فراغت اور خلوت نصیب ہوں تو دل ابدی‘ لا زوال‘ رنگ ڈھنگ بدلتے‘ اترتے چڑھتے‘ اپنے فطری جوش میں رواں دواں دنیا کے طویل تر دریائے سندھ کے کنارے کچھ دن بسر کرنے کو جی مائل رہتا ہے۔ صرف دریائوں کے کنارے رہنے والے ہی ان کے دائمی حسن‘ رعنائیوں اور موسموں کے ساتھ ان کے بدلتے ہوئے رنگوں کے لطف سے آشنا ہیں۔ خاکسار اس لطف سے آشنا ہے۔ بالکل کنارے پہ تو نہیں‘ لیکن دریا کے اتنا قریب ضرور رہا کہ ایک ساعت یا اس سے بھی کم وقت میں قدرت کے اس حسین ترین شاہکار کی زیارت کی جا سکے۔ سمندروں‘ جھیلوں اور دریائوں کے بہتے پانیوں‘ ان کے ارد گرد جلوہ افروز نباتات‘ ان سے رزق کے حصول کی کوشش میں اڑتے لپکتے‘ غوطے لگاتے پرندوں اور پانی کی دبیز تہوں میں رہتی مخلوق انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ ہم تو شاید اب فطری زندگی کے لطف سے کم ہی آشنا رہ گئے ہیں‘ خصوصاً ہماری نوجوان نسل جس کی نظریں پردیس سے ابھرتی تصویروں پہ جمی رہتی ہیں۔ اپنے ملک میں کیا کچھ ہے ادھر آنکھ نہیں ٹھہرتی۔ اکثر ممالک میں اہلِ ذوق اور عام لوگ رخصت اور وقت پاتے ہی ساحلوں کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ دن کا کچھ حصہ وہاں بسر ہو جائے تو ہفتوں اور مہینوں کی تھکان جسم و جان سے رخصت ہو جاتی ہے۔ ایک ایسی فرحت روح میں سما جاتی ہے جو ہفتوں تروتازہ رکھتی ہے۔
اپنی تاریخی روایات کو دیکھا جائے تو ہمارے سب شہر دریائوں کے کنارے آباد ہیں۔ کم از کم اس خطے میں کہ جہاں ان سے کچھ دور نکل جائیں تو صحرا ہی صحرا ملتے ہیں۔ دورِ جدید ہی میں نہیں ہر زمانے میں انسانی‘ نباتاتی اور حیوانی زندگی کی پرورش‘ تمدن‘ تہذیب اور سماج کی ترتیب و ترویج میں دریائوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ دریائے سندھ تو شمال کی فلک گیر چوٹیوں‘ گھاٹیوں سے رستا‘ بہتا‘ ہر صوبے کو سیراب کرتا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے‘ لیکن شمالی پہاڑی علاقوں سے بحیرہ عرب تک کے درمیانی خطے کے سماجوں کے لیے یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر نسل‘ ہر زبان‘ ہر قومیت‘ جو اس وقت وطن عزیز کا حصہ ہے‘ اس کے سہارے زندگی گزارتی ہے۔ دیگر تین دریا اگرچہ اپنے راستوں‘ رخ اور دھاروں میں بہتے ہیں‘ لیکن اب ایک ہی لڑی میں پروئے جا چکے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے اور اس کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ذخائر اور نہری نظام کے طفیل سندھ کا پانی جہلم میں‘ جہلم کا چناب میں‘ چناب کا راوی اور ستلج میں نکلی نہروں میں ڈالا جاتا ہے۔ جہاں سے دیکھو‘ پاکستان کے سب دریا دل اور روح پہ دائمی خوش گوار اثر چھوڑتے ہیں۔ کبھی نہ فراموش ہونے والے اور کبھی نہ مٹنے والے مستقل نقوش۔ چیتر یعنی بہار کا موسم تو جادو کر گزرتا ہے۔
دورِ جدید کے خواندہ لوگوں کو ہمارے روایتی بکرمی مہینوں کے نام تو کجا شاید یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ انگریزی اور اسلامی مہینوں سے پہلے وادیٔ سندھ کی سرزمین میں رہنے والے بھی سورج کے گردشی نظام کے مطابق موسموں‘ ماہ و سال اور دنوں کا حساب سائنسی انداز میں رکھتے تھے۔ رومیوں‘ ایرانیوں اور عربوں نے بھی اپنے مہینوں کا انتخاب زمین اور موسموں کو مدِ نظر رکھ کر کیا۔ ہر ایک کی روایات‘ تاریخ اور سلیقہ مختلف ہے۔ یہ خاکسار اور میرے ہم عمر‘ دیہاتی اور روایتی موسموں کا اندازہ بکرمی مہینوں سے لگاتے ہیں۔ چیتر(چیت) اور ساون کی برساتوں سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ ہمارا دل تو پھاگن لگتے ہی مچل اٹھتا ہے کہ جاڑے کا زور ٹوٹتا ہے تو درختوں‘ ہر نوع کی جھاڑیوں پہ نئی کونپلیں اور گلاب کے پودوں پہ ڈوڈیاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ شروع میں تو باریک آنکھ سی بنتی ہے اور جونہی دن لمبے اور تپش بڑھتی ہے تو ان کا ابھار اور رنگ دور سے بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ چیتر بس آنے کو ہے۔ بہار کی نوید اور خوشخبری تاریک‘ سیاہ اور لمبی راتوں کے بوجھ سے جان آزاد کرنا شروع کر دیتی ہے۔دل و دماغ ایک عجیب نوعیت کے سرور سے بھر جاتے ہیں۔
خاکسار کی زندگی میں چیت کے کم ہی مہینے ایسے ہوں گے کہ چند دن دریائے سندھ کے پانیوں کے نزدیک نہ گزارے ہوں۔ عجب اتفاق ہے کہ میری جامعہ بہار کا وقفہ باقاعدگی سے چیتر شروع ہوتے ہی کرتی ہے۔ اس دفعہ تو چند دن پہلے نکلنے میں کامیاب ہو گیا‘ مگر دریائے سندھ کی زیارت سے چیتر کے پہلے یا دوسرے دن فیض یاب ہوا۔ کاش وقت رک جاتا یا ہم شہری زندگی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کی قید سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتے۔ معلوم نہیں‘ یہ رہائی کب نصیب ہو گی؟ سوچتا ہوں‘ خود غرضی ہو گی کہ درس و تدریس کو خیر باد کہہ کر بیکار کہیں بیٹھ رہوں۔ بہت فرصت ہے‘ ملتی رہتی ہے‘ بارہ مہینوں میں کم از کم چار ماہ اور پھر جب پڑھا لیا تو کمرے میں قید رہنے کی کوئی پابندی نہیں۔ جہاں اور جدھر رخ کرنے کو جی چاہے چلا جاتا ہوں۔ اب عمر کے اس حصے میں اپنی کوئی کامیابی مقصود نہیں‘ بہت کچھ اور اپنی خواہش سے بہت بڑھ کر سب کچھ ملا۔ محتاجی تو مسابقت اور دولت کے انبار لگانے کی تگ و دو میں عمر ضائع کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جو جینے اور سنورنے کا راز پا لیتے ہیں‘ وہ ایسی خواہش پالتے ہی نہیں۔ فرصت‘ وقت اور کام میں وقفے کو غنیمت جانتے ہیں۔ زندگی سے بھرپور لطف کا تقاضا ہے کہ اس میں تنوع رہے۔ ایک جگہ بند ہو انسان کی صلاحیتیں بھی زنگ آلود ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
تروتازگی کے لیے چیتر اور پھر دریائے سندھ ایک ایسا انعام‘ غنیمت اور بیش بہا تحفہ ہے کہ اس خطے میں اس کے متبادل کم ہی ہوں گے۔ شمال میں کریم آباد ہو‘ میانوالی میں کالا باغ یا راجن پور کے کچے کا علاقہ فطرت کے ایسے نظارے کہ ہمیشہ آنکھوں میں گھومتے رہیں اور قلب میں دائمی اثر چھوڑ رکھیں۔ کچا دریا کے پھیلائو سے بنا ڈیلٹا سمجھ لیں‘ جہاں مٹی سونا اگلتی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ میں برسات کے مہینوں میں سیلابوں کی روک تھام کے لیے اونچے بند تعمیر ہوئے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ نہری زمینیں اور فصلیں فالتو پانی سے برباد ہونے سے محفوظ رہتی ہیں۔ ظاہر اس سے کچھ تحفظ ان بندوں کے ارد گرد کی بسی آبادیوں کو بھی نصیب ہو جاتا ہے۔ دریا اور بند کے درمیان کے علاقوں میں ہر سال زرخیز مٹی تہہ در تہہ جمع ہو کر زرخیری بڑھاتی رہتی ہے‘ زمینوں کو توانا رکھتی ہے۔ کسی بند پہ کھڑے ہو کر نظر دوڑائی تو میلوں دور تک گندم کے سبز اور کچھ پکے ہوئے بھورے کھیت ہی کھیت نظر آئے۔ یہاں کھڑے ہو کر کیلے فورنیا کے طویل اور وسیع کھیتوں کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ ہاتھ سے کاٹنے کا رواج ختم ہو چکا کہ تمام مقامی آبادی کو کام پہ لگا دیں‘ باہر سے ہزاروں کی تعداد میں مزدور اجرت پہ منگوائیں‘ پھر بھی کام ختم نہ ہو گا۔ اب مشینیں ہی مشینیں ہر طرف حرکت کرنے کو تیار کھڑی ہیں۔ ایکڑوں پر پھیلی فصلیں دو چار دنوں میں ہی سمیٹ لی جاتی ہیں۔
کھیتوں کے درمیان بنے راستوں یا قدرے بڑی پگڈنڈیوں سے خاکسار پیدل یا موٹر سائیکل کی ڈبل سواری کی صورت سست رفتار سے گزرنے کا ہمیشہ اہتمام کرتا ہے۔ اس رنگ و خوشبو کی بہار سے گزرنا ایسی کیفیت پیدا کرتا ہے کہ جنت کا گمان غالب ہو۔ خواہش رہتی ہے کہ وہاں رکا ہی رہوں‘ لیکن دریا کے کنارے پہنچنے کی تڑپ چین نہیں لینے دیتی۔ اس کے کنارے کنارے چلتا ہی رہتا ہوں‘ دور تک‘ کبھی کبھی میلوں دور تک۔ دور سے اور کبھی نزدیک سے اندھی ڈولفن سانس لینے کے لیے پانی سے باہر فضا میں اچھل کر گرتی ہے تو ماحول کی خاموشی میں لہر بہ لہر ارتعاش کیا کچھ نہیں کر گزرتا۔ کیا خوش نصیبی مالک نے اس خاکسار کے حصے میں رکھ دی ہے۔