تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     07-04-2020

سیاست کے کورونا

اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن مجید کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے ''اللہ کے نام سے شروع جونہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے‘‘۔سورہ فاتحہ‘ جس کی تلاوت ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہیں‘ چلتے پھرتے پڑھتے ہیں‘ جس میں ہم اقرار کرتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ‘جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔روزِ جزا کا مالک ہے۔اے اللہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا۔ان لوگوں کا(راستہ)نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ ہی گمراہوں کا۔اللہ تعالی نے پھر قرآن مجید میں ہی آخری پیغمبررحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ کی وساطت سے بار بار یہ بتایا ہے کہ سیدھا راستہ کون سا ہے اور اللہ تعالی کن لوگوں پر انعام فرماتے ہیں اور کون سا راستہ گمراہوں کا ہے۔سورہ فاتحہ کے بعد سورہ بقرہ میں قرآنِ مجید کے بارے میں بتایا گیا کہ ''الف لام میم۔یہ وہ عظیم کتاب ہے‘ جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں‘‘ پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ کتاب پرہیزگاروں کیلئے ہدایت ہے‘ یعنی جوشخص پرہیزگار رہے گا اللہ تعالی کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق ‘زندگی گزارے گا ان لوگوں کیلئے یہ کتاب ِالٰہی قرآن مجید راہِ ہدایت ہے اور جو لوگ اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی نہیں گزاریں گے ان کو اللہ تعالی ہدایت نصیب نہیں کریں گے۔اس کو پھر اللہ تعالی نے ہی بتایا کہ پرہیزگار کے زمرے میں کون لوگ آتے ہیں فرمایا جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ)قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے‘ اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں اور وہ لوگ جوآپ ؐکی طرف نازل کیا گیا اور جو آپؐ سے پہلے نازل کیاگیا سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر بھی کامل یقین رکھتے ہیں۔وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالی نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو پرہیزگار نہیں ہیں‘ جو اللہ کے فرمان کو نہیں مانتے‘ جو زمین پر فساد برپا کرتے ہیں ‘ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ بیشک جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے‘ ان کیلئے برابر ہے خواہ آپؐ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔اللہ نے ان کے اپنے انتخاب کے نتیجے میں ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا اور ان کیلئے سخت عذاب ہے۔ اور لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں‘ جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان لائے ؛حالانکہ وہ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ ایسے دھوکہ دینے والوں کے بارے میں اللہ تعالی نے اگلی آیت میں بتایا کہ وہ اللہ اور ایمان داروں کو دھوکا دیتے ہیں؛ حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور نہیں سمجھتے۔ان کے دلوں میں بیماری ہے‘ پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمیں پر فساد بپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔آگاہ ہو جاؤ یہی لوگ حقیقت میں فساد کرنے والے ہیں‘ مگر انہیں اس کا احساس تک نہیں۔ 
زیادہ دور نہ جائیں اگرگزشتہ دو تین دہائیوں کا ہی جائزہ لے لیں تویہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ محض علاقے اور دنیا کا چوہدری بننے کیلئے‘ اپنے سیاسی مخالفین کی حکومتیں ختم کرنے کیلئے اور تجارتی مقاصد کیلئے لاکھوں انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ افغانستان ‘لیبیا ‘شام‘ یمن‘ فلسطین‘ لبنان‘ عراق‘ مقبوضہ کشمیر اور برما میں روہنگیا‘ محض سیاسی طاقت کیلئے انسانوں کی لاشوں کے انبار لگا دئیے گئے اور ان جنگوں کو مسحور کن سلوگن دئیے گئے ‘کبھی اس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیاگیا اور کبھی انسانی تباہی کیلئے کیمیکل ہتھیار کے استعمال کا جھوٹا الزام لگایا گیا اور مقاصد پورے ہونے پر انہی حکمرانوں نے یہ کہہ کر معافی مانگ لی کہ کیمیائی ہتھیاروں کی اطلاع درست نہ تھی۔ہم نے دیکھا کہ معصوم بچے ‘خواتین اور بوڑھوں کی سمندروں کے کنارے پڑی لاشیں عالمی انسانیت کو پکارتی رہیں‘ لیکن کسی کا ضمیر نہ جاگا اور اجتماعی ظلم وستم اور فساد برپا کرنے والے حکمرانوں نے انسانیت کا قتل عام اسی طرح جاری رکھا۔آج اقوامِ عالم کورونا کی گرفت میں ہیں اور ان حکمرانوں کی تمام طاقتیں ‘ترقیاں‘ ٹیکنالوجیز زیرو ہوچکی ہیں ۔ آج یہی ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک سب سے زیادہ لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ جو جتنا بڑا طاقتور ملک تھا‘ لاشیں بھی زیادہ انہی کے ہاں ہیں۔امریکہ ‘اٹلی‘ سپین‘ فرانس‘ برطانیہ‘ چین‘ ایران‘ سعودی عرب‘ روس سب شامل ہیں۔ جنہوں نے مختلف ممالک میں پراکسی جنگیں شروع کر رکھی تھیں۔کوئی اپنے دفاع کے نام پر قتلِ عام کررہا تھا اور کوئی مذہب کی بنیاد پر لوگوں کا قتلِ عام کررہا تھا۔ کورونا کے وبائی مرض نے بھی بہت سے رازوں سے پردہ اٹھادیا ہے کہ لوگوں کو کیسے کیسے بھرتی کرکے دوسرے تیسرے ملکوں میں لڑنے کیلئے بھیجا جاتا تھا‘ لیکن اللہ تعالی کا جو وعدہ ہے وہ پورا ہوکر ہی رہتا ہے‘ ہمیں بطور مسلمان اللہ سے استغفار کرتے رہنا چاہیے۔کورونا کو کچھ بھی کہا جائے‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے انسان پر اس کی اوقات ظاہر کردی ہے۔ 
دوسری جانب ملکی سیاست میں ایک بھونچال آچکا ہے اور مخلوط حکومت کے وزیراعظم عمران خان تمام نتائج سے بے پروا ہوکر اقدامات اٹھا رہے ہیں۔چینی‘ آٹے کے گندم بحران پر رپورٹ عام کرچکے ہیں‘ جس میں ان کی اپنی جماعت کے رہنما ‘ وفاقی اور صوبائی وزرا اور بیوروکریٹس ملوث قرار دیے گئے ہیں‘ جبکہ اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا بھی نام ہے۔وفاق اور پنجاب میں انہی اتحادیوں کے سہارے ان کی حکومت ہے۔واجد ضیا نے رپورٹ پانچ روز قبل‘ گزشتہ بدھ کے روز وزیراعظم کو پیش کر دی تھی اور وزیر اعظم عمران خان نے خود اس کے مندرجات پڑھے اور جائزہ لیا۔وزیرعظم کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ رپورٹ میں جو کچھ حقائق سامنے آئے ہیں ‘اس سے کہیں زیادہ ہوشربا حقائق فرانزک آڈٹ کی صورت میں سامنے آئیں گے اور اس بارے میں بھی ثبوت موجود ہیں‘جس کے بعد وزیراعظم نے اپنے قابلِ اعتماد اور قریبی لوگوں سے بند کمرے میں مشاورت کی ۔اس اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ رپورٹ شائع ہونے اور ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات آگے بڑھانے کی صورت میں مرکز اور پنجاب میں عددی اکثریت بھی متاثر ہوسکتی ہے اور مخلوط حکومت کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے‘ پھر یہ بھی کہا گیا کہ کورونا کی وجہ سے بھی یہ وقت درست نہیں ہے ‘اس لیے یہ اقدام نہ اٹھایا جائے تاہم دو رہنماؤں نے اس کے برعکس رائے دی۔پھر حتمی طور پر وزیراعظم عمران خان نے رپورٹ شائع کرنے اورتحقیقات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔رپورٹ شائع ہوچکی اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی شروع ہوچکی ہے۔جہانگیر ترین‘ ارباب شہزاد‘ سمیع اللہ چوہدری اوررزاق داؤد فارغ ہوچکے ہیں۔ ذمہ دار افسروں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے‘ لیکن یہ سب ایک ٹریلر ہے‘ اس رپورٹ کے اگلے حصے‘ جو فرانزک آڈٹ کے بعد سامنے آئیں گے‘ وہ کہیں زیادہ ہیں۔اب تک مونس الٰہی نے رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنی پوزیشن واضح کی ہے ‘باقی تمام خاموش اور محتاط ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان آگے بڑھنے کے موڈ میں ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ جن مضبوط لوگوں کو ماضی میں کْچھ نہ کہا جاسکا ۔اب‘ ان پر ہاتھ کیسے ڈالا جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved