اکتوبر 2005ء کا زلزلہ کون بھول سکتا ہے ؟ ایک قیامت تھی ‘جو بیت گئی۔ اس دن میری چھٹی تھی اور اگلے دن پیپر تھا۔میں سو رہی تھی کہ بڑی بہن نے مجھے نیند سے جگانا شروع کردیا۔ ہم دونوں کے اوپر الماری میں پڑی کتابیں گررہی تھیں ‘پورا گھر زلزلے کے باعث لرز رہا تھا۔میری بڑی بہن نے مجھے بالائی منزل سے سیڑھیاں اترنے کا کہا اور ہم دونوں مشکل سے نیچے والی منزل پر پہنچیں۔میں بہت خوفزدہ ہو گئی اور رونے لگی‘ تو امی ابو نے ہمیں تسلی دی ۔وہ دونوں بلند آواز میں قرآنی آیات کا ورد کررہے تھے۔ہم نے اس سے پہلے ایسا زلزلہ نہیں محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ رات پورے اسلام آباد کے باسیوں نے اپنے گھروں سے باہر گزاری‘ کیونکہ بار بار زلزلے کے جھٹکے آرہے تھے۔ ہم سب خوف زدہ تھے ۔ قریب میں ہی مارگلہ ٹاور زمین بوس ہو چکا تھا اور متعدد لوگ اس کے نیچے دب کر جاں بحق ہوچکے تھے‘پھر خبرآئی کہ بالا کوٹ اورکشمیر میں تو بہت تباہی ہوئی ہے اور ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ہر کوئی خوف زدہ اور سوگوار تھا۔
میری بہن ماہر نفسیات ہے۔ میں نے اس کے ساتھ اسلام آباد کے مختلف ہسپتالوں میں رضاکارانہ طور پر زلزلہ زدگان کی مدد کا کام شروع کر دیا۔ہم طالبعلم ان زلزلہ زدگان کیلئے چندہ جمع کرتے اور متعلقہ انتظامیہ کو دے دیتے۔اس وقت پاکستان ائیر فورس نے امدادی سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔سی ون تھرٹی امداد لے کر جاتے اور واپس پر زخمی لاتے۔رن وے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے‘ یہ قوم کے شاہین ‘ائیرفورس کے پائلٹس تھے‘ جو نچلی پروازیں کرکے زلزلہ زدگان میں امداد تقسیم کرتے تھے‘ نیزلوگوں کو ریسکیو کرنے اور ریلیف پہنچانے کا کام کرتے تھے۔ مریضوں اور عوام کو کشمیر سے ہسپتالوں اور محفوظ مقامات پر منتقل کرتے تھے۔یہ آپریشن دس اکتوبر2005ء سے جنوری 2006ء تک مسلسل جاری رہا۔ اس میں سی ون تھرٹی‘ سی این235‘بی 707 اور وائے12 جہازوں نے حصہ لیا۔اس ریلیف اورریسکیوآپریشن میں کل 2442ٹن سامان کی منتقلی کی گئی اور قریباً3342 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔بلاشبہ یہ زلزلہ بہت بڑی قدرتی آفت تھی‘ تاہم تمام قوم نے اس کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔اس کے بعد 2010ء میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب آیا‘ جو بطور ٹی وی رپورٹر میں نے کور کیا۔ ہرطرف پانی تھا اور لوگ بھوک سے مر رہے تھے‘ان کے گھر تباہ ہوچکے تھے۔مجھے یادہے کہ اس وقت بھی پاکستان ائیر فورس کے شاہینوں نے عوام کو اس کی تباہ کاریوں سے بچاتے ہوئے محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور سیلاب زدگان کو بروقت امداد پہنچائی۔سیلاب زدہ علاقوں میں راشن بھی پی اے ایف کا عملہ تقسیم کرتا‘ جس میں پاک آرمی اور نیوی بھی ساتھ تھی۔پاکستان ائیر فورس کا ٹرانسپورٹ سکواڈران امدادی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان ائیر فورس کے ٹرانسپورٹ فیلٹ میں آئی ایل 78جوکہ نمبر دس سکواڈرن کا حصہ ہے اور نمبر 6اور نمبر21 سکواڈرن ‘جس میں سی ون تھرٹی ائیر کرافٹ موجود ہے اور سی این235 کاسا جو نمبر52 سکواڈرن میں شامل ہیں‘ زمانہ امن اور زمانہ جنگ میں ریسکیو اور ریلیف میں حصہ لیتا ہے۔
اب2020ء میں کورونا وائرس سکے باعث کووڈ19 نے دنیا میں وہ دہشت پیدا کر دی ہے کہ سب حیران و پریشان ہیں۔کورونا انسان کے نظام تنفس پر حملہ کرتا ہے۔اس میں بخار ہوتا ہے‘ خشک کھا نسی ہوتی ہے اور اس کے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔علامات ظاہر ہونے میں 14 دن لگتے ہیں۔زیادہ تر لوگ اس سے صحت یاب ہوجاتے ہیں ‘لیکن بہت سے لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور اس وقت پوری دنیا عملی طور پر مفلوج ہے۔یہ بیماری چین کی جانوروں کی مارکیٹ اور چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوئی‘اس بیماری کی تاحال نہ ہی ویکسین ہے اور نہ ہی علاج موجود ہے۔ٹیسٹ سے اس کی تشخیص ہوتی ہے۔اس کا کوئی علاج تو موجود نہیں‘ لیکن انسان کے سانس کو بحال رکھ کر اس کی جان بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس وقت کورونا کی وبا ووہان چین میں عروج پر تھی‘ اس وقت نامساعد حالات میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے جان کی پروا کئے بغیر امدادی سامان چین پہنچایا۔چین کا صوبہ ہوبائی وبا سے سب سے زیادہ متاثر تھا۔پی اے ایف کی پہلا مشن ارومچی یکم فروری کو پہنچا ۔آئی ایل78 ائیرکرافٹ کے سولہ مبنی کریو نے سات ٹن کا سامان دوست ملک کو دیا‘ جس میں میڈیکل ایڈ شامل تھی۔پاک فضائیہ کا اگلا مشن بہت مشکل تھا‘ لیکن مجاہدین افلاک نے آئی ایل78 کو دوران ِوبا ‘ووہان میں پہنچایا۔ اس مشن میں سترہ ٹن سامان شامل تھا‘ جس میں کھاناراشن شامل تھا‘ جوکہ پاکستانی طلبا کو فراہم کیا گیا‘ جو وہاں پھنسے ہوئے تھے۔یہ طیارہ واپسی میں اپنے ساتھ چین کی طرف سے ایک ہزار کورونا ٹیسٹ کٹس‘ دس عدد وینٹی لیٹرز اور دیگر طبی سامان لایا‘ جس میں ماسک بھی شامل تھے۔
28مارچ 2020ء کو پاک فضائیہ کے شاہین آئی ایل78 جہاز کو لے کر ایک بار پھر چین میں لینڈ ہوئے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو دس ہزار طبی عملے کیلئے لباس‘بیس ہزار این 95 ماسک‘تین لاکھ میڈیکل فیس ماسک ‘ د س آئی سی یو وینٹی لیٹرز اور پانچ پورٹیبل وینٹی لیٹرزدئیے گئے۔مشکل کے وقت میں چین اور پاکستان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور اب بھی یہ تعاون جاری ہے‘ جوکہ دونوں ملکوں کی عظیم دوستی کی زندہ جاوید مثال ہے۔پاک فضائیہ کے شاہین‘ بلاخوف وخطر28مارچ کو ووہان گئے اور31مارچ کو واپس آئے۔ یہ طیارہ نور خان ائیر بیس پر واپس امداد کے ساتھ لینڈ ہوا۔14 ٹن سامان چین سے پاکستان منتقل ہوا۔پاک فضائیہ کا ٹرانسپورٹ کا بیڑا کورونا وائرس کیخلاف جنگ کا ہر اول دستہ ہے۔اس وقت امدادی طبی سامان کی نقل و حمل میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔حکومت ِپاکستان کی ہدایات کے مطابق پاک فضائیہ کے شاہینوں نے 4 اپریل کو کورونا وائرس کیخلاف ریلیف آپریشن میں حصہ لیا اور نمبر21 سکواڈرن کے سی ون تھرٹی طیارہ میں دالبدین سے زائرین کو سکردو پہنچایا۔تمام مسافروں کو پہلے ڈس انفیکٹ کیا گیا۔زائرین پاک -ایران بارڈر پر قرنطینہ میں تھے ۔اس مشکل کی گھڑی میں پاک فضائیہ نے مسافروں کو گھر پہنچایا۔ 6 اپریل کو پاک فضائیہ کا طیارہ سی130 کوئٹہ سے منگلی ائیر بیس پہنچا۔ اس جہاز میں عوام کیلئے طبی سامان اور امدادی سامان موجود تھا‘جن میں این 95 ماسک ‘ حفاظتی لباس‘کٹس‘دستانے اور ادویات شامل تھیں۔
کورونا کیخلاف ہم سب کو جنگ لڑنی ہے ‘لیکن ہم یہ جنگ گھر پر مقید ہوکر ‘ سماجی کنارہ کشی کرکے اور ہاتھ بار بار دھو کر کررہے ہیں۔ہمیں صابن سے ہاتھ دھونے ہیں ‘کھانستے اور چھینکتے وقت منہ کو ڈھانپنا ہے‘گندے ہاتھ ناک آنکھ منہ پر نہیں لگانے‘کورونا کے مریضوں سے فاصلہ رکھیں مریض کے منہ اور سانس سے نکلنے والے قطرے کورونا پھیلاتے ہیں ‘اس لئے تمام لوگ سماجی کنارہ کشی اختیار کریں‘تاہم طبی ماہرین کے ساتھ اس موذی وائرس سے جنگ ہمارے پاک فضائیہ کے مجاہدین افلاک لڑ رہے ہیں‘ جو وبا کے دوران بھی ہر محاذ پر پوری تندہی سے لڑرہے ہیں۔پاک فضائیہ کے پائلٹس‘ عملے اور ٹرانسپورٹ بیڑے پراس وقت طبی اور امدادی سامان کی نقل و حرکت کی بہت بڑی زمہ داری ہے‘ شاہین اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
ہم سب کو یہ جنگ مل کر لڑنی ہے۔ ہمیں سماجی کنارہ کشی کرنی ہے اور ان شاہینوں کیلئے خصوصی دعا کرنی ہے ۔اللہ ‘ان کو اور تمام انسانوں کو اس مرض سے محفوظ رکھے۔ یہ متعدی مرض ہے‘ ایک دوسرے سے لگ جاتا ہے‘ لیکن پھر بھی پاک فضائیہ یہ مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان شاہینوں کو کام کرتا دیکھ مجھے 2005 ء کے زلزلے کے بعد کی امدادی سرگرمیاں اور2010ء کا ریلیف ریسکیوآپریشن یادآگیا۔2010ء میں بطور ِرپورٹر جب میں نے قوم کی ماؤں اور بہنوں کو ان شاہینوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دیتے دیکھا تو آنکھیں نم ہوگئی تھیں اور یقین تھا کہ ہم سب اس غم اور مصیبت میں سے جلد نکل جائیں گے۔اب‘ جب یہ شاہین دوبارہ جان ہتھیلی پر رکھ ہمیں کورونا وبا سے بچانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں‘تو دل سے دعا نکلتی ہے '' اے شاہین تو سلامت رہے ‘یہ ملک آباد رہے‘‘۔