اِس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت قوم ہماری قریب کی نظر کمزور ہے۔ اور کمزور بھی ایسی کہ آنکھوں کے سامنے کی چیز بھی دِکھائی نہیں دیتی۔ کوئی بھی مثال دینی ہو تو مغرب پر نظر دوڑائی جاتی ہے اور کئی سمندر پار کرکے مثالیں لائی جاتی ہیں۔ گھر کی مُرغی دال برابر ہوتی ہے۔ ہماری پولیس کی بدنصیبی یہ ہے کہ ہم اب تک اُس میں صرف خامیاں تلاش کر رہے ہیں، کیڑے نکال رہے ہیں۔ دیکھنے والی نظر ہو تو دیکھ پائیں نا! ہمیں تنقید کے سِوا آتا کیا ہے؟ پرائم ٹائم کے ٹاک شو دیکھ دیکھ کر مُنہ کو تنقید کا ایسا خُون لگا ہے کہ ع چُھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی! اللہ نے یہ سوچنے کی کبھی توفیق ہی نہیں دی کہ ہماری پولیس فورس نے دُنیا کو کیسے کیسے تصورات دیئے ہیں۔ اِن میں سے کئی تصورات تو وژن کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب پولیس تحقیقات پر مائل ہوتی ہے تو کہیں سے کہیں جا نِکلتی ہے اور جہاں سے کچھ یافت یا امکان ہو وہاں تک تو ضرور جا پہنچتی ہے۔ اِس کی تحقیقات کے ہر طریقے پر پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے! انہماک کا یہ عالم ہے کہ جس سے تفتیش کی جارہی ہو بعد میں اُسے تلاش کرنے کے لیے ٹیم تشکیل دینی پڑتی ہے کیونکہ ہماری پولیس اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جُرم کا نام و نشان مٹانے کے لیے مُجرم کا نام و نشان مٹانا لازم ہے! پوری دیگ میں کیسی بریانی ہے اِس کا اندازہ لگانے کے لیے چاول کے چند دانے چکھ لینا کافی ہوتا ہے۔ مُشتِ از خروارے یعنی چند نمونے پیش خدمت ہیں تاکہ آپ کو بھی پولیس کے معاملے میں کم نگاہی کا اندازہ ہو اور کچھ (اپنی) اصلاح پر مائل ہوں! جام شورو (حیدر آباد) پولیس نے تقریباً ایک ماہ قبل چار افراد کو گیارہ بھینسیں چُراتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے مسروقہ بھینسیں برآمد کیں۔ بھینسوں کے مالک نیاز چانڈیو نے سُکون کا سانس لیا مگر یہ سانس جلد ہی اُکھڑ گیا۔ پولیس نے گیارہ بھینیسں تھانے میں باندھ دیں۔ کچھ دن بعد پولیس اہلکاروں نے بھینسوں کے گرد اور مالک نے عدالت کے چکر کاٹنا شروع کردیا۔ دُودھ سے مکھن نکالا جاتا ہے اور مکھن بلوکر گھی بنایا جاتا ہے۔ مگر اِس عمل سے بہت پہلے معاملات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ پولیس اہلکاروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ڈَل گئیں اور سَر کڑھائی میں ! اُنہوں نے تھانے میں بندھی ہوئی بھینسوں کا دودھ بیچنا شروع کردیا! نیاز چانڈیو نے دُہائی دی مگر کچھ نہ ہوا۔ پولیس اور بھینس دونوں کو سمجھانا اُن کے آگے بین بجانے کے مترادف ہوتا ہے! بے چاری مسروقہ بھینسوں کو کیا معلوم کہ اُن کے وجود نے پولیس کو متبادل آمدنی کا ذریعہ سُجھا دیا ہے! سندھ میں سخت گرمی پڑ رہی ہے۔ ایسے میں اگر پولیس بھینسوں کا دودھ بیچنے کے بجائے دہی جماکر لَسّی بیچے تو موسم سے مطابقت بھی پیدا ہوجائے گی اور آمدنی کا گراف بھی بلند ہوگا! اچھا ہے، پولیس ملزمان سے تفتیش یا شہریوں سے احوال پوچھنے کے نام پر اُن کے دِماغ کی لَسّی بنانے کے بجائے تھانے کے باہر لَسّی کی دُکان کھول لے! اِس میں ہرج ہی کیا ہے جب اِس ملک میں ’’فوجی فرٹیلائزر‘‘ ہوسکتی ہے تو ’’پولیس لَسّی‘‘ کیوں نہیں ہوسکتی! میر پور خاص میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران بلدیاتی ملازمین اور پولیس اہلکاروں نے بلدیہ شاپنگ سینٹر کے باہر ٹھیلے لگائے اور بریانی سے بھری ہوئی تین دیگیں بھی ضبط کرلیں۔ پولیس اور بلدیاتی ملازمین کو جو بریانی ہاتھ لگی وہ اُنہوں نے خود بھی کھائی اور رشتہ داروں میں بھی تقسیم کی۔ سُنا ہے ڈپٹی کمشنر آصف اکرام اِس حرکت پر برہم ہوئے۔ اُن کی ناراضی بے محل اور بے سُود ہے۔ کھانے کی چیز تھی، کھالی۔ اور اچھا ہے کہ رشتہ داروں میں بھی بانٹ دی۔ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ تجاوات کے خلاف آپریشن میں زیادہ تیزی تھی یا بریانی کو ٹھکانے لگانے والے آپریشن میں! اچھا ہے، کچھ غریبوں کا پیٹ بھرگیا۔ اور بریانی ایسی چیز بھی نہیں جس کی بازیابی کے لیے بعد میں کلیم کیا جائے۔ پولیس بریانی کو جس حالت میں واپس کرنا چاہے گی وہ کِسی طور قابل قبول نہ ہوگی۔ قصور ٹھیلے والوں کا ہے کہ وہ ایسی چیز بیچنے نکلے ہی کیوں جسے بعد میں قبول نہ کیا جاسکے! اب کوئی یہ دعویٰ نہ کرے کہ بریانی پر کِس کا حق مُقدّم تھا۔ رند وہی ہے جس کے ہاتھ میں جام آجائے۔ جو جیتا وہی سِکندر۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس، اور بریانی بھی! زبان سے نکلا ہوا لفظ، کمان سے نکلا ہوا تیر اور پیٹ میں گئی ہوئی بریانی کبھی واپس نہیں آتی! ٹھیلے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر وہ پولیس والوں کو تھوڑی بہت بریانی بَھتّہ یا صدقہ سمجھ کر نہیں دیں گے تو قُدرت اُنہیں اِس طرح ’’اینٹی بریانی آپریشن‘‘ کے ذریعے نوازے گی! اور صاحب! جب بعض شُعراء پورا کا پورا مشاعرہ لُوٹ سکتے ہیں تو کیا پولیس والے بریانی کی دو تین دیگیں نہیں لُوٹ سکتے! اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مسروقہ بھینسوں کا دُودھ بیچنا یا بریانی کی دیگیں ضبط کرکے ضیافت اُڑانا شرافت نہیں بلکہ بُزدِلی کا مظاہرہ ہے تو غم مت کیجیے۔ پولیس اُن کاموں میں بھی آگے ہے جن میں جُرأتِ رندانہ درکار ہوا کرتی ہے۔ یہ چند مثالیں ہماری توجہ چاہتی ہیں۔ ہماری پولیس اب اپنے لیے وسائل خود پیدا کرسکتی ہے۔ دُنیا میں ایسی پولیس کہاں ہوگی جو خود روزگار فارمولے کے تحت اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرے اور اِضافی آمدنی بھی یقینی بنائے؟ لوگ منشیات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کئی شہروں میں پولیس نے ’’نارکوٹکس فری زون‘‘ بنائے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جن میں نارکوٹکس آزادانہ فروخت ہوتی ہے! ذرا وژن تو دیکھیے کہ ایک طرف تو منشیات خریدنے اور بیچنے والوں کو سہولت۔ اور دوسری طرف منشیات استعمال نہ کرنے والوں کو اِس بات کا اطمینان اُن کی آنکھوں کے سامنے یہ مکروہ دَھندا نہیں ہو رہا! یعنی کام بھی چلتا رہے اور کِسی کا دِل بھی نہ ٹوٹے! مسروقہ بھینسوں کا دودھ فروخت کرکے اور اینٹی انکروچمنٹ آپریشن کے دوران بریانی سے بھری دیگیں ٹھکانے لگاکر ہماری پولیس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تھوڑی سی توجہ دی جائے تو وہ قوم کو سیلف ایمپلائمنٹ کے نئے طریقے سِکھا سکتی ہے! سُنا ہے ن لیگ کے مرکزی رہنما اسحاق ڈار بجٹ تیار کر رہے ہیں۔ اُنہیں اضافی آمدنی یقینی بنانے کے حوالے سے پولیس کی صلاحیتوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved