ذائقوں میں مٹھاس گھولنے والی چینی نے انصاف سرکار میں کہیں زہر گھول ڈالا ہے تو کہیں تلخیوں اور اختلافات کی آندھی چلا دی ہے۔ اس سکینڈل میں قربانی کا پہلا بکرا صوبائی وزیر خوراک سمیع اﷲ چوہدری کو بنا ڈالا گیا ہے اور اصل ذمہ داروں اور فیصلہ سازوں کی تعریفوں کے پُل باندھے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کے حالیہ دورئہ لاہور کے بعد کورونا سے بچاؤ کے اقدامات پر حکومت پنجاب کو نہ صرف خراجِ تحسین پیش کیا گیا بلکہ حکومتی انتظامات کو مثالی بھی قرار دیا گیا۔ عین ممکن ہے یہ تعریفوں کے پُل دیگر مہلک امراض میں مبتلا مریضوں پر ہسپتالوں کے دروازے بند کرنے پرباندھے گئے ہوں یا ویکسین کی تیاری کے ناقابلِ فہم اعلان پر۔ 90کروڑ کی خطیر رقم سے فیلڈ ہسپتال کے قیام پر یا غیر متعلقہ افراد پر مشتمل کورونا ماہرین کے گروپ تشکیل دینے پر۔ کورونا سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ اقدامات اور حفاظتی کٹس کی خریداری سے گریز پر یا کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہباز شریف کے دورِ حکومت میں خریدی گئی حفاظتی کٹس پر گزارہ کرنے پر۔ نجانے کون سی ادا اور کون سے اقدامات ایسے تھے جو وزیراعظم کو بھا گئے اور وہ انہیں مثالی قرار دے رہے ہیں۔
سلام ہے چیف جسٹس آف پاکستان کو جنہوں نے نہ صرف سرکار کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے بلکہ ان کے اقدامات اور انتظامات پر کئی سوال بھی اٹھا دئیے ہیں۔ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کورونا پر وفاق کچھ کر رہا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں‘ سب پیسے مانگ رہے ہیں‘ یہ کیسی ہیلتھ ایمرجنسی ہے کہ ملک کے سبھی ہسپتال بند کر دئیے ہیں‘ شوگر‘ دل اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کہاں جائیں؟ وزرائے اعلیٰ گھروں سے احکامات صادر کر رہے ہیں اور حکومت لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہی ہے‘ مختص کیے گئے اربوں روپے کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟ سارا زور مفت راشن تقسیم کرنے پر ہے۔عدالت کا اظہارِ برہمی عین منطقی اور بجا ہے۔
یہ ریمارکس ان حالات کی بھرپور عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں جن سے لاچار عوام دوچار ہیں۔ انصاف سرکار کی ہیلتھ ایمرجنسی کا صرف ایک ہی ٹارگٹ ہے کہ بندہ کورونا سے ہرگز نہیں مرنا چاہیے بھلے بے موت مارا جائے۔ کسی کا اپینڈکس پھٹ گیا تو کسی کی آنکھیں پتے میں پتھری کی وجہ سے پتھرا گئیں‘ کوئی گردے کی جان لیوا تکلیف سے چیخیں مار رہا ہے تو کوئی جگر اور دیگر مہلک امراض کے ہاتھوں مجبور ہسپتالوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ سبھی کو یہ کہہ کر لوٹایا جا رہا ہے کہ ہیلتھ ایمرجنسی میں صرف کورونا مریضوں کو ہی اٹینڈ کیا جارہا ہے۔ جب حالات نارمل ہوں گے تو دیکھیں گے۔ تشویشناک حالت سے دوچار مریضوں کو علاج سے انکار کی منطق ناقابلِ فہم فعل ہے۔ کورونا کے مریضوں کی وجہ سے آپریشن تھیٹر بند کر دینا کہاں کی مسیحائی ہے؟
بات ہو رہی تھی چینی سکینڈل کی‘ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آتے ہی جناب وزیراعظم نے کابینہ میں فوری طور پر اہم تبدیلیاں کر ڈالیں۔ چینی سکینڈل کے بینی فشری خسرو بختیار کا قلمدان تبدیل کر کے انہیں اقتصادی امور کا قلمدان دے دیا گیا ہے جبکہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین عبدالرزاق داؤد سے دو عہدے واپس لے لیے گئے ہیں اب وہ صرف تجارت پر ہی مشاورت کر سکیں گے۔ اسی طرح وزیراعظم کے ایک انتہائی قریبی اور معتمد خاص بھی چینی سکینڈل کا مرکزی کردار بنتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ انہوں نے اس رپورٹ کو اپنے خلاف سازش اور حملہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اُن کے وزیراعظم سے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔
چینی پر سبسڈی اور آٹا گردی ہمارے ہاں کوئی انوکھی اور نئی واردات نہیں ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ‘ سبھی ادوار میں مال بنانے اور اپنوں کو نوازنے کا رواج خاصا پرانا ہے۔ جو شخصیات کسی زمانے میں عمران خان صاحب کی کوالیفکیشن ہوا کرتے تھے آج وہی ڈس کوالیفائیڈ ہوتی نظر آتی ہیں۔ جن کی سنگت اور صحبت انہیں ممتاز کرتی تھی آج وہی ان کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ خیر الیکٹ ایبلز کی گیم اور کوئے اقتدار تک رسائی ان تمام شخصیات کے بغیر کہاں ممکن تھی۔ تحریک انصاف کی طویل سیاسی جدوجہد‘ دھرنوں اور جلسے جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کی قیمت کہیں نہ کہیں تو چکانا تھی۔ عمران خان سابق حکمرانوں کے جن اقدامات اور رنگ ڈھنگ کو ہدفِ تنقید بنایا کرتے تھے وہ سبھی کچھ تو انصاف سرکار میں اُسی زور و شور سے ناصرف جاری و ساری ہے بلکہ برسرِ اقتدار آتے ہی تحریک انصاف کو کئی مقامات پر اسی تنقید کا شدید سامنا رہا جس طرزِ حکمرانی پر وہ سابقہ حکمرانوں پر تنقید کے نشتر برسایا کرتے تھے۔ اس طرح مصاحبین اور ذاتی رفقا کو سرکاری ادارے سپرد کرنے کے سبھی ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں۔ وزارت ہو یا مشاورت پروفیشنلز کی بجائے ذاتی مصاحبین اور رفقا کی رائے مقدم سمجھی جاتی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو کہتے ہیں کہ گنے کی اچھی فصل ہونے کے بعد مال بناؤ پارٹیوں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں چینی سستی نہ ہو جائے اور اگر ایسا ہوا تو یقینا عوام کو بھی ریلیف ملے گا۔ اسی خدشے کے پیش نظر وزیراعظم کے انتہائی قریبی مشیر عبدالرزاق داؤد کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ پنجاب کابینہ نے اس کی توثیق کی تو وزیراعلیٰ اس واردات سے کیسے لاعلم اور بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ چینی سکینڈل کے بینی فشری وفاقی وزیر خسرو بختیار کے برادرِ اصغر صوبائی وزیر خزانہ ہوں اور سبسڈی کی رقم فراہم نہ کریں یہ کیسے ممکن ہے۔ اُن کے وزیرخزانہ ہونے کا پھر کیا فائدہ؟ مفادات کی اس واردات میں سبھی ایک دوسرے کے شریک اور دست و بازو ہیں۔
چینی سکینڈل کے بعد سیاسی عدم استحکام اور نئے رجحا نات کی بحث چھڑ گئی ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ چینی سکینڈل کی فرانزک رپورٹ آنے کے بعد سیاست نیا رُخ اختیار کر سکتی ہے جبکہ انصاف سرکار کو سب سے زیادہ خطرہ ان اقدامات اور فیصلوں سے ہے جن کی تان ذاتی رفقا اور مصاحبین پر آکر ٹوٹتی ہے۔ آنے والے دنوں میں سبکی اور جگ ہنسائی کا اگلا مقام وزیراعلیٰ شکایت سیل کی شہر شہر کھلتی فرنچائزیں اور قومی نشریاتی ادارہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں بھی حلوائی کی دکان اور نانا جی کی فاتحہ والا معاملہ چل رہا ہے۔ یہاں بھی ذاتی مفادات گورننس اور میرٹ کی ضد بنے ہوئے ہیں۔ چینی سکینڈل کی زد میں آنے والے شریکِ اقتدار اور وزیراعظم کے انتہائی قریبی رفقا اور حکومتی ترجمانوں کے درمیان بیان بازی اور ماحول دیکھ کر نجانے کیوں شہرئہ آفاق فلم ''پاکیزہ‘‘ کے ایک گیت کے بول بے اختیار یاد آگئے: ؎
جو کہی گئی نہ مجھ سے وہ زمانہ کہہ رہا ہے
کہ فسانہ بن گئی ہے میری بات چلتے چلتے
شب انتظار آخر کبھی ہو گی مختصر بھی
یہ چراغ بجھ رہے ہیں میرے ساتھ جلتے جلتے
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ موجودہ سیاسی بحران اپنی جگہ مگر ملک بھر میں یوٹیلٹی سٹورز پر چینی‘ دالوں‘ کوکنگ آئل اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت کی خبریں آرہی ہیں‘جبکہ کھلی مارکیٹ میں پہلے ہی گرانی اور خود ساختہ مہنگائی کی شکایات کے انبار لگ چکے ہیں۔ عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے والے بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ کورونا کے خلاف جنگ میں مصروفِ عمل ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ سرکار کورونا اور سیاسی بحران سے نمٹتے نمٹتے مزید مصروف نہ ہو جائے اور یہ غذائی قلت نیا بحران بن کر سامنے آن کھڑی ہو اور صورتحال کچھ یوں نہ بن جائے کہ ( معذرت کے ساتھ): ؎
ایک اور بحران کا سامنا تھا... مجھ کو
میں ایک بحران سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا