یونیورسٹی میں ایک معروف دانشور سیمینار سے خطاب کررہے تھے‘ سب لوگ واہ واہ‘ بہت خوب‘ ماشاء اللہ اور زبردست جیسے الفاظ سے خوب داد دے رہے تھے‘ جب بھی کسی بات پر تالیاں بجتیں تو ان کا جوشِ خطابت اور بڑھ جاتا‘ وہ فرما رہے تھے کہ انسان کو کبھی مصلحت کاشکار نہیں ہونا چاہیے خواہ اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نا دینی پڑے۔ انہوں نے بڑے فخر سے اپنی مثال پیش کی کہ میں بڑے قومی ادارے میں ڈائریکٹرجنرل کے عہدے پر فائز تھا‘ میری اٹھارہ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ تھی‘ دفتر میں بڑی مراعات کے علاوہ معاشرے میں بڑا مقام تھا‘ لوگ بڑا احترام کرتے تھے اورمیرے ایک اشارے پر بڑے بڑے کام ہو جایا کرتے تھے‘ پھر کسی بات پر میرا ادارے کی انتظامیہ کے ساتھ اختلاف ہوا لیکن میں ہرگز مصلحت کا شکار نہیں ہوا‘ میں نے اٹھارہ لاکھ کی نوکری چھوڑ دی ‘ مراعات کو لات مار دی لیکن اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ مجھے دوچار مہینے بیروزگار رہنا پڑا لیکن اس کے بعد میں نے اپنا کام شروع کردیا اور آج اللہ پاک نے مجھے اس ٹھاٹھ باٹ کی نوکری سے بھی زیادہ خوشحال کردیاہے اورمیں زیادہ پرسکون ہوں۔ ایک گھنٹے کی کتابی باتیں سننے کے بعد انہوں نے سیمینار کے شرکا سے کہاکہ اب اگر کسی شخص کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو میں اس کا جواب دینے کیلئے حاضر ہوں۔ پہلی قطار سے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا‘ اکثر لوگ سوال تھوڑا کرتے لیکن سوال سے پہلے اور سوال کے بعد بھی ان کی خوشامد بڑی فراخدلی سے کرتے ۔ طویل انتظار کے بعد درمیان میں بیٹھے ایک سفید پوش نے سوال کیاکہ جناب آپ تو اٹھارہ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے ‘ گھر کا خرچ تو آپ کامیرے برابر نہ بھی ہوا تو چلو پانچ گنا زیادہ ہوگا ‘ جس میں سے مہینے بھر کے اخراجات پورے کرکے بھی پندرہ یا سولہ لاکھ روپے بچت ہوجاتی ہوگی‘ اس طرح اگر آپ دو سال بھی اس کرسی پر براجمان رہے ہوں اور آپ کی ماہانہ بچت پندرہ لاکھ روپے بھی ہوئی تو دو سال میں یہ بچت تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے بنتی ہے‘ لہٰذا آپ کی بات تو سمجھ آتی ہے کہ بقول آپ کے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور اٹھارہ لاکھ روپے کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا کیونکہ جس بندے کے اکائونٹ میں ساڑھے تین کروڑ روپے سے زائد رقم پڑی ہو تو اسے دو تین ماہ کی بیروزگاری سے ڈر نہیں لگتا‘ اور اب آپ تو انہی پیسوں سے آج ایک ذاتی کمپنی کے مالک ہیں ‘لیکن جس کی تنخواہ لاکھوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہو ‘ اس کے اخراجات میں صحیح طریقے سے پورے نہ ہوتے ہوں ‘ کبھی اسے بچوں کی فیس کی قسطیں کروانی پڑتی ہوں تو کبھی بجلی یا گیس کا بل ایک ماہ کیلئے مؤخر کرنا پڑتاہو‘ بچت کی بجائے مسلسل خسارے کے باعث دو تین ماہ تو بہت دور کی بات ‘ وہ دو دن کی بیروزگاری کامتحمل بھی نہ ہوسکتاہو تو پھر ایسے شخص کیلئے مشورہ دیں کہ اگر اس کی نوکری کوخطرہ ہو تو وہ ادارے کے مالک یا انتظامیہ کے سامنے کیسے مصلحت کا شکار نہ ہو؟ وہ اپنے اصول اپنائے گا یا بچوں کی بھوک مٹائے گا؟ اس سوال نے کچھ لمحوں کیلئے ان کی دانشوری جھنجوڑ کر رکھ دی اور ان پر سکتہ سا طاری ہوگیا ‘ اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں تھا‘پھر بڑے دھیمے لہجے میں بولے :جی بات تو آپ کی بالکل بجا ہے‘ موجودہ معاشی حالات سخت ہیں اور ان حالات میں انسان کو مصلحت کا شکار ہونا ہی پڑتاہے ‘ لیکن اگر انسان اصولوں پر کاربند رہے تو اسے کامیابی ضرور ملتی ہے‘ اس کے بعد انہوں نے نماز کاوقت قریب ہونے کافائدہ اٹھایا اورسوال وجواب کا سلسلہ وہیں ختم کردیا۔
اس وقت دنیا بھر کی طرح وطنِ عزیز پاکستان بھی کورونا وائرس کی وبا کے باعث مشکل ترین حالات سے گزر رہاہے‘ ملک بھر میں لاک ڈائون کا دوسرا ہفتہ جاری ہے ‘ ہرطرف کاروبار بند ہیں‘ ٹرین سروس معطل ہے‘ ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہے‘ دفاتر اورکارخانے بند ہیں‘ لوگ گھروں میں محصور ہیں‘ صرف دیہاڑی دار مزدور ہی نہیں بلکہ عام تنخواہ دار طبقہ اور چھوٹا دکاندار بھی بیروزگار ہوکر گھروں میں قید ہو کر رہ گیاہے یعنی غریبوں کے ساتھ سفید پوش طبقہ بھی اس وقت مشکل ترین حالات کاسامنا کررہاہے۔اکثر گھروں میں راشن ختم ہوچکاہے ‘ نیا مہینہ شروع ہوچکاہے‘ مکانوں اوردکانوں کے کرائے کی تاریخ آگئی ہے‘ بجلی اورگیس کے گھریلو بلوں کے ساتھ دکانوں کے یوٹیلٹی بل بھی بقایا ہیں ‘ اپنے حالات کشیدہ ہونے کے باوجود بند پڑی ہوئی دکان کے ملازم کی تنخواہ بھی ادا کرنی ہے ۔ غریب کاچولہا تو ٹھنڈا پڑا ہی ہے ‘ ساتھ سفید پوش طبقے کی نوبت بھی فاقوں تک پہنچنے والی ہے۔
حکومت کی طرف سے غریب اور بیروزگار افراد کیلئے اعلان کردہ امدادی پیکیج آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ‘ کورونا وائرس کی وبا ہے جو قابو میں آنے کانام ہی نہیں لے رہی اور روزبروز بے قابو ہوتی جارہی ہے‘ بظاہر جو حالات ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لاک ڈائون تو جلد ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ روزانہ مریضوں اوراموات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اورجس تیزی سے یہ وبا پھیل رہی ہے اس کے فوری خاتمے کی توقع بھی مشکل ہے۔ اگر خدانخواستہ مزید دو ہفتے یہی صورتحال رہی تو غریب سے زیادہ سفید پوش طبقہ فاقہ کشی کاشکار ہوگا‘ کیونکہ حکومت کی جانب سے ملنے والی چند ہزار کی امداد کسی غریب سے غریب گھرانے کابھی ایک مہینے کاخرچ پورا نہیں کرسکتی ‘ پھر ابھی تک غریبوں تک امداد پہنچانے کیلئے جو ذرائع یا حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے وہ پہلے ہی سیاسی کشمکش کاشکار ہوچکی ہے۔ حکومت پاکستان تحریک انصاف کے عہدیداروں کے ذریعے ٹائیگر فورس تشکیل دے کر گھر گھر امداد پہنچانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کامطالبہ سامنے آچکاہے۔ حزبِ اقتدار اوراختلاف دونوں اطراف سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے الزامات جاری ہیں اورلگتایوں ہے کہ ابتدا میں اپوزیشن رہنمائوں نے وزیراعظم عمران خان کو تعاون کی پیش کش کی تھی حکومت اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے موقع گنوا چکی ہے ‘ کاش اس وقت ہماری سیاسی قیادت اتحاد کامظاہرہ کرتی تو یقینا یہ ہماری قوم کے بہتر اورمحفوظ مستقبل کی ابتدا ہوتی‘ لیکن اس کیلئے حکومت کے پاس ہی اختیارہوتاہے کہ وہ اپوزیشن کوکس طرح ساتھ لے کرچلتی ہے۔ میں یہاں کسی ایک فریق پر الزام عائد نہیں کرتا کیونکہ اگر یہ وبا قابو میں نہ آئی تو نقصان سب کاہوگا اور غریب آدمی تک شاید بروقت اورمکمل امداد پہنچ ہی نہ پائے ‘ لیکن اگر یہی بات فرض کر لیں کہ غریبوں تک امداد پہنچانے والے مکمل ایمانداری کامظاہرہ کریں گے‘ کسی مرحلے پر سستی یا غفلت کامظاہرہ نہیں ہوگا ‘ جوجو غریب لوگ رجسٹریشن کرائیں گے یا سرکاری وامدادی اداروں سے رابطہ کریں گے ان کے گھروں میں راشن اورخوراک سو فی صد پہنچے گی توپھر بھی اس بات پرغور کرناہوگا کہ محلے میں کتنے لوگ اپنی غربت کا پردہ چاک کرکے راشن ‘ خوراک یا چارہزار روپے کی امداد کیلئے رجسٹریشن کراتے ہیں ‘کیونکہ حکومتی امداد تو انہی تک پہنچے گی جو رجسٹریشن کرائیں گے۔ بلاشبہ ایسے تمام لوگ بلاتفریق امداد کے مستحق ہیں اور میں تو یہ کہوں گا کہ کوئی بھی صاحب حیثیت شخص چار ہزار روپے کی مالی مداد کیلئے اپنا نام امدادی فہرست میں نہیں لکھواتا‘ لہٰذا جو بھی شخص مالی امداد کیلئے رجسٹریشن کرائے‘ اسے یہ امداد اورراشن ضرور ملنا چاہیے۔ اب میرا نکتہ پھر وہی ہے کہ سب سے پہلا حق تو غریب آدمی کاہے کہ اسے امداد ملنی چاہیے‘ لیکن حکومت اورامدادی ادارے ایسے سفید پوش طبقے کے بارے بھی سوچیں جو نہ تو گلی یا سڑک پر جاکر کسی سے خوراک کاامدادی تھیلا پکڑ سکتاہے اور نہ ہی کسی فہرست میں اپنا نام لکھوا سکتاہے ‘ لہٰذا حکومت اوراپوزیشن کوپہلے تو سیاسی کشمکش ختم کرکے متحدہوناچاہیے اور پھر ایسی پالیسی بنائی جائے کہ کوئی سفید پوش بچوں کوبھوک سے مرتادیکھ کر خودکشی پرمجبور نہ ہوسکے۔