی اور دولت کی تقسیم کے اصولوں پر کچھ اختلافات دیکھنے کو ملیں ، جیسا کہ اے این پی اور پی پی پی سیاسی اعتبار سے لبرل نظریات کی حامل جماعتیں ہیں ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے کچھ رہنمائوں کے نظریات لبرل ازم کی گواہی نہ دیتے ہوں، لیکن روایتی نظریات رکھنے والی جماعتیں بھی انہی معاشی قدروں پر یقین رکھتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں فی الحال کوئی مثالی لبرل جماعت نہیںہے۔ ایک کالج کے سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر گریس کلارک کا کہنا ہے۔۔۔ ’’پاکستانی لبرل افراد نے لبرل نظریات کی توہین کی ہے۔‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کی خدمت، راست بازی، کردار کی سچائی ، ایمانداری اور سماجی فلاح کے تصور کے بغیر لبرل ازم محض دکھاوا اور فراڈ ہے۔ وہ دراصل لبرل ازم کے نام پر معاشرے کو لوٹ رہے ہیں، تاہم وہ اس حمام میں تنہا نہیں ہیں۔ دنیاکے اکثر معاشروں میں لبرل ازم کے نام پر فاشزم کا دور دورہ ہے۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ اب معاملات کچھ بہتر ی کی طر ف گامز ن ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں جو دو پارٹیاں عوام کا مینڈیٹ لے کر سامنے آئی ہیں وہ پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں پی پی پی اور اے این پی کے برعکس قدامت پسند روایتی نظریات کی حامل ہیں۔ اگر ان دونوں جماعتوں کا موازنہ کیا جائے تو پی ٹی آئی نسبتاً زیادہ لبرل دکھائی دیتی ہے، تاہم اب جب کہ یہ ددنوں جماعتیں حکومت سنبھال رہی ہیں ( پی ٹی آئی خیبر پختونخواہ میں اور پی ایم ایل (ن) مرکز اور پنجاب میں )تو دیکھا جانا ہے کہ اب ان کے معاشی نظریات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ کیا ان کی معاشی پالیسیاں غریب عوام کو کچھ فائدہ پہنچاتی ہیں یا نہیں؟ حالیہ انتخابات میں ایک اور تبدیلی جو بہت واضح تھی وہ پاکستانی ووٹر کا رجحان تھا۔ اس مرتبہ اُس نے بغیر کسی نظریاتی نعروں کے ووٹ دیا ہے اور اس کے پیش ِ نظر معیشت اور فری مارکیٹ اکانومی کی اصلاح کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ قوم پرستی، نظریاتی جنگ، اسلامی ریاست، لسانی تفریق اور ذات پات کا نظام انتخابی سیاست کے گراف میں بہت نیچے چلے گئے ہیں۔ اس مرتبہ عوام نے ایک مثبت عملیت پسندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اُن جماعتوںکو ووٹ دیا ہے جو معاشی میدان میں کچھ کارکردگی دکھاسکتی ہیں اور وہ اُن کے مسائل کے حل کے لیے کچھ کر نے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ہو سکتاہے کہ آہستہ آہستہ ہماری سیاست شخصیت پرستی کے پنجوں سے اسی طرح جان چھڑا لے جس طرح اس مرتبہ شخصیات کے دیے ہوئے نعروں سے کنارہ کشی کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم سیاسی اور جمہوری میدان میں بہتری کی طرف گامزن ہیں اور یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اسی طرح یہ برسرِ اقتدار جماعتوں کے لیے ایک امتحان بھی ہے کیونکہ اب وہ جان چکے ہیں کہ ہماری انتخابی سیاست نظریاتی نعروں کو پیچھے چھوڑ کر مارکیٹ اکانومی کی بہتری کی طرف گامز ن ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved