تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-04-2020

زندہ ٹیکنالوجی

آج کی دنیا ٹیکنالوجی کی ہے ‘جس کی ٹیکنالوجی برتر ہے ‘ وہ فضائوں سے اپنے دشمنوں پہ آگ نازل کر سکتاہے ۔ انڈسٹری میں بہتر ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا پہ راج کر رہے ہیں ۔ کمتر ٹیکنالوجی برتر ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔چاندی کی تار سے کرنٹ اس طرح نہیں گزر سکتا ‘ جس طرح تانبے کی تار سے گزرتا ہے ۔ برتر ٹیکنالوجی زیاں (wastage)کو روکتی ہے ۔
ایک طرف آپ فصل پہ بے انتہا پانی بہاتے ہیں ۔ دوسری طرف آپ ڈرپ اری گیشن سے‘ جہاں پودے کو ضرورت ہو‘ اسے قطرہ قطرہ پانی پہنچاتے ہیں اور90فیصد پانی بچا لیتے ہیں ۔ وسائل جب ضائع ہونا رک جائیں تو بس آپ دولت مند ہو گئے ۔ زمین پر آپ ایک جگہ ایک پودا لگا سکتے ہیں ۔ انسان اب اس طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ عمودی (Vertical)ٹریز میں اوپر نیچے مٹی کی تہیں رکھی جائیں ۔ ان میں بیج لگایا جائے‘انہیں قطرہ قطرہ پانی پلایا جائے ‘ درکار درجہ ٔ حرارت دیا جائے اور بے تحاشا فصل حاصل کر لی جائے۔ یہ سارا کھیل ہے‘ مینجمنٹ کا ۔ 
بات ٹیکنالوجی کی ہو رہی تھی ۔ ایک ٹیکنالوجی گاڑی میں بھی استعمال ہوتی ہے ۔ بی ایم ڈبلیو اور مہران میں کیا فرق ہے ‘ یہ ہم جانتے ہیں‘ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ایک ٹیکنالوجی انسان کے جسم میں بھی استعمال ہوئی ہے اور اس سے زیادہ شاندار ٹیکنالوجی آپ کو کہیں نہیں ملے گی ۔ دنیا کی سب سے شاندار ٹیکنالوجی ہے ‘ ایک زندہ خلیہ ‘ جو کہ انتہائی کم توانائی پر زندہ رہتا اور اپنے تمام تر افعال سر انجام دیتاہے اور وہ بھی زندگی بھر ۔زندہ جسم میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو جسم اپنی اصلاح کی کوشش خود کرتا ہے ۔ 
ایک شخص کی مثال لیں ۔ فرض کریں کہ سڑک پر اچانک اس کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے ۔شدید گرمی میں بری طرح پسینہ بہہ رہا ہے ۔ جاپانی کمپنی کے تخلیق کردہ اس مشینی جانور پہ پچھلے پندرہ برس میں وہ تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔تب یہ اس کے وہم و گمان تک میں نہ تھا کہ ایک دن مردہ بھینس کی طرح اسے اس گاڑی کو ڈھونا ہو گا۔دس بارہ مرتبہ راہگیروں کی منّت سماجت کے بعد‘ دھکّا لگوا کے وہ اسے سٹارٹ کر چکا تھا ‘لیکن ادھر بریک پر پائوں رکھا‘ ادھر انجن بند۔ گاڑی کو سٹارٹ رکھنے اور جلد از جلد منزل پہ پہنچنے کی اس کوشش میں ‘ انجن کا درجۂ حرارت دکھانے والی سوئی پہ اس کی نظر نہ پڑ سکی‘ جو خطرے کے نشان کو چھو رہی تھی۔ آخر اس نے سٹارٹ ہونے سے مکمل طور پر انکار کر دیا ۔ 
آخر دھکا لگواتے ہوئے وہ شخص اسے ایک ورکشاپ لے جاتا ہے۔ طویل جانچ پڑتال کے بعد اس کو یہ '' خوشخبری‘‘سنائی جاتی ہے کہ بلند درجہ ٔ حرارت کی بنا پر انجن کو نقصان پہنچ چکا ہے ۔ نقص بھی بڑا دلچسپ تھا ۔ مکینک بتاتا ہے ''انجن کا درجہ ٔ حرارت جب 98ڈگری پر پہنچتاہے تو اس میں لگا ہوا ایک سنسر گاڑی میں نصب کمپیوٹر کو فوراً یہ اطلاع پہنچاتاہے ۔ کمپیوٹر ایک چھوٹی سی ڈبی کو سگنل بھیجتاہے ‘ جس کا کام پنکھے (فین) کو حرکت دینے کے لیے کرنٹ خارج کرنا ہے ۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ مخصوص ڈبی خراب ہوجانے کی وجہ سے بہت کم کرنٹ خارج کر رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنکھا چلا تو سہی ‘لیکن کم رفتار سے ۔ انجن گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا‘‘۔اس نے بتایا کہ مزید کچھ دیر گاڑی چلتی رہتی تو انجن مکمل طور پرناکارہ ہو جاتا۔ 
گاڑی کے مالک نے کہا : یہ کیسا کمپیوٹر ہے ؟ پنکھا چلنے کے باوجود جب انجن ٹھنڈا نہ ہوا تو چاہیے تو یہ تھا کہ کمپیوٹر اسے بند کر ڈالتایا کم از کم بول کر خطرے کی نشان دہی کرتا۔ اس لیے کہ اب تو جاپان میں بننے والی آٹھ دس لاکھ کی کار دروازہ کھلا رہ جانے کی صورت میں بھی اونچی آواز میں انتباہ کرتی ہے ‘ بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس‘ وہ دوسری گاڑی یا کسی بھی شخص کے زیادہ قریب آجانے اور ٹکرائو کا خطرہ پیدا ہونے پر فوراً آواز نکالنے لگتی ہے ۔ 
مکینک ہنس پڑا اوراسے بتایا کہ وہ پندرہ سال پرانی گاڑی کا مالک ہے۔ جدید گاڑیاں خود میں نصب سنسر ز کی مدد سے ڈرائیور کو مسائل سے آگاہ کرتی ہیں ‘مگر ان کی کارکردگی محدود ہے ۔ کامل ٹیکنالوجی کہیں دیکھنے میں نہیں آتی ؛ البتہ خود زندہ اجسام ‘ انسان اور جانوروں میں موجودمختلف نظام دیکھیے تو آپ حیران رہ جائیں گے ۔سوائے دماغ کے ‘ ایک عضو عام طور پر ایک ہی کام انجام دیتاہے ۔پھیپھڑے ہوا سے آکسیجن لیتے ‘ معدہ خوراک ہضم کرتااور دل خون کی مدد سے آکسیجن اور غذا جسم کے تمام خلیات تک پہنچاتا ہے ۔ حیرت انگیز طور پر اس طرح ایک ایسا شاندار نظام وجود میں آتاہے کہ تمام خلیات مسلسل توانا رہتے ہیں ‘وگرنہ ذرا سی مدّت میں وہ مرنے لگتے ۔ 
ایک کمپیوٹر ہم سب کے سروں میں بھی نصب ہے ‘ انسانی و حیوانی جسم میں جس کی کارکردگی دوسرے سب اعضا سے اعلیٰ ہے ۔ان تمام مشینوں سے بھی ‘ جو کہ انسان نے آج تک ایجاد کی ہیں۔ وہ تمام اعضا سے مسلسل رابطے میں رہتا اور ان کی کارکردگی تو جانچتا ہی ہے ‘ ساتھ ہی ساتھ ان میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں بھی فوراً ہمیں آگاہ کرتاہے ۔
واضح رہے کہ یہ جلد ‘ آنکھ ‘ کان اور دوسرے اعضا میں موجود حسّی خلیوں سے مسلسل معلومات حاصل کرتاہے ۔ یہ حسّی خلیے جدید سنسر ہی کی طرح کام کرتے ہیں ۔ جدید گاڑیوں میں دس بارہ سنسر موجود ہوتے ہیں ‘لیکن ہماری تو پوری جلدہی سر سے پائوں تک ایک سنسر ہے‘ وہ نظام‘ جس کے ذریعے یہ دماغ تک پیغام پہنچاتے ہیں ‘ نہایت ہی دلچسپ و عجیب ہے ۔ 
دماغ نہایت پیچیدہ وائرنگ کے ذریعے جسم کے تمام حصوں سے منسلک ہے۔اوّل یہ ریڑھ کی ہڈی سے جڑا ہوا ہے ‘ پھر ریڑھ کی ہڈی سے نہایت باریک نروز یا تاریں جسم کے ہر حصے میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ انہی تاروں کی مدد سے دماغ جسم کو حرکت میں لاتاہے ۔ مثال کے طور پر ‘ ہمیں اگر اپنا پائوں ہلانا ہے تو دماغ سے ایک برقی پیغام ریڑھ کی ہڈی اور وہاں سے پائو ں میں موجود نروز تک پہنچے گااورپائوں کے مسلز حرکت میں آجائیں گے ۔ 
اسی طرح پائوں میں کانٹا چبھنے کی صورت میں تکلیف کا پیغام پائوں سے ریڑھ کی ہڈی اور پھر وہاں سے دماغ تک پہنچے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں دماغ فوراً ہی اس سے آگا ہو جاتاہے ۔ایک دوست بتاتا ہے کہ ایک دن اسے اپنے پائوں کی دو انگلیاں سن ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ ایسا لگتا تھا کہ گویا وہ پائوں کے ساتھ منسلک ہی نہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ کمر میں بھی درد تھا۔ڈاکٹر نے کہا کہ کمر میں ایک نرو دب گئی ہے اور انگلیوں کے ساتھ اس کا رابطہ منقطع ہے ۔ فرض کیجیے کہ اگر ہماری گاڑی کے پہیّے میں مسئلہ ہوتو کیا انجن میں نصب کمپیوٹر اس سے آگا ہ ہو سکتاہے ؟ اب تو روبوٹس کو بھی جلد پہنائی جا رہی ہے ۔ آپ کو اگر اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کا مشاہدہ کرنا ہے تو اپنے جسم اور دماغ کا جائزہ لیجیے ۔ شاید یہیں سے خالقِ کائنات کی طرف آپ پہلا قدم اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved