میرا جواب تھا، ایک نہیں کئی اعتبار سے!
پاکستان صحیح معنوں میں توقعات اور مواقع کی سرزمین ہے‘ اور تازہ بحث ختم ہو گئی۔
پچھلے سال نومبر، دسمبر کے سرد موسم میں ایسی ہی گرما گرم بحث زوروں پہ تھی۔ مرکزی نکتہ یہ کہ سماج اور ریاست‘ دونوں ڈوب رہے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ دسمبر تمام ہو گیا اور امیدوں کے جواری اس سال مارچ میں دو عدد مارچ بیچنے لگے۔ ایسے میں ایک نامور ہستی‘ جن کا دل سے احترام ہے، دور دراز کے شہر سے سفر کرکے تشریف لے آئے۔ ارشاد فرمانے لگے: یہ بھی نہیں ہو گا، وہ بھی نہیں رہے گا۔ قیامت کا منظر دکھانے کے بعد مجھ سے بولے: آپ یہ بتائیں پھر آپ اپنی اہلیت اور انرجی کے ساتھ کیا کریں گے۔ میں نے سوال یوں اُلٹ دیا: یہ آپ اپنی جانب سے کہہ رہے ہیں یا کسی اور کی طرف سے پوچھ رہے ہیں؟ حضرت نے حیرانی سے بھرپور حسرت ناک گہرا سانس لیا اور بولے: جو سمجھ لیں۔ میں نے یہ کہہ کے ملاقات سمیٹ دی: پھر وہی کروں گا جو سمجھ میں آئے گا۔ اپنے لیے خود ترحمی کی آرزو۔ بہ وقتِ ضرورت خدا ترسی کی التجائیں۔ مگر ریاست کیلئے بے رحمی کا فیشن چل نکلا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر، پاکستانیوں کیلئے کرّہ ارض پر پاکستان کے علاوہ کوئی ریاست Land of Opportunities ہو ہی نہیں سکتی۔ جسے شک ہو وہ ان میتوں کے وارثوں سے پوچھ لے جنہوں نے بیرونِ ملک کورونا سے متاثر ہو کر دمِ آخریں وصیت کر دی کہ انہیں پاکستان میں دفنایا جائے۔
اس وقت Paid Contents والے ہوں یا سوشل میڈیا کی مخصوص سائٹس، ہر دو جاء شدید بحران برپا ہے۔ میک اَپ زدہ ایکٹرز کرائے کی گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ بیچارے، شکم کے مارے، عام آدمی کو 3 سبق پڑھانے کے جتن کر رہے ہیں۔ ریاست تباہی کی آخری Cliff تک پہنچ گئی۔ حکمران سو رہے ہیں، گلی گلی لوگ مر رہے ہیں۔ تھیلا بھر کر ڈالر لے جائو، تب 2 آلو خریدے جا سکتے ہیں۔ سڑکوں، صحنوں، بازاروں میں کورونا کے مریض تڑپ رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ویلیں وصول کرکے اَن دیکھی وحشتوں پر بَین کرنے والے، اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے پاکستان پر ترس کھانے سے بھی انکاری ہیں۔
میں کئی دن بعد گائوں جانے کے لیے گھر سے نکلا۔ گئے دنوں میں اسلام آباد سے ہوتھلہ 25 منٹ لگتے تھے۔ بے ہنگم رش آنے کے بعد یہ 50 سے 55 منٹ ہو گئے۔ اسلام آباد سے کہوٹہ روڈ تک برائے نام ٹریفک تھی۔ کھانے پینے کی کھلی دکانوں پر ہر شے موجود‘ مگر رش دیکھا نہ دھکّے۔ اللہ ربّ العزت کا لاکھ شکر ہمارے محلّے، کالونیاں، شہر اور گائوں کا حال امریکہ، برطانیہ، یورپ جیسا نہیں‘ جہاں ٹائلٹ پیپر اور ڈبل روٹیوں کے لیے میلوں لمبی لائنیں لگی ہیں۔ ایسے میں جو فنکار سستی شہرت، بے وُقعت سیاست یا گروہی مفادات کے لیے مالکِ کائنات کی سب سے بڑی عطاء پاکستان کو کچھ نہیں سمجھ رہے۔ اُنہیں اللہ سمجھے۔
بے رحمی کی ایک آواز واہگہ بارڈر سے پرے نئی دہلی کے سبرامنین سوامی کے گھر سے بلند ہوئی۔ بی جے پی کے لیڈر سے لیڈی رپورٹر نے انٹرویو لیا، تھوڑا سا آپ سے شیئر کرتا ہوں۔
''رپورٹر: اقوامِ متحدہ نے اس بل کو بنیادی طور پر امتیازی سلوک پر مشتمل قانون قرار دیا۔ یقینا اسلام کے علاوہ ہر مذہب کو شامل کرکے اس ایکٹ نے بھارت کی لا دینی اور جمہوری بنیاد کو پیچھے چھوڑ دیا۔
سبرامنین سوامی: نہیں نہیں۔ اس کے لیے آپ ایکٹ کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ یہ وہ معاہدہ ہے، جو ہم کئی سالوں سے کئی حکومتوں سے کرتے آ رہے ہیں اور آج ہم نے یہ کام مکمل کر دیا۔ ہمیں معلوم ہے جہاں مسلمان آبادی زیادہ ہوتی ہے، وہاں ہمیشہ مصیبت ہوتی ہے کیونکہ ایسا ان کا اسلامی نظریہ کہتا ہے۔
رپورٹر: اس وقت بھارت میں 20 کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ یہ دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں وہاں مصیبت ہوتی ہے؟
سبرامنین سوامی: اگر آبادی میں 30 فیصد سے زیادہ مسلمان ہوں تو وہ ملک خطرے میں آ جاتا ہے۔
رپورٹر: یہ سننے میں نفرت کی زبان لگتی ہے...
سبرامنین سوامی: اس کو نفرت کہنا آسان ہے لیکن میں انہیں ہندوستان نہ آنے دے کر ان پر مہربانی کر رہا ہوں۔
رپورٹر: بھارت کے آئین کا آرٹیکل 14، بھارت کے ہر رہائشی کے لیے برابری کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
سبرامنین سوامی: میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ یہ آرٹیکل 14 کی غلط ترجمانی ہے۔ آرٹیکل 14 برابر لوگوں کے لیے برابری کی ضمانت کرتا ہے۔
رپورٹر: کیا سب لوگ برابر نہیں ہیں؟
سبرامنین سوامی: نہیں! سب لوگ برابر نہیں۔
رپورٹر: یعنی مسلمانوں کے پاس برابری سے شہریت لینے کا حق نہیں؟
سبرامنین سوامی: ان کے لیے برابری نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہ برابری کے زمرے میں نہیں آتے‘‘۔
20ویں صدی کے 20ویں سال میں سبرامنین سوامی جیسی بے شرمانہ بے رحمی کی دوسری مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل عالمی اداروں کے ضمیر کو جھنجوڑنا ہے جن کی سپانسرڈ موم بتیاں، سپانسرڈ ایجنڈے کے علاوہ کبھی روشن نہیں ہوتیں۔ اس حقیقت پہ بھی نا شکری کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے کہ آج کے دن تک پاکستان میں موذی مرض کی صورتِ حال خطے کے باقی ملکوں سے بہت بہتر ہے۔ مغربی دنیا کی ہلاکت خیزیاں توبہ کروانے کے لیے کافی ہیں۔ امریکہ اور خاص طور سے نیو یارک میں لوگ اس ہلاکت آفرین وبا کو قُربِ قیامت کی علامت کہہ رہے ہیں۔ کورونا کے موذی مرض کے بطن سے نیو ورلڈ آرڈر کی بحث بھی پھر سے برآمد ہوئی ہے۔ کئی مغربی سکالرز اور سپیکرز نے پوسٹ کورونا دور میں چین کے دنیا کی سُپریم سُپر پاور بن جانے کے خدشے کا اظہار کیا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چین نے ووہان کورونا تباہی کے راستے میں بند باندھ کر مغربی دنیا کو حیران کر دکھایا۔
2017 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں، بہت سی دوسری بیماریوں میں کورونا سے بے پناہ زیادہ اموات ہوئیں‘ مگر اُسے روٹین گردانا گیا۔ سوال یہ اُٹھ رہا ہے، وبا کے خاتمے پر نیا عالمی نظام کیسے اُبھر کر سامنے آئے گا۔ لیکن پہلے دل دہلا دینے والے کچھ اعداد و شمار دیکھ لیتے ہیں۔ سال 2017 میں دل کی بیماریوں سے 1 کروڑ 77 لاکھ 9 ہزار لوگ لقمہِ اجل ہوئے۔ سرطان نے اس عرصے میں 95 لاکھ 6 ہزار انسان موت کے منہ میں دھکیل دیئے۔ 7 لاکھ 93 ہزار 823 لوگوں نے خود کشی کر لی جبکہ 4 لاکھ 5 ہزار 346 لوگ قتل ہو گئے۔ صرف ملیریا کی وباء نے 6 لاکھ 19 ہزار 827 زندگیوں کے چراغ گُل کیے۔ روڈ سائڈ ایکسیڈنٹ (RSA) 12 لاکھ 4 ہزار اموات کا باعث بنے۔ 17 لاکھ 8 ہزار نومولود بچے ابتدائی عمر کے عارضوں کا شکار ہو گئے۔ آج ہر طرف، ہر برّ اعظم، ہر مذہب کے ماننے والے رحم کی دعا مانگ رہے ہیں۔ قدرت سے رحم مانگنے والے اپنے رویّوں میں رحم دلی شامل کر لیں تو دنیا جنت نظیر ہو جائے۔ بے درد بھارتی حکمرانوں کے کانوں تک مندر کی گھنٹیاں پہنچتی ہیں نہ کشمیریوں کی آہیں۔ رحم کا ایک طریقہ یہ ہے کسی کی امداد اشتہار نہ بنے۔ عزت، آبرو، خُودی اور اَنا، ہر جینز میں شامل ہے جبکہ امدادی سیلفیاں کلچر کی سیریل کلر۔
راشن تھما دیا تھا، سیلفی کے ساتھ ساتھ
مرنے لگا تھا بھوک سے غیرت سے مر گیا
پسِ نوشت: عزیز دوست وسیم نقوی آف بورے والا لندن میں انتقال کر گئے۔ کچھ ماہ پہلے مسعود چشتی کی والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد وسیم نقوی کے ڈیرے پر نشست رہی۔ وسیم کو چھاتی کا انفکشن ہوا، لندن کے ہسپتال میں داخل ہو ئے، کورونا پازیٹو کہا گیا۔ چند گھنٹوں میں ہارٹ اٹیک نے آ لیا۔ سب سے دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔