تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-04-2020

Cure

آپ نے شاید کبھی ایسی فلم دیکھی ہوجس میں انسانیت کو ایک مرض لگ جاتاہے اور دنیا بھر کے انسان cureکی تلاش میں بھٹک رہے ہوتے ہیں ۔ ایسے وقت حقیقت میں انسان پر گزر چکے ہیں ۔ چھٹی اور ساتویں صدی کے دو سو سال میں دس کروڑ انسان طاعون کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُترے ۔ انسانیت تب اسی طرح cureڈھونڈ رہی تھی جس طرح آج کورونا کا علاج ڈھونڈا جا رہا ہے ۔ یہ علاج ہے کیا؟ماضی کے تجربات کی روشنی میں بات بالکل واضح ہے ۔ انسان کو ایک ویکسین چاہیے۔ بیسویں صدی میں جب تیس کروڑ لوگ چیچک کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے تب بھی ایک ویکسین بنائی گئی تھی ۔ یہ ویکسین تمام انسانوں کو لگائی گئی تھی ۔ بالکل اسی طرح ‘ جس طرح پولیو کی ویکسین ہر انسان کو لگائی گئی ۔ اسی طرح کورونا کی ایک ویکسین بنے گی اور پوری دنیا میں پہنچائی جائے گی۔ جن غریب ممالک کے پاس اسے خریدنے کی استطاعت نہیں ہو گی انہیں امیر ممالک اپنی جیب سے خرچ کر کے پلائیں گے۔ اس لیے کہ وبا ایک شخص سے پوری دنیا میں پھیل جانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ 
ہم خوش قسمت ہیں کہ آج کا انسان اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ بات ایک ڈیڑھ سال تک آگئی ہے ۔ جب طاعون اور چیچک پھیل رہا تھا تو بات صدیوں کی تھی اور ہلاکتیں کروڑوں میں ۔ انسان بے بسی سے اپنے پیاروں کو مرتے دیکھتا تھا۔ پورے پورے شہر مر ا کرتے تھے ۔ ویکسین کی تیاری کوئی آسان بات نہیں ۔ سر سے پائوں تک حفاظتی لباس پہنے ہوئے سائنسدان لیبارٹری میں انتہائی جدید آلات کی مدد سے وائرس کا جینیٹک کوڈ پڑھتے ہیں ۔ پاکستان میں یہ کارِ خیر ڈاکٹر عطا الرحمن نے سر انجام دیا ہے ۔ ڈاکٹر عطا الرحمن اور پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم ایک بڑی میجر سٹڈی کر رہے ہیں ۔ کورونا کے مریضوں پر مختلف ادویات کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ ڈاکٹر عطا الرحمن کتنی عاجزی سے بتاتے ہیں کہ ویکسین کی تیاری میں کئی سال لگ سکتے ہیں ۔یورپ اور امریکہ والے ہم سے کہیں آگے ہیں ‘ وہ جلدی بنا سکتے ہیں‘ لیکن آپ ایک سائنسدان کی عظمت دیکھیے کہ وہ ایک حقیقت کتنی عاجزی سے آپ کو بتا رہا ہے ۔ وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ میرے پاس لیبارٹری ہے ‘ آلات ہیں ‘میں کورونا وائرس کو خوردبین سے دیکھ چکا ہوں ۔ میں بس صبح فجر تک ویکسین تیار کر کے آپ کو پلاتا ہوں‘ لیکن کچھ لوگ یہ کام شروع کر چکے ہیں ۔ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ cure ڈھونڈ چکے ہیں اور اس وقت وہ ڈھول لے کر گلیوں میں پھر رہے ہیں ۔ 
یہ کون لوگ ہیں ؟یہ وہی لوگ ہیں ‘ جن کا تعارف آپ خاکسار کے کالموں میں پڑھ چکے ہیں۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں کلونجی کھلا کر کورونا کے دس مریض صحت یاب کر چکا ہوں ۔ دوسرا کہتا ہے کہ چھوٹی مکھی کے شہد سے میں نے 22مریض ٹھیک کیے ہیں ۔ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ ذرا بتائیں کہ کورونا وائرس پھیپھڑوں کو کیسے تباہ کرتا ہے تو وہ کھسیانی ہنسی ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے ۔ یہ وہ لوگ ہیں ‘ جنہیں یہ نہیں پتہ کہ بیماری ہے کیا ‘لیکن انہیں علاج معلوم ہے ۔ ایک بندہ ہے جو ہوائی جہاز میں لگے ہوئے پرزوں کے نام تو نہیں جانتا‘ لیکن اس کا اصرار ہے کہ وہ اسے اڑالے گا ۔ بس آپ ایک بار جہاز اس کے حوالے تو کریں‘ جبکہ آپ اپنا انمول جسم اس اناڑی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ ان سب حضرات کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ لوگ آپ کے علاج سے نہیں بلکہ از خود صحت یاب ہو رہے ہیں ۔ جتنے بھی صحت مندجوان لوگ ہیں ‘ ان کی ایک بڑی اکثریت ‘ 90سے 98فیصد تک‘ کچھ دن کورونا سے لوٹ پوٹ کر از خود ٹھیک ہو جائیں گے ۔ خطرہ صرف بوڑھے اور بیمار لوگوں کے لیے ہے ‘ جنہیں بلڈ پریشر‘ ذیابیطس‘عارضہ ٔ قلب یا دیگر بیماریاں لاحق ہیں ۔کلونجی اور شہد بہت اچھی چیزیں ہیں ۔ قرآن اور حدیث میں ان کا ذکر ہے اور کوئی بھی قرآن اور حدیث میں بتائی گئی مفید غذا کی نفی نہیں کر سکتا ۔ ان چیزوں کو روزمرہ غذا کا حصہ بنانا چاہیے‘ لیکن انسان اگر خدا کا دیا ہوا دماغ استعمال کر کے کورونا کی ویکسین تیار نہیں کرتا اور مفید غذائوں پہ تکیہ کر کے بیٹھا رہتا ہے تو اس سے بڑا احمق اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ 
تازہ لطیفہ سنیں ‘ کورونا سے نمٹنے میں مدد کرنے کی خاطر چینی پاکستان آئے‘ انہوں نے پاکستان کو وینٹی لیٹرز دیے ‘ ماسک اور ٹیسٹنگ کٹس دیں اورایک ہدایت بھی کی کہ خوراک میں کلونجی اور کچھ دوسری اشیا کا استعمال کریں ۔ اس پر میرے دوست بغلیں بجاتے ہوئے باہر نکل آئے کہ چینیوں نے ایلو پیتھی کے خلاف حکمت پر مہرِ تصدیق ثابت کر دی ہے ۔کوئی شک نہیں کہ یہ چیزیں مفید ہیں اور انہیں استعمال کر کے مجموعی صحت ‘ امیون سسٹم بہتر بنایا جا سکتاہے‘ لیکن میرے معصوم دوستوں کو یہ علم نہیں کہ خود چینیوں نے کس طرح کورونا پر قابو پایا۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کی اور لاک ڈائون کر دیا۔ جس گھر میں کوئی ایک شخص بھی انفیکٹڈ تھا‘ اس پورے خاندان کے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی ۔ جو لوگ زیادہ متاثر ہوئے‘ انہیں وینٹی لیٹر سمیت تمام طبی سہولیات مہیا کیں ۔ یوں انہوں نے اس chainکو توڑ دیا ‘ جس میں ایک شخص سو یا اس سے بھی زیادہ لوگوں کو انفیکشن منتقل کررہا تھا۔ چینی پاکستان کو وینٹی لیٹر زدے رہے ہیں ‘ ٹیسٹنگ کٹس ‘ ماسک اور ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنی غذا بہتر کریں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کڑی پتہ یا کلونجی cureہے ۔ Cureویکسین ہی ہے‘ جسے سائنسدان تیار کریں گے اور پھر جسے پوری دنیا کے ہر انسان تک پہنچایا جائے گا ۔ 
اس ویکسین کی تیاری کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہزاروں آیات اور احادیث علم حاصل کرنے پرزور دیتی ہیں ۔ اس کے لیے آپ کو خوردبین میں دشمن کو دیکھنا ہوگا ۔آپ کو سمجھنا پڑے گا کہ جینیٹک کوڈ ہوتا کیا ہے ۔ وائرس کیسے انسانی جسم کو تباہ کرتاہے ۔آپ کو وینٹی لیٹر بھی بنانا پڑیں گے۔یہ وینٹی لیٹر سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر نہیں بن سکتے ۔ جب ایک بڑی ایجاد ہوتی ہے تو دنیا بدل جاتی ہے ۔ پیدل چلنا صحت کے لیے مفید ہے اور گھڑ سواری بھی ‘اس کے باوجود آپ سب لوگ روزانہ آنے جانے کے لیے گھڑ سواری کیوں نہیں کر رہے ؟ جواب یہ ہے کہ انجن ایجاد ہونے کے بعد دنیا بدل چکی ۔ اب اگر آپ یہ کہیں کہ تم لوگ ہلکی رفتار میں گاڑی چلائو ‘ میں پیچھے پیچھے اپنے گھوڑے پر آرہا ہوں تو لوگ آپ کو کس نظر سے دیکھیں گے ؟ اسی طرح بلڈ ٹیسٹ ایجاد ہونے کے بعد ‘جراثیم کش ادویات ایجاد ہونے کے بعد‘ ایکس ریز ‘ سی ٹی سکین‘ ایم آر آئی ‘ ایکو‘ ای سی جی ‘ ای ای جی ایجاد ہونے کے بعد میڈیکل سائنس میں انقلاب رونما ہو چکا ہے ۔ انٹرنیٹ‘ ای میل ‘ واٹس ایپ اور فیس بک ایجاد ہونے کے بعد یہ اصرار بے معنی ہے کہ کبوتر ہی میرا پیغام لے کر جائے ۔ آپ یہ دیکھیں گے کہ جب سرجری کروانی پڑے تو بڑے سے بڑا طبیب بے بسی سے ایک ایلوپیتھک سرجن ہی کے سامنے جا لیٹتا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved