جسٹس مولوی مشتاق حسین خاص ڈھب اور خاص طرح کے آدمی تھے۔ مخالفین (اور ناقدین) اسے ان کی ذاتی انا‘ ضد اور ہٹ دھرمی قرار دیتے جبکہ ان کے دوستوں (اور مداحوں) کے خیال میں مولوی صاحب کے اس رویے کا سبب عدلیہ کے احترام ‘ وقار اور ایک جج کے مقام و مرتبے کے حوالے سے ان کی حساسیت تھی۔ کیا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر حلف برداری کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار ان کی اسی حساسیت پر مبنی تھا یا اس کا سبب گورنر جسٹس اسلم ریاض حسین سے ان کی ''ذاتی پرخاش‘‘ تھی؟
جنرل ضیا الحق کا مارشل لاء اپنے پیش رو دونوں مارشل لائوں سے مختلف تھا (ایوب خاں کا اکتوبر 1958ء کا مارشل لا ء اور جنرل یحییٰ خاں کا مارچ 1969ء کا مارشل لاء) 5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء میں جنرل ضیا الحق نے 1973ء کے آئین کی تنسیخ کا اعلان کیا‘ نہ فضل الٰہی چودھری کو برطرف کر کے صدر مملکت کا منصب سنبھالا۔ 7 مارچ 1977ء کے انتخابات والی قومی اسمبلی کا ''دھاندلی کی پیداوار‘‘ ہونا‘‘ خود بھٹو صاحب تسلیم کر چکے تھے‘ جس کے بعد ہی نئے انتخابات کے لیے پاکستان قومی اتحاد (PNA) کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا‘لیکن نئے انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کے میکنزم پرپانچ ہفتوں کے مذاکرات میں بھی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ (اور اس کا نتیجہ 5 جولائی کے ٹیک اوور کی صورت میں نکلا) چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی خواہش (اور درخواست) پر فضل الٰہی چودھری صدر مملکت کے منصب پر متمکن رہے۔ صوبوں میں اس ''پریکٹس‘‘ پر عمل کرتے ہوئے‘ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو گورنر بنا دیا گیا (چیف جسٹس اسلم ریاض حسین پنجاب کے گورنر بن گئے)۔ آئین میں پانچو یں ترمیم کے نتیجے میں چار سالہ مدت مکمل کر کے چیف جسٹس سردار اقبال ریٹائر ہو گئے‘ تو مولوی مشتاق حسین سینیارٹی کی بنیاد پر ایک بار پھر اس منصب کے ''امیدوار‘‘ تھے‘ لیکن اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار ان کا نام سننے کے بھی روادار نہ تھے۔ ان کی سفارش پر بھٹو صاحب نے جسٹس اسلم ریاض حسین کو چیف جسٹس بنا دیا‘ جو سینیارٹی میں آٹھویں نمبر پر تھے۔ اسلم ریاض حسین اور یحییٰ بختیار نے لندن سے اکٹھے بیرسٹری کی تھی اور تب سے دونوں میں گہری دوستی تھی۔ 5 جولائی کے ٹیک اوور کے بعد چیف جسٹس اسلم ریاض حسین گورنر بن گئے تو مولوی صاحب کی پرانی مراد بر آئی اور وہ سینئر موسٹ ہونے کے باعث چیف جسٹس نامزد ہو گئے‘ لیکن انہوں نے حلف برداری کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ خود گورنر صاحب کو اس کارِخیر کے لیے لاہور ہائی کورٹ آنا پڑا۔
بھٹو صاحب کے لیے سزائے موت کے فیصلے کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں ایک اور بہت اہم کیس زیر سماعت تھا‘ یہ ائیر مارشل اصغر خاں کی رٹ پٹیشن تھی‘ اور اس بینچ کی صدارت بھی خود چیف جسٹس کر رہے تھے۔ سماعت جوں جوں آگے بڑھ رہی تھی‘ فاضل بینچ کا ذہن بھی سامنے آتا جا رہا تھا۔ یہ گمان غالب تھا کہ اصغر خاں کی پٹیشن منظور کر لی جائے گی (جس سے مارشل لا ء کی چولیں ہل جاتیں) لیکن اس سے پہلے کہ فیصلہ آتا‘ مولوی صاحب کو ''پروموٹ‘‘ کر کے سپریم کورٹ بھیج دیا گیا (اور یوں لاہور ہائی کورٹ کا وہ بینچ ٹوٹ گیا) 1981ء کا پی سی او مولوی صاحب کی اصول پسندی کا ایک اہم ٹیسٹ ہوتا‘ کیا چیف جسٹس انوار الحق ‘ جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی طرح وہ بھی انکار کر دیتے یا سر جھکا کے'' داخلِ مے خانہ‘‘ ہو جاتے؟ لیکن وہ اس آزمائش سے یوں بچ نکلے کہ انہیں حلف برداری کی دعوت ہی نہ دی گئی۔
جیسا کہ مرحوم جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت ''اپنا گریباں چاک‘‘ میں لکھا ''بھٹو صاحب کا زمانہ اعلیٰ عدلیہ کے لیے اچھا نہ تھا۔ اسی دور میں بھٹو اور عدلیہ کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری ہونا شروع ہوئی جو بالآخر بھٹو کے عبرت ناک انجام پر جا کر ختم ہوئی‘‘۔ (بھٹو صاحب کے اقتدار کا آغاز ہی تھا‘ جب سانگھڑ کے سیشن جج کو عدالت میں ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا گیا)۔ مرحوم جسٹس نے اپنی خود نوشت میں کراچی میں منعقدہ ایک جیورسٹ کانفرنس میں بھٹو صاحب کی تقریر کا ذکر بھی کیا ہے جس میں انہوں نے غیر ملکی مہمانوں‘ وکلا اور جج صاحبان کی موجودگی میں ججوں کو ''مائی لارڈیز‘ مائی لارڈیز‘‘ کہہ کر ان کا ایسا مذاق اڑایا اور ایسی تذلیل کی جس کا وہاں موجود چیف جسٹس حمود الرحمن نے بہت برا منایا اور اس کا سخت نوٹس بھی لیا...
مستقل چیف جسٹس کی بجائے ''قائمقام‘‘ چیف جسٹس بنانے کی حکمت عملی بھی عدلیہ کو دبائو میں رکھنے اور اپنی پسند کے فیصلہ لینے کا شاخسانہ تھی۔ ہمیں یہاں ممتاز قانون دان اکرم شیخ سے اپنا ایک انٹرویو یاد آیا‘ جس کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب ناصر اسلم زاہد اس حکمت عملی کا پہلا شکار تھے۔ انہیں 15 مئی 1994ء کو شریعت کورٹ بھیج کر ان کی جگہ قائمقام چیف جسٹس کا تقرر کر دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس میاں محبوب احمد سے من پسند ''سفارشات‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ا نہوں نے کسی حد تک اکاموڈیٹ بھی کیا‘ لیکن بد قسمتی سے تھرڈ ورلڈ کے اکثر و بیشتر حکمران ''اکاموڈیشن‘‘ سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ان کا تقاضا تو مکمل اتباع کا ہوتا ہے؛ چنانچہ جسٹس محبوب احمد بھی شریعت کورٹ کی نذر ہو گئے۔ سید نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد 18 اپریل 1994ء کو جناب سعدسعودجان کو سپریم کورٹ کا قائمقام چیف جسٹس بنایا گیا۔ وزیراعظم صاحبہ کا تقاضا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر شاہد حامد اور ایس ایم مسعود کے براہ راست تقرر سے اتفاق کر لیں‘ اس کے جواب میں سعد سعود جان نے لکھا کہ سپریم کورٹ میں براہِ راست تقرر کے لیے جناب منظور قادر اور طفیل علی عبدالرحمن جیسی حکمت اور مہارت ناگزیر ہے۔ حکومت کو یہ خط بہت ناگوار گزرا۔ چند روز بعد سید سجاد علی شاہ کو سینیارٹی کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ اس اقدام سے سعود جان کے علاوہ جسٹس عبدالقدیر اور جسٹس اجمل میاں بھی متاثر ہوئے ...(یہ الگ بات کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا ججز کیس میں فیصلہ وزیراعظم صاحبہ کو سخت ناگوار گزرا۔ الجہاد ٹرسٹ کے وہاب الخیری کی پٹیشن پر اس فیصلے میں چیف جسٹس کے لیے سینیارٹی کا اصول لازم قرار پایا...) اس فیصلے کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ میں کتنی ہی تقرریاں غیر قانونی قرار پائیں اور وزیراعظم صاحبہ کے پسندیدہ بعض ججوں کو گھر جانا پڑا...
چیف جسٹس (ر) سید سجاد علی شاہ کی خود نوشت ''Law Courts in a Glass House‘‘ میں کئی ''دلچسپ‘‘ واقعات کا بیان بھی ہے۔ ان میں پرائم منسٹر ہائوس کے ایک عشائیے میں جسٹس نسیم حسن شاہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا واقعہ بھی ہے۔
25 اکتوبر 1989ء کو سپریم کورٹ کی نئی بلڈنگ کے سنگِ بنیاد کی تقریب کے بعد‘ پرائم منسٹر ہائوس میں عشائیے کی تقریب تھی... مین ٹیبل پر وزیراعظم صاحبہ کے ساتھ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے ساتھ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی نشستوں کا اہتمام تھا۔ ان میں سپریم کورٹ کے سینئر جج کے طور پرسید نسیم حسن شاہ کی نشست بھی تھی‘ لیکن محترمہ کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس ٹیبل پر وہ صاحب بھی موجود ہوں جنہوں نے ان کے والدِ محترم کی سزائے موت کے فیصلے کی توثیق کی تھی؛ چنانچہ نسیم حسن شاہ کی نشست وہاں سے ہٹا دی گئی۔ اس بات کو بہت سے لوگوں نے محسوس کیا لیکن شاہ صاحب نے اسے مسئلہ نہ بنایا‘ وہ ہنسی خوشی دوسری ٹیبل پر چلے گئے اور حسبِ عادت خوش گپیاں کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس نشست پر شاہ صاحب کی پشت وزیراعظم صاحبہ کی طرف تھی۔