تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     28-05-2013

جمہوریت کی بازیافت

ہمارے ملک میں جمہوریت نے ایک بار پھر انتقام لے لیا ہے۔ اس سے پہلے 2008ء میں سول سوسائٹی اور عدلیہ کی بھرپور جدوجہد کے بعد ایک آمر کی آٹھ سالہ حکمرانی کا خاتمہ اور جمہوری دور کا آغاز ہوا؛ لیکن جو حکومت برسراقتدار آئی وہ جمہوری تقاضوں کے مطابق عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے نہیں تھی بلکہ یہ غیرملکی ثالثی کے ذریعے طے کیے گئے این آراو کی بنیاد پر قائم ہوئی جو ملک کو آٹھ سالہ آمریت سے حقیقی جمہوری دور سے آشنا کرنے کی آرزورکھتی تھی نہ صلاحیت، یہ جمہوریت کا غلط سمت کی جانب ایک فائر تھا۔ این آراو زدہ پانچ سالہ سول حکمرانی کے دوران ملک میں جمہوریت نے جڑیں پکڑیں نہ عوام کو کوئی سماجی اور اقتصادی تبدیلی دیکھنے کوملی ۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے آپ کو ایک اور سنگین بحران میں گھراہوا پایا اور انہیں ملکی تاریخ کی بدترین حکومت کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک بہت بڑے سیاسی بحران اور اقتصادی بے یقینی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کی قلت، مسلسل تخریب کاری اور بدامنی کے باعث عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ یہ دُزدکاری(Kleptocracy) کی بدترین شکل تھی جس میں حکمران اپنی ذاتی دولت اور چند مصاحبوں کی سیاسی طاقت میں اضافہ کرنے میں مصروف رہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ اس بار جمہوریت نے صحیح معنوں میں انتقام لیا؛ پورے حکمران سیاسی طبقے کو نکال باہر کردیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد والی پیپلزپارٹی سیاسی منظر سے تقریبا غائب ہوچکی ہے۔ گیارہ مئی کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو شاندار فتح اور مقبول عام مینڈیٹ ملا۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں ایک سیاسی بچہ بھی جنم لے کر ہمارے سیاسی جھُولے میں آگیا جس میں ملک کی آئندہ سیاست میں بھرپور کردار ادا کرنے کی استعداد موجود ہے۔ الیکشن کے بعد پولنگ میں بدعنوانی کی شکایات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بالا دستی واضح ہے۔ یہی جماعت 1999ء میں بھی برسراقتدار تھی کہ جنرل مشرف نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ ملکی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر نئی حکومت عنان اقتدار سنبھالنے جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس سے قبل دوبار حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ اپنی مدتِ اقتدار مکمل نہ کرسکی۔ اس کی قیادت تجربہ کار اور بالغ نظر ہے۔ وہ قوم کو ایک واضح انتخابی منشور دے چکی ہے۔ اب اسے نئے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسے آزادی کے بعد مشکل ترین حالات میں قوم کی قیادت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اسے جو فریضہ ادا کرنا ہے، وہ آسان نہیں۔ اس وقت ملک کو جن گوناگوں مسائل کا سامنا ہے اور یہ جس طرح کے اندرونی اور بیرونی سنگین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، ان پر قابو پانا کسی بھی نومنتخب حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ آج ہمارا ملک دنیا کی راڈار سکرین پر کئی برائیوں کی بناپر نمایاں ہے ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہماری سب سے بڑی پہچان بن چکی ہے۔ تشدد،بے تحاشاکرپشن اور بدترین حکمرانی کے اعتبار سے ہمارا ملک دنیا کے انتہائی بدنام ملکوں میں شمار ہوتا ہے ۔’’کشکول بردار‘‘ ہونے کا لقب ہمارے لیے اس سے بھی بدتر اور شرمناک ہے۔ ہماری معیشت کمزور ہونے کے ساتھ ناقابل اعتبار بھی بن چکی ہے؛ دنیا کے قرض دینے اور سرمایہ کاری کرنے والے اداروں اور ممالک میں ہماری ساکھ پستیوں کو چھورہی ہے۔ لوٹ مار اور چوری بازاری کرنے والوں، منافع خوروں اور پیشہ ور قاتلوں کو پوری دنیا میں ہمارے ملک سے زیادہ محفوظ ٹھکانہ اور کہیں نہیں ملتا۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نادہندگان کے قرضے معاف کرنا، جعلی ڈگری والوں کو برداشت کرنا اور قومی خزانہ لوٹنے والے اعلیٰ عہدیداروں کو ہاتھ تک نہ لگانا ایک طرح سے مسلمہ قاعدہ اور عملی روایت بن چکی ہے۔ ان حالات میں ہمیں لازمی طورپر پبلک سیکٹر سے میرٹ کی بنیاد پر چُنی ہوئی ایک پیشہ ور اور مضبوط اقتصادی ٹیم درکار ہے۔ وفاق اور صوبوں میں چھوٹی مگرباصلاحیت کابینہ بنانے کی ضرورت ہے جو اقتصادی مسائل، توانائی کے بحران اور امن وامان کی خوفناک صورتحال سے مؤثر طورپر نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ہمارے حکمرانوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے مسائل اندرونی ہیں اور ان کا حل بھی ملک کے اندرموجود ہے، ہمیں اس مقصد کے لیے ریاض، دبئی ، لندن یا واشنگٹن جانے کی ضرورت نہیں۔ مسائل کے اندرونی علاج میں حکومتی اخراجات اور قرض لینے میں خاطرہ خواہ کمی، افراط زر پر قابو پانا، جی ڈی پی کے اہداف حقیقت پسندانہ بنیاد پر مقرر کرنا، بڑے پیمانے کی معیشت میں توازن کی بحالی اور تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے غیرضروری اور پرتعیش اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ خودانحصاری، سادگی اور قناعت کو ہماری قومی زندگی کے شعبے کا بنیادی اصول ہونا چاہیے۔ قرضے اثاثہ نہیں ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ملکی مصنوعات اور افرادی قوت کے استعمال سے غیرملکی امداد اور قرضے حاصل کرنے کا سلسلہ بند کردینا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اپنی زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھانا ہوگی، زوال پذیر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بحال کرنا ہوگا اور اپنی معدنی دولت کو کام میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آزاد اور شفاف احتساب کے ذریعے معاشرے کے ہرطبقے، حکومت کی ہرسطح اور اس کے اداروں سے کرپشن کو مکمل طورپر ختم کرنا ہوگا۔ وی آئی پی کلچر بشمول پرتعیش مراعات، منتخب اور غیرمنتخب عہدیداروں اور فوجیوں کو لگژری گاڑیوں کی فراہمی بند کرنا ہو گی ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے اقتصادی تنوع اور سماجی وژن کے لیے اچھی شہرت رکھتی ہے، لہٰذا اب اسے ملک بھر میں موٹرویز، جدید شاہراہوں اور ریلوے لائن کا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے اور بڑی شاہراہوں کے قریب انڈسٹریل زون قائم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔ عوامی بہبود کے بڑے منصوبوں کا فائدہ عام آدمی تک پہنچانے کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ مثال کے طورپر کراچی، لاہور کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو سب وے (یامیٹرو) سے ملانے ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت اور تعلیم کی سہولیات، بجلی کی فراہمی اور دیہی علاقوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری کو اوّلیت دینی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے قلیل ،وسط اور طویل مدتی مفصل منصوبہ موجود ہے۔ اس میں بجلی کی پیداوار میں مرحلہ وار اضافہ، موثر نظم وضبط کے تحت بجلی کا استعمال اور بچت کی پالیسی شامل ہے۔ عوام کو باربار طویل لوڈشیڈنگ کی مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ گورننس سے متعلق ایشو ہے جسے توانائی کے شعبے کی مرکزیت ختم کرکے بجلی کی پیداوار اور سپلائی کو قابل عمل چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی ، جنگجوئیت، تشدد اور بنیادپرستی پر قابو پانے اور امن ، برداشت ، مفاہمت، احساس ذمہ داری اور جدیدیت کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ بیرونی محاذ پر ہمیں قائداعظم ؒ کے وژن کے مطابق آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔سب کے ساتھ پرامن تعلقات ، دشمنی کسی سے نہیں ؛بین الریاست تعلقات سے متعلق عالمی سطح پر مسلمہ اصولوں کی پاسداری جن کا مقصد اہم قومی اور سلامتی کے مفادات کا تحفظ ہو۔ آخری تجزیے میں ہمارے مسائل کی نوعیت بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ تمام بیرونی مسائل جن کا ہمیں سامنا ہے ان کا خارجہ پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہماری اندرونی ناکامیوں کا شاخسانہ ہیں اور انہی کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی کے آپشن دبائو میں رہتے ہیں۔ اس نازک وقت کا اہم ترین چیلنج یہ نہیں کہ ہمیں دوسروں کے مفادات کے لیے کیا کرنا ہے بلکہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے قومی مفادات کی خاطر کیا کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو اپنا اثاثہ بنانے کی ضرورت ہے، ذمہ داری بنانے کی نہیں ۔ ہمیں اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری، آزادیٔ کار اور قومی وقار کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی ہماری نئی قیادت کا امتحان (لٹمس ٹیسٹ) ہوگا۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved