دنیا ایک بلائے ناگہانی کا شکار ہے۔ تمام حکومتوں کی توجہ اس آفت سے نمٹنے پر مرکوز ہے۔ آفت اتنی بڑی ہے کہ دنیا بھر میں اسے بڑا مسئلہ اور خطرہ سمجھتے ہوئے سکیورٹی ادارے بھی اس سے نمٹنے کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں۔ کئی ملکوں میں کرفیو کے نفاذ کے لیے فوج سڑکوں پر ہے تو کہیں فوج میڈیکل سامان کی بروقت فراہمی اور راشن پہنچانے کے کام پر مامور ہے۔ امریکی فوج کو کورونا سے نمٹنے میں حکومت کی مدد کے ساتھ ساتھ‘ فوج میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز نے بھی اس قدر الجھا دیا ہے کہ ایشیا پیسیفک میں پینٹاگون کے آپریشنز متاثر ہو رہے ہیں۔ ایشیا پیسیفک میں امریکی مفادات کی نگرانی کے لیے دو طیارہ بردار بحری جہاز تعینات تھے۔ ایک طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس روزویلٹ فلپائن میں تعیناتی کے لیے راستے میں تھا کہ اچانک کورونا کیسز بڑی تعداد میں سامنے آ گئے۔ جہاز کے کمانڈر نے اعلیٰ حکام کو صورتحال سے آگاہ کیا اور ایک سخت وارننگ جاری کی۔ جہاز کے کمانڈر کیپٹن بریٹ کروزیئر کا خط میڈیا میں لیک ہو گیا۔ افواج میں کورونا کی روک تھام کے اقدامات کا بھانڈا پھوٹ گیا اور پینٹاگون حکام کو دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاز کے کمانڈر سے کمان واپس لے لی گئی لیکن اس وقت تک نقصان ہو چکا تھا اور اب نئی یہ خبر یہ ہے کہ کیپٹن بریٹ کروزیئر کو ہٹانے کے احکامات جاری کرنے والے قائم مقام نیول سیکرٹری کو استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے۔
امریکی بحریہ کا دوسرا طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس رونالڈ ریگن جاپان میں تعینات ہے لیکن اس پر بھی کورونا کیسز سامنے آ چکے ہیں جن کی تعداد چھپائی جا رہی ہے۔ ٹوکیو میں امریکی فوجی اڈے پر ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی جا چکی ہے۔ ایک طیارہ بردار جہاز پر کم از کم پانچ ہزار سیلرز تعینات ہوتے ہیں۔ یو ایس ایس روزویلٹ سے ایک ہزار سے زیادہ سیلرز اتار کر گوام میں ہوٹلوں میں بھجوائے گئے ہیں جہاں وہ آئسولیشن میں رکھے گئے ہیں۔ جوہری اور روایتی ہتھیاروں سے لیس ان جنگی جہازوں پر کم از کم ایک ہزار عملے کی موجودگی ضروری ہے، اس طرح سماجی فاصلے کے اصول پر عمل مشکل ہو چکا ہے۔
یہ صورت حال بتانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ خطے میں سکیورٹی صورت حال کو کورونا نے شدید متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں افغان امن معاہدہ بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ امریکا معاہدے کے تحت افواج میں کمی کر رہا ہے لیکن بین الافغان مذاکرات کے بارے میں خدشات درست ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
بین الافغان مذاکرات سے پہلے افغانستان کے صدارتی الیکشن کے نتائج جاری کئے گئے اور اشرف غنی کامیاب قرار پائے۔ ان کے مقابل عبداللہ عبداللہ نے نتائج ماننے سے انکار کیا اور افغان عوام کے نمائندہ وفد کی تشکیل میں رکاوٹ آ گئی۔ ایک ملک میں صدارت کے دو دعویداروں نے امن عمل کو مشکل بنایا۔ اشرف غنی نے بھی امن عمل میں رکاوٹ میں بڑا کردار ادا کیا اور افغان طالبان کے قیدی رہا کرنے سے انکار کیا۔ امریکا‘ جو ہر صورت اس نہ ختم ہونے والی جنگ سے جان چھڑانا چاہتا ہے، اشرف غنی انتظامیہ کو دباؤ میں لانے کے لیے مالی امداد میں کٹوتی پر مجبور ہوا۔ امریکی وزیر خارجہ کورونا کی آفت کے باوجود کابل پہنچے اور کوئی بھی حل نکالنے میں ناکام ہوئے جس پر انہیں امداد کی کٹوتی کا ہتھیار استعمال کرنا پڑا۔
امداد کٹوتی کی دھمکی کے بعد اشرف غنی مذاکراتی وفد کی تشکیل اور قیدیوں کے تبادلے پر آمادہ ہوئے۔ افغان طالبان کا وفد قیدیوں کی رہائی کے تکنیکی معاملات پر بات کرنے کابل پہنچا۔ اب خبر یہ آئی ہے کہ افغان طالبان نے قیدیوں کی رہائی کے لیے ہونے والی بات چیت سے نکلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ افغان طالبان قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی کے عمل میں سب سے پہلے اہم کمانڈروں کی رہائی چاہتے تھے جس پر اشرف غنی انتظامیہ تیار نہیں ہوئی۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ اشرف غنی انتظامیہ قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹ کے لیے کبھی کوئی بہانہ کرتی ہے اور کبھی کوئی، اس لیے طالبان کی تکنیکی ٹیم ان بے مقصد مذاکرات میں شامل نہیں ہو گی۔ اشرف غنی انتظامیہ نے اس اعلان کو طالبان کی غیر سنجیدگی قرار دیا اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے بہترین کوششیں کیں لیکن طالبان اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ افغان طالبان کا مؤقف ہے کہ اگر اشرف غنی انتظامیہ جیلوں میں قید طالبان کمانڈروں کو پہلے مرحلے پر رہا کرتی ہے تو باقی قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی کے وعدے پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ رہا ہونے والے یہ کمانڈرز باقی قیدیوں کی شناخت اور رہائی میں مدد دیں گے۔ اشرف غنی اس مطالبے کو ماننے کو تیار نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ طالبان کمانڈر مختصر عرصے کے لیے چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اس عرصے میں وہ اپنے باقی ساتھیوں کی شناخت اور فہرست کی تیاری میں مدد دیں اور دوبارہ جیلوں میں واپس آ جائیں۔
اب حالت یہ ہے کہ دونوں فریق بات کرنے پر تیار نہیں اور امریکا ہر صورت انخلا چاہتا ہے۔ امریکی ٹی وی این بی سی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کابل کے حالیہ دورے کے دوران امداد کٹوتی کی دھمکی کے علاوہ ایک اور سخت پیغام بھی دیا کہ اگر افغان قوم مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے پر نہ پہنچی تب بھی امریکا مکمل فوجی انخلا پر عمل کرے گا۔ این بی سی کی اس رپورٹ کی امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے تردید سامنے نہیں آئی۔
امریکا اور افغان طالبان کے مابین معاہدے میں امریکی فوجی انخلا بین الافغان مذاکرات سے مشروط نہیں۔ اشرف غنی انتظامیہ کی مالی امداد بند ہونے سے کابل حکومت کسی بھی وقت بکھر سکتی ہے کیونکہ افغانستان کے جی ڈی پی کا چالیس فیصد حصہ امداد پر منحصر ہے۔ اگر امریکا بین الافغان معاہدے سے پہلے مکمل فوجی انخلا پر عمل کرتا ہے تو افغانستان میں ایک اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔
امریکا کو فوجی انخلا کی جلدی کورونا وائرس کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ افغانستان میں امریکی فوجیوں میں کورونا کیسز سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور صورت حال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں امریکا کے نیٹو اتحادی امریکی فوجی انخلا کے شیڈول سے پہلے نکلنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ امریکی اور اتحادی افواج کا تیزی سے انخلا افغانستان میں طاقت کا خلا پیدا کرے گا۔ طاقت کا یہ خلا افغان طالبان کے حوصلے مزید بلند کرسکتا ہے اور وہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مذاکرات کے بجائے حکومت پر براہ راست قبضے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں داعش بھی افغانستان میں کارروائیاں بڑھا سکتی ہے۔ 25 مارچ کو کابل میں سکھ گوردوارہ پر حملہ ان حالات کی جانب کھلا اشارہ ہے۔
بین الافغان مذاکرات میں غیرملکی مصالحت کاروں کی موجودگی بھی کورونا کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ ان حالات میں غیرملکی مصالحت کار آمنے سامنے مذاکرات میں کورونا کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح امریکی معیشت بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ صدر ٹرمپ اگلے صدارتی الیکشن سے پہلے معیشت میں بہتری کے لیے بے چین ہیں اور بار بار کاروبار کی جلد بحالی کے اعلانات کر رہے ہیں۔ وہ امریکی معیشت کو بچانے کی خاطر افغانستان کے لیے مختص بجٹ میں فوری کٹوتی اور فوری فوجی انخلا کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ امریکی افواج کا فوری انخلا طالبان کی امارت اسلامیہ کی بحالی کی راہ ہموار کرنے کی بجائے ایک اور خونریزی کی طرف لے جائے گا۔ افغانستان کے حالات پاکستان پر براہ راست اثرانداز ہوں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کورونا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اندرونی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے۔ چینی سکینڈل نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکمران اندرونی جھگڑوں اور اپنی بقا کی جنگ میں الجھ چکے ہیں اور پاک افغان سرحد پر ایک خطرہ سر اٹھا رہا ہے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ یقینی طور پر ان حالات پر نظر رکھے ہوئے ہو گی لیکن سیاسی قیادت کو بھی اپنے اندرونی جھگڑوں سے وقت نکال کر اس پر دھیان دینا ہوگا۔