علم کی روشنی کے سبب راستوں کا سراغ‘ کائنات کے پنہائیوں میں پوشیدہ راز اور سمندر کی تہوں سے لے کر آسمانوں کی لا متناہی دنیائوں تک کافی کچھ بنی آدم کے احاطۂ قدرت میں ہیں۔ ہم انسان زندگی کے ہر میدان میں بہت فاصلے طے کر چکے‘ بہت کچھ پا لیا‘ مگر یہ سب کچھ نہیں۔ معلوم ہی نہیں کہ یہ ساری دریافتیں‘ تلاش اور ایجادات (ہزاروں‘ لاکھوں بلکہ ان گنت‘ جو ہم چند صدیوں سے دیکھ رہے ہیں) جن کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں اور جن کے قالب میں ہم زندگی کو ڈھالتے بھی جا رہے ہیں‘ ابتلا کی کون سی منزل ہے۔ جب سے تاریخ کو رقم کرنے کی روایت پڑی ہے‘ ہر دور میں انسان کی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی لڑائی قدرت کی بے پناہ طاقتوں کے خلاف بھی رہی ہے۔ قدیم اور جدید تاریخ میں جب لوگ جنوں کی صورت اپنے ملک سے نکل کر کہیں دور دراز کے علاقوں میں بسنے کی غرض سے خیمہ زن ہوئے تو ان کی ایک بہت بڑی تعداد بھوک‘ بیماریوں‘ موسموں کے تغیر اور طوفانوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئی۔ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ جدھر کا رختِ سفر باندھے ہوئے ہیں‘ وہاں کا موسم کیسا ہو گا‘ وہاں خورونوش کا انتظام کیا ہو گا اور کیسی بیماریوں کے وہ شکار ہوں گے۔ نئی دنیا‘ آج کا امریکہ کا بر اعظم پندرہویں صدی کے آخری سالوں میں دریافت ہوا تھا۔ اگلی ایک صدی میں پہلے سپین اور پھر انگلستان سے اور دوسرے یورپی ممالک سے نوجوان مذہبی اور معاشی وجوہ کی بنا پر تمام تر خطرات مول لے کر نئی دنیا میں بسنے کے لیے کشتیوں میں سوار ہو کر سمندر پار جانے لگے۔ اس کے بعد جو کچھ وہاں کی مقامی آبادیوں کے ساتھ ہوا‘ وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب اور ایک المناک کہانی ہے۔ وہاں نئے لوگ کیا بسے‘ وسیع پیمانے پر نسل کشی شروع ہو گئی۔ نئے آنے والوں نے وہاں کے مقامیوں کو تہ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ اس قدر کہ آبائی قبائل‘ ان کی ریاستیں اور تہذیب‘ سب راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔
معافی چاہتا ہوں‘ بات ذرا آگے نکل گئی۔ آبائی لوگوں کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ نئے لوگوں کی آمد کی وجہ سے نئی بیماریوں کا شکار ہوا۔ یہ وہ بیماریاں تھیں‘ جو نئے آنے والے اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ نئی نسل کے آباد ہونے سے کیسی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں‘ اور جو بیماریاں ان کو یورپ میں لاحق تھیں‘ کیسے اور کیونکر آبائی لوگوں کو منتقل ہو جائیں گی۔ نسل کشی کی مہم میں طاعون کو دانستہ طور پر بھی پھیلایا گیا۔ مقصد بقائے ذات سے کہیں زیادہ سلطنت کشی تھی۔ اس کے لیے زمینوں‘ جنگلات‘ پانی اور جانوروں پر قبضہ جمانا تھا۔ آگے جا کر ہونے والی ہزاروں بلکہ ان گنت لڑائیوں میں پلڑا ہمیشہ سفید فام آبادیوں کا بھاری رہا تھا‘ لیکن جس جاں فشانی‘ خلوص اور ایثار کے ساتھ آبائی امریکیوں نے اپنی زمین اور عزت کا دفاع کیا‘ تاریخ میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ اس حوالے سے تاریخ آپ کے سامنے ہے۔
اگرچہ سفید فاموں کی فتوحات کا سلسلہ امریکہ کے مشرقی ساحلوں سے شروع ہوا اور مغربی ساحل تک دو صدیوں میں پہنچا اور ان لڑائیوں میں ان کے بہت سے لوگ ہلاک ہوئے‘ لیکن بدلتے ہوئے موسم ان کے سب سے بڑے دشمن نکلے‘ جن کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ بہت عرصہ لگا اور بہت سے لوگ لقمۂ اجل بنے کہ بدلتے ہوئے موسموں کے اثرات سے محفوظ رہنے کے طور طریقے جان سکیں۔ آج کل مغربی دنیا کا کوئی چینل دیکھیں‘ ہر ساعت کم از کم دو دفعہ آنے والے کل ‘ اگلے دنوں اور آئندہ ہفتوں کے موسم اور اٹھتے ہوئے طوفانون سے کئی دن پہلے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ کیا یہ ماضی میں موسموں سے شدید طور پر متاثر رہنے کے خوف کا نتیجہ ہے؟ گزشتہ چند دہائیوں میں ہم نے دیکھا کہ آئندہ موسم کے بارے میں پیش گوئی زیادہ بہتر اور زیادہ قابل اعتبار ہوتی چلی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے موسم کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلومات اور اعداد و شمار اکٹھے کے معاملے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ وطن عزیز کے موسم لگے بندھے معلوم ہوتے ہیں۔ تغیر زیادہ نہیں ہے‘ اگر ہے بھی تو محدود‘ سوائے حالیہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے‘ جو دنیا کے ہر خطے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ محوِ حیرت ہوں کہ جدید علوم نے کیسے انسان کے لیے ممکن بنا دیا ہے کہ خلا میں مشینیں ٹھہرا کر دنیا کو ایک گھومتی گیند کی صورت مسلسل دیکھتا رہے۔ آگ کہاں لگی ہے‘ طوفان کہاں سے اٹھ رہا ہے‘ بارش کہاں برسے گی‘ ہوائوں کا رخ کیا ہو گا؟ دورِ جدید کا انسان ہر جگہ موسم کے حال کے مطابق دن بھر کے کاموں کے لیے اپنا شیڈول ترتیب دیتا ہے۔ موسم کے حوالے سے معلومات نے اس قدر وسعت اختیار کر لی ہے کہ پاکستان کے دیہات میں رہنے والے کاشت کار بھی اب کھاد ڈالنے‘ اور فصلوں کو پانی دینے کے بارے میں فیصلہ موسم کی خبروں کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کرتے ہیں۔ علم کی روشنی سب کو راستہ دکھا رہی ہے اور اس کی شمعوں اور روشنیوں میں ہر دور میں اضافہ ہوتا چلا آیا ہے۔
اپنی بات کی تمہید ذرا لمبی کر دی‘ مگر مقصد یہ تھا کہ قدرتی آفات‘ ماضی میں ہوں یا آج کے دور میں‘ کبھی بھی اطلاع دے کر وارد نہیں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کبھی بھی ان کے لیے تیار نہ تھا‘ نہ ہی اب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چند صدیاں پہلے سائنسی علم اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ آج ہم جو اپنے ارد گرد سے لے کر عرب کے ریگستانوں اور ملائیشیا کے جنگلات تک میں جدید شہروں آباد اور فلک بوس عمارتوں کے جھنڈ دیکھتے ہیں ‘ آسمانوں میں اڑتے ہوئے ہزاروں جہاز‘ جو آج کل کھڑے ہوئے ہوا کے ہچکولے کھا رہے ہیں‘ اب اتنے عام معلوم ہوتے ہیں کہ نگاہِ حیرت ادھر جاتی ہی نہیں۔ یہ تو معمولی باتیں ہیں‘ اپنے ہاتھ میں پکڑے یا قریب پڑے موبائل فون کو دیکھیں کہ کس طرح چند دقیقوں میں دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے شخص سے بات کر سکتے ہیں‘ اس پر کوئی اخبار پڑھ سکتے ہیں یا کوئی اور معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ معمولی باتیں نہیں ہیں‘ لیکن ہمارے روزمرہ کا حصہ بن کر معمولی ہو چکی ہیں۔
آج پھر انسان کو ایک نا گہانی آفت کا سامنا ہے۔ یہ سطور لکھنے تک نوے ہزار سے زائد افراد اس جہانِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں‘ لاکھوں قرنطینہ میں ہیں یا پھر شفا خانوں میں زیرِ علاج ہیں۔ میری گزارش ہے کہ موجودہ حالات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ علاج بھی دریافت کر لیا جائے گا اور بچائو کے لیے ویکسین بھی سامنے آ جائے گی۔ دورِ جدید کے انسان کو ہمیشہ پُرانی اور مروجہ اخلاقیات کے پیمانوں سے دیکھنے کا رواج ہمارے سماج میں ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا کیا باتیں اس کورونا وائرس کے حوالے سے گھڑی جا رہی ہیں اور کیسے مایوس سازشی ذہن ایسے کاموں میں ملوث نظر آتے ہیں۔ تعصب ہو تو علم پردے میں رہتا ہے۔ اس کی روشنی سے کوئی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ آج کی دنیا کے ہر کونے میں معالج‘ محقق‘ جامعات‘ دوائی سازکمپنیاں ‘ سائنس دان اور سیاست دان بھی ایک ہی دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جہاں بھی پہلے روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی‘ وہیں سب کے چہرے روشن ہوں گے‘ سب فیض یاب ہوں گے‘ ہر دکھی انسان اور ہر ویران دل شاد اور آباد ہو گا۔ آج کا صرف انسان نہیں‘ طرزِ حیات‘ کھیتوں کی ہریالی سے لے کر گھروں میں دبکے بیٹھے ناکہ بندی کا شکار انسان علم کے ثمرات سے ہی آسودہ ہے۔
آج پھر انسان کو ایک نا گہانی آفت کا سامنا ہے۔ یہ سطور لکھنے تک نوے ہزار سے زائد افراد اس جہانِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں‘ لاکھوں قرنطینہ میں ہیں یا پھر شفا خانوں میں زیرِ علاج ہیں۔ میری گزارش ہے کہ موجودہ حالات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔