انسان کی زندگی نشیب اور فراز سے عبارت ہے۔ اس زندگی میں جہاں کشادگی ہے‘ وہیں پر تنگی بھی ہے‘جہاں آسودگی ہے‘ وہیں پر تکلیفیں بھی ہیں‘ جہاں راحت ہے ‘وہاں مشکلات بھی ہیں‘ جہاں امیری ہے ‘وہاں پر غربت بھی ہے‘ جہاں نفع ہے‘ وہاں پر نقصان بھی ہے‘ اسی طرح جہاں پر صحت ہے‘ وہاں پر بیماری بھی ہے۔ انسان کو زندگی کے ان نشیب اور فراز سے نبردآزما ہونے کیلئے‘ جن اوصاف کی ضرورت ہے‘ ان میں صبر سرفہرست ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرے‘ توجہاں پر اس کا مشکل وقت نسبتاً بہتر اور با وقار انداز میں گزر جاتا ہے ‘وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ اس صبر کی وجہ سے بہت سی رحمتوں کو بھی صبر کرنے والے کے شامل ِ حال فرما دیتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155سے157میں ارشاد ہوا: ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے‘ تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں‘ صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153میں بھی اہل ایمان کو صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو--- جو ایمان لائے ہو ‘مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے‘ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قوموں کی زندگی میں جو نشیب وفراز آتے ہیں‘ ان کے دوران بے صبری کے بہت زیادہ نقصانات ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ میں حضرت طالوت کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دریا سے گزرنے سے قبل اپنے لشکریوں کو دریاسے پانی نہ پینے یا چلو بھر پانی پینے کا حکم دیا۔ اس موقع پر بے صبری کرنے والوں کا کیا انجام ہوا اور صبر کرنے والوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا ان کا بیان سورہ بقرہ کی آیت نمبر 249‘250میں کچھ یوں کیا گیا : ''پھر جب نکلا طالوت (اپنے) لشکروں کے ساتھ اس نے کہا ؛بے شک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے ایک نہر سے۔ پس‘ جو پی لے گا اس سے تو نہیں ہے وہ مجھ سے (میرا ساتھی) اور جو نہ چکھے گا اسے پس بے شک وہ مجھ سے (میرا ساتھی) ہے‘ مگر جو بھر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے‘ پھر انہوں نے پی لیا اس سے سوائے تھوڑے (لوگوں) کے ان میں سے ۔ پھر جب اسے پار کر لیا اس نے اور ان لوگوں نے جو ایمان لائے اس کے ساتھ۔ وہ کہنے لگے؛ کوئی طاقت نہیں‘ ہمیں آج جالوت اور اس کے لشکروں سے (لڑنے کی)۔ ان لوگوں نے جو یقین رکھتے تھے کہ بے شک وہ اللہ سے ملنے والے ہیں ‘کہا ؛بہت سے چھوٹے گروہ غالب آگئے بڑے گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جب وہ مقابلے میں اُترے جالوت اور اس کے لشکروں کے کہنے لگے؛ اے ہمارے رب فیضان کر ہم پر صبر کا اور جما دے ہمارے قدم (میدان جنگ میں) اور ہماری مددفرما کافر قوم پر۔‘‘ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بے صبری کرنے والے جالوت کے لشکر کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو گئے ‘جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کی اُمید رکھنے اور صبرکرنے والے لوگ جالوت کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے اورا نہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے استقامت اور صبر کی دعا مانگی تو نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو لشکرجالوت پر غلبہ عطا فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 251میں ارشاد فرماتے ہیں : ''پھر انہوں نے شکست دی ان کو اللہ کے حکم سے اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا اور دی اس کو اللہ نے بادشاہی اور حکمت اور سکھایا اسے جو کچھ چاہا۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سابقہ اُمتوں کے بہت سے ایسے لوگوں کا ذکر کیا کہ جب انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا پڑا تو انہوں نے اس کے دوران پیش آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اس دوران استقامت کا مظاہرہ کیا۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 146سے 148میں ارشاد ہوا: ''اور کتنے ہی نبی (ایسے گزرے ہیں کہ) جہاد کیا ان کے ساتھ (مل کر) بہت سے اللہ والوں نے۔ پس نہ (تو) انہوں نے ہمت ہاری اور (اُس) پر جو مصائب درپیش ہوئے انہیں اللہ کے راستے میں اور نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ (کافروں سے) دبے اور اللہ پسند کرتا ہے صبر کرنے والوں کو۔ اور نہیں تھا ان کا قول (اس موقع پر)‘ مگر یہ کہ انہوں نے کہا (اے) ہمارے رب! معاف فرما ہمارے گناہوں کو اور ہماری زیادتیوں کو اپنے کام میں اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہماری مدد فرما کافر قو م پر۔ پس‘ دیا انہیں اللہ نے دنیا کا بدلہ اور بہترین اجر آخرت کا (بھی) اور اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے‘ نیکی کرنے والوں سے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا بھی ذکر کیا کہ جب انہوں نے خواب میں اپنے آپ کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری کو چلاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اس خواب کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سامنے رکھا۔ اس واقعہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ صافات کی آیت نمبر102میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اس نے کہا ؛اے میرے بیٹے بے شک میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ بے شک میں ذبح کر رہاہوں ‘تجھے پس تو دیکھ تو لیا خیال کرتا ہے اس نے کہا؛ اے میرے ابا جان آپ کر گزریے جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے‘ آپ عنقریب مجھے ضرور پائیں گے مجھے اگر اللہ نے چاہا صبر کرنے والوں میں سے۔‘‘ آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس آزمائش پر صبر کا راستہ اختیار کیا اور بعد میں آنے والے انسانوں کے لیے ایک نمونہ چھوڑا کہ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ کابھی ذکر کیا ہے کہ آپ نے ایک لمبی بیماری کا مقابلہ صبر اور استقامت کے ساتھ کیا۔ جب ہم نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی صبر کی تلقین بڑی وضاحت سے نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں :۔
1۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا ''دشمن سے لڑنے بھڑنے کی تمنا نہ کرو‘ ہاں! اگر جنگ شروع ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو۔‘‘
2۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ ام الربیع بنت براء رضی اللہ عنہا جو حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! حارثہ کے بارے میں بھی آپ مجھے کچھ بتائیں۔ حارثہ رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے‘ انہیں نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر لگا تھا۔ کہ اگر وہ جنت میں ہے تو صبر کر لوں اور اگر کہیں اور ہے تو اس کے لیے روؤں دھوؤں۔ آپ ﷺنے فرمایا :اے ام حارثہ! جنت کے بہت سے درجے ہیں اور تمہارے بیٹے کو فردوس اعلیٰ میں جگہ ملی ہے۔
3۔صحیح بخاری میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آپﷺنے انصار سے فرمایا کہ میرے بعد تم یہ دیکھو گے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی‘ لیکن تم صبر سے کام لینا‘ تاآنکہ تم حوض پر مجھ سے آ کر ملو۔‘‘ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاپرراضی رہنا چاہیے اور پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرناچاہیے۔
ان ایام میں پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے خوف اور بے یقینی میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اس موقع پر جہاں پر ہمیں علاج معالجے اور احتیاطی تدابیر کی اشد ضرورت ہے‘ وہیں پر صحیح بخاری کی اس حدیث کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے :۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے‘ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
صبر کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ یا تو انسان کی تکلیف کو دور فرما دیتے ہیں یا اگر انسان صبر کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہو جائے تواس کے لیے بہت بڑے اجر کو تیار فرما دیتے ہیں۔ سورہ زُمر کی آیت نمبر 10اللہ تبارک وتعالیٰ صبر کے اجر کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں : ''کہہ دیجئے اے میرے بندو جوایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو‘ (اُن لوگوں) کے لیے جنہوں نے اس دنیا میں اچھے کام کیے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین وسیع ہے بے شک صبر کرنے والوں کو ہی ان کا اجر پورا پورا دیا جائے گا بغیر حساب کے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دُعاہے کہ وہ ہمیں زندگی کے تمام نشیب وفراز کے دوران اور بالخصوص ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین )