کورونا وائرس ایکٹ 2020 ء کے تحت‘ مشتبہ ہونے پرآپ کو نظر بند کیا جا سکے گا‘آپ کو اٹھا کرکسی بھی جگہ منتقل کرتے ہوئے نا معلوم مدت تک سب سے علیحدہ رکھا جا سکتا ہے اور اس میں یہ تمیز نہیں ہو گی کہ کورونا وائرس کے مشتبہ مریض ہونے کی بنیاد پر خاندان سے علیحدہ پابند کیا جانے والا شخص بالغ ہے یا نابالغ ۔ اس ایکٹ کے تحت حکومت برطانیہ کی متعلقہ اتھارٹی یہ حق رکھتی ہے کہ وہ جب چاہے‘ آپ کے جسم سے بائیولوجیکل نمونے حاصل کر سکے گی ‘اگر آپ نے اس سلسلے میں تعاون کرنے سے گریز کیا تو متعلقہ اتھارٹی یہ نمونے زبردستی بھی لے سکے گی ۔اس ایکٹ کے مطابق‘ آپ کا جسم اب اپنا نہیں رہا‘ بلکہ ریا ست ِبرطانیہ کی ملکیت قرار پا چکا‘ اگر آپ کو کسی جگہ پر سب سے علیحدہ رکھا جائے گا ‘تو اس کیخلاف آپ کے پاس کسی قسم کا قانونی اختیار حاصل نہیں ہو گا اور نہ ہی اسے کسی مجازعدالت میں چیلنج کر سکیں گے ۔
واضح رہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے نافذ کئے گئے مینٹل ہیلتھ ایکٹ کو مادرِ جمہوریت کی پارلیمنٹ نے25 مارچ کو منظور کیا اور فوری طور پر ملکۂ برطانیہ کی مہر ثبت ہوجانے کے بعد اس قانون کو '' کورونا وائرس مینٹل ہیلتھ ایکٹ2020ء‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے ۔ اس ایکٹ کے تحت ریاست برطانیہ کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ برطانیہ میں موجود کسی بھی فرد یا خاندان کی ذاتی یا مذہبی خواہشات اور رسومات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی موت کی صورت میں لاش کو جلانے کیلئے مکمل طور پر با اختیار ہو گی۔ یہ قانون ‘جسے کورونا وائرس مینٹل ہیلتھ ایکٹ 2020ء کا نام دیا گیا ہے‘ دو سال تک نا فذالعمل رہے گا‘ لیکن ہر چھ ماہ بعد اس ایکٹ کا جائزہ لیا جانا ضروری ہو گا۔
پاکستان جیسا ملک جہاں ایک انتہائی نرم قسم کے لاک ڈائون کے خلاف اس شدت کا احتجاج کیا جا رہا ہے کہ لگتا ہے‘ نہ جانے حکومت وقت نے کون سی آفت ڈھا دی ہے۔ ایک جانب مادر ِجمہوریت کا یہ ایکٹ ہے تو اس کے مقابلے میں پاکستان میں کچھ ایسے گروپ اور گروہ آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں کہ جیسے وزیر اعظم عمران خان نے نہ جانے کیا ظلم کر دیا ہے۔ خود کو نقاد ِمیڈیاقرار دینے والے چند دانشور وزیر اعظم عمران خان کو آمرانہ خطابات سے نوازنے میں دن رات ایک کئے جا رہے ہیں تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آقا سے جو اس وقت خیر سے لندن میں مقیم ہیں‘ رابطہ کر کے پتا کر لیں کہ کسی برطانوی کو اس ایکٹ کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت اور جرأت ہو رہی ہے؟ سوائے اس کے کہ وہ دو لاکھ دستخطوں کی گھروں میں بیٹھے پٹیشن تیار کرنے میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں ۔آزادیٔ اظہار اور جمہوریت کا سبق دینے والی ہماری اپوزیشن یہ کہتے نہیں تھک رہی کہ پاکستان میں موجودہ حکومت ‘جمہوریت کا قتل عام کر رہی ہے ‘ ناجائز پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کی تمام پالیسیاں آمرانہ ہیں‘ لیکن وہ ملک جہاں جمہوریت نے جنم لینے کے بعد دنیا بھر میں اپنے محکموںکو مختلف شکلوں اور طریقوں سے استوار کیا ‘وہاں کورونا وائرس کے خلاف جدو جہد کرنے ‘اس پر قابو پانے‘ اپنی عوام کو اس کے مہلک اثرات سے بچانے کیلئے نافذ کئے گئے قانون میں یہ شق بھی شامل ہے کہ برطانوی شہری کی موت کی صورت میں اس کی آخری رسومات بھی آپ کی خواہش‘ وصیت یا مذہبی طور طریقوں پر بھی نہیں ہو سکے گی۔ انتظامیہ جب چاہے گی ‘کسی بھی جگہ سے آپ کو اٹھا سکتی ہے‘ تاکہ آپ کے جسم کی بائیولوجیکل سرجری کی جا سکے‘ یعنی اب آپ کا جسم آپ کی مرضی نہیں‘ بلکہ ریا ست برطانیہ کی مرضی بن چکا ۔
کورونا وائرس مینٹل ہیلتھ ایکٹ2020ء کی منظوری کے ساتھ ہی عدالتوں میں موت کے سرٹیفکیٹ کے حصول کے طریقہ کار میں تبدیلی کے ساتھ اس ایکٹ کے خلاف کسی قسم کا مظاہرہ یا احتجاج کرنے کی کوشش کی گئی تو لاک ڈائون کے تحت حاصل اختیارات استعمال کئے جائیں گے۔کسی بھی مشکوک موت کے بارے میںکوئی فرد کسی قسم کا سوال نہیں کر سکے گا اور نہ ہی ریاست اس کیلئے کسی بھی طرح سے جواب دہ ہو گی۔ اس ایکٹ کا سب سے خوفناک پہلو یا پیرا گراف جس پر زبانی طور پر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے‘ اس قدر پریشان کن ہے کہ کسی بھی شخص کو جس کے بارے میں ریا ست کو شک ہو کہ وہ کورونا وائرس کا مشتبہ مریض ہے‘ علاج کیلئے کسی علیحدہ جگہ پر رکھنے کیلئے کسی میڈیکل بورڈ کی نہیں‘ بلکہ صرف ایک میڈیکل افسر یا ڈاکٹر کے دستخطوں کا ہونا ہی کافی سمجھا جائے گا‘ جس کا صاف مطلب ہو گا کہ اب آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی Medicationکے مراحل سے گزرنا ہو گا اور اس کیلئے آپ کی یا آپ کے خاندان کی مرضی نہیں‘ بلکہ جس قسم کا بھی علاج معالجہ متعلقہ میڈیکل ٹیم نے مناسب سمجھا کیا جائے گا ۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی ایسا شخص‘ جسے لوکل اتھارٹی زبردستی اپنے ساتھ لے گئی ہو اور وہ ہلاک ہو جائے تو متعلقہ اتھارٹی کو قانونی حق دے دیا گیا ہے کہ ایسے شخص کی لاش کو بغیر کسی سرکاری کارروائی یا ریکارڈ کے جھنجٹ میں پڑے‘ جس طرح چاہے ٹھکانے لگا دے ‘مرنے والے کا میڈیکل سرٹیفکیٹ یا پوسٹ مارٹم کا تو اس ایکٹ کے مطابق‘ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
برطانیہ کے بعدامریکا کی بات کریں تو وہاں ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کا لاک ڈائون جلد ہی سول بد نظمی اور پرتشدد جرائم کی صورت اختیار کر سکتا ہے‘ کیونکہ جس قسم کی پابندیاں کورونا وباکی وجہ سے امریکیوں پر نافذ کی جا رہی ہیں‘ اس کا انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا ‘ کیونکہ جیسے ہی کوئی سٹور کھلتا ہے تو اس قدر افراتفری میں شاپنگ کی جاتی ہے کہ کبھی بھی ان سٹورز میں مطلوبہ اشیا مثلاً گوشت‘ میدہ آٹا‘ ٹائلٹ پیپر اور چاول وغیرہ کا سٹاک ہی پورا نہیں ہو پاتا اور اب تک لاک ڈائون کی وجہ سے47 ملین امریکی بے روزگار ہو چکے ہیں اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی اس بے روزگاری میں کمی آنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ‘کیونکہ کیلی فورنیا پورٹس کی ہی بات کریں تو درآمدات وہاں تک پہنچ ہی نہیں رہیں۔ اس وقت ٹیکساس اور فلوریڈا کی ریاستیں بطور ِچیک پوسٹ کام کر رہی ہیں ‘جہاں سے ہر گزرنے والے کا ٹیسٹ کرتے ہوئے یا تو اسے قرنطینہ بھیج دیا جاتا ہے یا وہاں سے بھگا دیتے ہیں۔ روڈے آئی لینڈکی پولیس نیشنل گارڈز کے ہمراہ گھر گھر تلاشی لیتے ہوئے نیو یارک سے آئے ہوئے لوگوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہی ہے ‘کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ریا ست میں کورونا وائرس صرف انہی کی وجہ سے داخل ہوا ہے‘ نیز اپنے گھر وںسے نکلنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو کسی سٹور پر جانے یا اپنے کتوں کو ٹہلانے کیلئے باہر نکلتے ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ایسی ہی صورت ِحال اب‘ اٹلی میں بھی پیدا ہو رہی ہے۔
آخر میں مذکورہ بالا تمام تر تفصیلات کے تناظر میں بس یہی عرض ہے کہ وطن ِعزیز میں جاری انتہائی نرم قسم کے لاک ڈائون کیخلاف شدید احتجاج کرنے والے برطانوی حکومت کی جانب سے نافذ کئے گئے کورونا وائرس مینٹل ہیلتھ ایکٹ 2020ء اور امریکا کی ریاستوں کی موجودہ صورت ِ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوش کے ناخن لیں اور حکومت پر بیجا تنقید کرنے کی بجائے کورونا وبا سے لڑنے میں اپنے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو‘ تاکہ ہم جلد از جلد اس موذی وبا سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنی قومی ترقی اور ملکی معیشت پر توجہ مرکوز کر سکیں‘ وگرنہ یہاں کورونا وائرس ایکٹ2020ء کی طرح کی قانون سازی ناگزیر ہو جائے گی۔