جتنی زیادہ آزادیِٔ عمل ہوتی ہے ، آخر کو جواب دہی بھی اتنی ہی کرنا پڑتی ہے ۔ اب یہ اہلِ اختیار پہ ہے کہ ریشم بنیں یا کانٹوں کی فصل کاشت فرمائیں ۔ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے ؛ اب یہ مکافاتِ عمل کی!ع وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا حکومت تو فاتح جماعت کا حق ہوتاہے مگر کس طرح یہ حق بروئے کار آئے گا ؟ تیسری دنیا کی طرح ، حکمران جہاں خود کو برتر و بالا سمجھتے ہیں یا مہذب معاشروں کی مانند، احتساب کا احساس جہاں غالب رہتا ہے ؟ قائد اعظمؒ نے ارشاد کیا تھا : آدھی جنگ موزوں لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے ۔ یہ اصول جہاں سربراہِ حکومت پہ منطبق ہوتاہے ، وہاں ان لوگوں پر بھی جو ا س کے دست و بازو بن کر ادارے چلاتے اور فیصلے صادر کرتے ہیں ۔ انگریزی محاورہ یہ ہے: A man is known by the company he keeps۔ آدمی کی پہچان اپنے رفقا ء سے ہوتی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کو اب انتخاب کرنا اور ترجیحات طے کرنی ہیں ۔ جس قدر اہل اور امانت دار رفیق وہ چنیں گے ، اتنا ہی ظفر مند ہوں گے ۔ ترجیحات کے تعین میں جس قدر بلند نظری کا مظاہرہ کرسکیں ، کامیابی اتنی ہی یقینی ۔ فراست کس چیز کا نام ہے ؟ کیا فقط سوچ بچار اور صلاح مشورے کا ؟ کیافقط میّسر معلومات کی بنیاد پر تجزیہ کر لینے کا؟ غالباً اتنا ہی ضروری یہ ہے کہ معاملات کو زیادہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے ۔اپنی انا اور تعصبات سے جو اوپر نہیں اٹھ سکتا، آخر کو کششِ ثقل کا شکار ہو جاتاہے ۔ زمین اسے اپنی طرف کھینچتی ہے اور کبھی کبھی تو اپنی گود اس کے لیے وا کر دیتی ہے ؛حتیٰ کہ وہ نشانِ عبرت ہو جاتا ہے ۔ بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دستِ ہوس گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا قرآنِ کریم یاد دلاتا اور انتباہ کرتا ہے : زمین کے سینے پر اکڑ کر نہ چلو کہ تم اسے پھاڑ نہیں سکتے اور نہ کوہساروں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو ۔ آدمی کے امکانات کی ایک حد ہے ۔ مایوسی کاشکار ہو کر خود کو کمتر سمجھنا تو اللہ کی رحمت سے انکار ہے مگر یہ گمان کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے ، جہل اور کبر کی بدترین شکل ۔ ایک آدھ نہیں ، ہزاروں اور لاکھوں کے باب میں جس کا انجام آئے دن سامنے آتاہے ؛اگرچہ عبرت کی توفیق کم ہی ہوا کرتی ہے ۔ اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا ناز بھی کر توبہ اندازہ ٔرعنائی کر وزیر اعظم کو آزادی ہے کہ اپنی کابینہ چنیں اور آزادی ہی چاہیے کہ ذمہ داری اختیار کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اسی پر آدمی کی تقدیرکا فیصلہ ۔ امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ‘سے پوچھا گیا : انسانی اختیار کی حدود کیا ہیں ؟ سوال کرنے والے سے فرمایا: ایک ٹانگ اٹھا کر کھڑے ہو جائو۔ پھر ارشاد کیا : دوسری بھی ۔ کہا: امیر المومنین! یہ تو ممکن نہیں ۔ جتلایا: بس اتنی ہی آزادی آدم کی اولاد کو میّسر ہے ۔ امکانات ہیں او ربہت ہیں مگر حدود بھی ہیں اور واضح ہیں ۔حالات ہیں اور ان کے تقاضے ہیں ۔ سوال ہوتے ہیں اور جواب چاہتے ہیں ۔ مسائل کہ حل کا مطالبہ کرتے ہیں اور دیکھنے والوں کی نگراں آنکھیں کہ زمانہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا او رآوازِ خلق ہی نقّارہِ خدا ہوتی ہے ۔ حکمرانوں کے اردگرد خوشامدی بہت ہوتے ہیں ۔ یہ انسانی فطرت ہے اور پوری طرح اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ہوتا ۔ اپنے آقائوں کو وہ گمراہ کرتے ہیں کہ جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل وادی یہ تمہاری ہے تو صحرا بھی تمہارا بادشاہ اگر نرغے میں آجائے اور اپنی انا کو گنّے کارس پلانے لگے تو بالآخر کھیت رہتا ہے ۔ ایک کہانی کہ جو اگلے زمانوں میں سنائی جائے گی اور سیکھنے والے جس سے سیکھ سکیں گے ۔ بعض تو اس قابل بھی نہیں ہوتے اور تاریخ کا حاشیہ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ میر تقی میرؔ ایسے جلیل القدر شاعر کے دیوان میں ،ایک آدھ شعر میں مرنے والوں کی خاک پکارتی ہے ۔ شہاں کہ کحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں قوموں کے مزاج ہوتے ہیں اور آسانی سے بدل نہیں سکتے ۔ شریف خاندان کی اگر حکومت ہے تو پنجاب کا وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہی کو ہونا ہے ؛حالانکہ صوبے میں چہرہ بدلنے کی ضرورت تھی ۔ ایک ہی بشریٰ دیکھتے لوگ اکتا جایا کرتے ہیں ۔خود شہباز شریف بھی چاہتے یہ تھے کہ بجلی کا بحران تمام کرنے کا کرشمہ دکھائیں ۔ نون لیگ کی سیاسی ثقافت میں مگر یہ ممکن نہیں ۔ غلاموں کو آقا بدلنے میں دشواری بہت ہوتی ہے ۔ دھوپ کے ماروں کو سایہ درکار ہوتاہے اور یتیموں کو دستِ شفقت۔ لاہور میں یتیم ہیں بھی بہت اور بہت درد کے مارے ہوئے ۔ آزادی انہیں راس نہیں ، بلکنے اور تڑپنے لگتے ہیں : اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے ؟ خبر ہے کہ بجلی کی وزارت ـ\"سیالکوٹی منڈے \"کو ملے گی ، جس کے مکھڑے پہ کشمیری تل ہے ۔جی ہاں ! اسی کو زیبا ہے کہ ہنر دکھائے ۔ دعویٰ اس کا بڑا اور تیور اس کے کڑے ہیں ۔ہنر اس کا رفتہ رفتہ کھلے گا تو طے ہوگاکہ کتنے قیراط سونا ہے اور کتنا پیتل ۔ یہ تو مگر کوئی بات نہ ہوئی کہ میاں شہباز شریف بھی اس وزارت کے نگہبان رہیں گے ۔ سونپی جائے تو ذمّہ داری پوری سونپ دینی چاہیے کہ تمام تر صلاحیت بروئے کار آسکے ، پورے آہنگ کے ساتھ ۔ ہر منتظم کا ایک اندازِ کار ہوتاہے ۔ ضابطوں کی حدود میں رہتے ہوئے ، اپنے طرزِ احساس اور اندازِ فکر کے ساتھ اسے پرواز کی اجازت ہونی چاہیے ۔ سرکار رسالت مآبؐ نے دنیا خالی کر دی ۔سقیفہ بنو ساعدہ میں زیرِ بحث سوال یہ تھا کہ کاروبارِ حکومت میں سرورِ کائناتؐ کا جانشین کون ہوگا۔ کسی نے تجویز کیا کہ ایک انصار اور دوسرا قریش میں سے ۔ اس پر تاریخِ انسانی کے بہترین حکمرانوں میں سے ایک ، امیر المومنین سیدنا فاروقِ اعظم ؓ نے کہا تھا : اونٹ کی ناک میں دو نکیل نہیں پہنائے جاتے ۔ خبر ہے کہ نارووال کے فرزند کو وزیرِ خارجہ بنایاجا سکتاہے ۔ ایک اخبار نے لکھاہے : بالکل فطری انتخاب گویاکہ Tailor Made۔جی نہیں ، بالکل نہیں ۔ بنا دیجئے، بدلنا پڑے گا ۔خارجہ پالیسی کی نزاکتیں جس عمق اور ظرف کا مطالبہ کرتی ہیں ، وہ یہ صاحب کہاں سے لائیں گے کہ فقط باتوں کے دھنی ہیں ۔پنجابی محاورے کے مطابق : کھونٹے پر بندھے سوا لاکھ کے ۔ دلیل کم اور طولِ بیان زیادہ ۔ سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانہ ٔ ہستی کچھ اصل ہے ، کچھ خواب ہے ، کچھ حسنِ بیاں ہے وہ تھام ہی نہ سکے گا ۔ قرار نہ پائے گا ۔ اندیشہ ہے کہ ہوا میں معلّق ہو کر رہ جائے گا۔ سات سو برس ہوتے ہیں ، حضرت امیر خسرو نے ارشاد کیا تھا : مستی کہ سبو کشد مپندار کو را قدم استوار باشد (یہ جامِ شرابِ عشق پی کر۔ نہ اس کا قدم استوار ہو گا)۔ دو سو برس سے زیادہ ہوتے ہیں ، جب امیر مینائی نے کہا تھا ۔ تندمے اور ایسے کمسن کے لیے ؟ ساقیا ہلکی سی لا ان کے لیے اور اگر قبلۂِ حاجات و خواجۂِ خواجگانِ پوٹھوہار ، جناب چوہدری نثار وزیرِ داخلہ بنا دئیے گئے ؟ ورق تمام ہوا اور خیال باقی ہے ۔ راولپنڈی ڈویژن میں پٹوار اور پولیس کا جو مہین فولادی جال انہوںنے بُن رکھا ہے ، اخبار نویس اب بالاخر اس پر عرق ریزی کر رہے ہیں ۔ مختصر یہ کہ جتنی زیادہ آزادیِٔ عمل ہوتی ہے ، آخر کو جواب دہی بھی اتنی ہی کڑی ۔ اب یہ اہلِ اختیار پہ ہے کہ ریشم بنیں یا کانٹوں کی فصل کاشت فرمائیں ۔مکافاتِ عمل کی دنیا ہے ،اب یہ مکافاتِ عمل کی۔ ع وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا پس تحریر: کپتان کے لیے بھی مضمون واحد ہے۔ حکومت کاری میں کوئی رعایت اسے بھی ہرگز نہ ملے گی۔ ایک ہی جنس کے لیے دو ترازو اور دو طرح کے پاٹ نہیں رکھے جا سکتے۔ (2) گجرات کے سانحے پر قوم دل گرفتہ ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کھلے دل سے ہم سب کی تحسین کے مستحق ہیں کہ مصیبت کے مارے خاندانوں کی کفالت کا انہوں نے اعلان کیا۔ شہبازشریف وزیراعلیٰ ہوتے تو وہ بھی ہن لٹاتے۔ چودھریوں کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنا روپیہ بھی خرچ کر سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved