تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-05-2013

نوجوان اور عملی سیاست

ایک چلتا ہوا جملہ ہے کہ اب قیادت نو جوانوں کو سونپ دینی چاہیے۔ انتخابی مہم میں نوجوان سیاسی جماعتوں کا خصوصی ہدف رہے ہیں۔عملاً ہوا کیا؟آج کسی قابلِ ذکرجماعت کی قیادت نوجوانوں کے پاس نہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین،صدر اوروائس چیئرمین، کوئی ساٹھ سال سے کم کا نہیں ہے۔اس جماعت نے خیبر پختون خوا کے لیے وزیراعلیٰ اور ملک کے وزیر اعظم کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔دونوں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔یہی معاملہ ن لیگ کا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم کے لیے یہی معیار ہے۔کم از کم عمر:ساٹھ سال۔سوال یہ ہے کہ یہ کن نو جوانوں کی بات ہو رہی ہے؟ کیا وہ محض زادِ راہ تھے۔منزل میں ان کا کوئی حصہ نہیں؟میں سوچتااور مصطفیٰ زیدی کویاد کرتا ہوں: وہ داستاں تھی کسی اور شاہزادے کی میرا لہو تھا فقط زیبِ داستان کے لیے میرا احساس ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کا پھیلایا ہوا ایک واہمہ ہے،جس کی اصلیت ضروری ہے کہ لوگوں پہ واضح کی جائے۔ یہ خیال بنیادی طور پر انقلابی نظریات کی دین ہے۔انقلابی تصورات میں تدریج یا اصلاح کا گزر نہیں ہوتا۔اِن میں تخت یا تختہ کی نفسیات کام کر تی ہے۔انقلابی تحریکوں میں نوجوانوں کو یہ باور کرایا جا تا ہے کہ موجود نظام میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔اسے جڑ سے اکھاڑنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔تمہارے پاس کھونے کو کچھ ہے نہیں ،اس لیے اپنا سب کچھ انقلاب کے لیے لگا دو۔جب کوئی مستقبل مو جود ہی نہیں تو کس کی فکر؟ انقلابی جد وجہد میں جذبات کا استحصال ہوتا ہے،اس لیے نوجوان اس آگ کا ایندھن بننے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔انقلابی تحریکوں میں نوجوانوں کوانقلاب کا ہراول دستہ بنایا جا تا ہے اور ان کی لاشوں پہ انقلاب کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔طلبا تنظیمیں اسی انقلابی سوچ کے تحت قائم ہوئیں۔ بیسویں صدی میں اشتراکیت نے ایک انقلابی فکر کے طور پر ظہور کیا تو جواباً اسلام کو بھی ایک تحریک کے طور پیش کیا گیا اورمسلمان ممالک میں اسلامی تحریکیں برپا ہوئیں۔پاکستان بھی اشتراکی اور اسلامی انقلاب کی رزم گاہ بنا۔اسی دوران میں طلبا تنظیمیں بنیں اور ہماری فضائیں سرخ اور سبز انقلاب کے نعروں سے گونج اٹھیں۔تعلیمی ادارے اس کشمکش کا مرکز بنے۔پاکستان میں سرخ انقلاب آیا نہ سبز لیکن نو جوانوں کی تین نسلیں اس کا رزق بن گئیں۔اب دنیا بھر میںجمہوریت انقلاب کی جگہ لے چکی۔جمہوریت خود ایک انقلاب ہے جس نے انقلابی سوچ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی سوچ میں تبدیلی آتی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔انہوں نے بدستور نوجوانوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔جب بھی طلبا تنظیموں کی بات ہوتی ہے،یہ ان کے دفاع میں نکل پڑتی ہیں۔اس کا نقطہ کمال گزشتہ انتخابات تھے جن میں نوجوانوں کے استحصال کی حد کر دی گئی۔ انتخابی مہم کی حد تک تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن مجھے اس پر تشویش ہے کہ انتخابات کے بعد بھی نوجوانوں کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ان سے دھرنے دلوائے جارہے ہیں۔نوجوانوں کو متحرک رکھا جارہا ہے اور کسی کو یہ خیال نہیں کہ ایک پوری نسل کا مستقبل داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔میرا احساس ہے کہ عملی سیاست میںنوجوانوںکے کردار پر سنجیدہ بحث ہونی چاہیے اورتمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس بارے میں کوئی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔ ایک جمہوری سماج میں جہاں تبدیلی کے لیے ایک آئینی ضابطہ مو جود ہے،وہاں یہ بات قابلِ قبول نہیں ہو سکتی کہ ایک پوری نسل سارے کام کاج چھوڑ کر کسی انقلاب کا ہراول دستہ بن جا ئے۔ایک نوجوان کی پہلی اور آخری ترجیح اس کی تعلیم ہو نی چاہیے۔یہ طے ہے کہ شخصیت سازی کی ایک عمر ہو تی ہے۔رسمی تعلیم کا ایک وقت ہے۔اگر وہ گزر جائے تواس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ہماری سیاسی جماعتوں کو اس پر اتفاق ِ رائے پیدا کر نا ہوگا کہ کوئی جماعت اپنا تعلیمی ونگ نہیں بنائے گی۔ تعلیمی اداروں میں صرف تعلیم ہو گی۔تعلیم سے مراد محض رسمی تعلیم نہیں۔ ان کی شخصی نشو ونما کے لیے بھی سازگار ما حول فراہم کیا جائے گا اور یہ کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں بزم ہائے ادب ہوتی تھیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سے فورمز قائم تھے۔طلبا تنظیموں کے حق میں یہ دلیل ایک واہمہ ہے کہ اس سے ان کی صلاحیتوں کو جِلا ملتی ہے۔ہماری تاریخ یہ ہے کہ اس سے ان کا مستقبل برباد ہو تا ہے۔ہمارے سماجی پس منظر میں ایک نو جوان کے ساتھ پورے خاندان کامستقبل وابستہ ہو تا ہے۔ والدین کی بوڑھی آنکھوں میں جوان سپنے تعبیر کے انتظار میں ہوتے ہیں،جبکہ یہ نو جوان کسی انقلاب کا ہراول دستہ بن کرنہ صرف اپنا مستقبل تاریک کرتے ہیں بلکہ ان بوڑھی آنکھوں کے چراغ بھی بجھا دیتے ہیں۔ پاکستان میں آج اللہ کا شکر ہے کہ ایک سیاسی نظام مستحکم ہو رہا ہے۔اب سب کو مل کر ایک قوم کی تعمیر کر نی ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک ترقی یافتہ معاشرے کی طرح اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کر نی ہیں۔امریکا سمیت کہیں سیاسی جماعتوں سے وابستہ طلبا ونگ مو جود نہیں ہیں،اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کو نیا خون ملتا رہتا ہے اور باصلاحیت افراد سیاسی جماعتوں کو زندہ رکھتے ہیں۔یہ دلچسپ بات ہے کہ نظریاتی جماعتوں کی قیادت کبھی نو جوانوں پہ مشتمل نہیں رہی۔ چین، آنجہانی سوویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی، حتیٰ کہ پاکستان کی جماعت اسلامی کی قیادت بھی معمر لوگوں پر مشتمل رہی ہے۔یہی فطرت کے بھی قریب ترہے۔ ورنہ دنیا بھر کے دساتیر میں سربراہ مملکت جیسے عہدوں کے لیے ایک خاص عمر کی قید نہ ہو تی۔مجھے چین کی قیادت میں کم ہی کوئی آ دمی ستر سال سے کم عمر کا دکھائی دیا ہے۔ پاکستانی سماج کو اب ذہنی بلوغت کامظاہرہ کرنا ہو گا۔ سطحی مباحث اورسر گرمیوں میں بہت وقت بیت گیا۔ نوجوانوں کو اب ساری تو جہ اپنی تعلیم اور شخصی تعمیر پر دینا ہوگی۔اس کے بعد ہی وہ ملک و قوم اور کسی سیاسی جماعت کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکیں گے۔سیاسی جماعتوں کو بھی اب نوجوانوں پہ رحم کرنا ہوگا۔اپنی تعلیمی مصروفیات کے بعد اگر نو جوان کچھ وقت کسی سماجی یا سیاسی کام کو دے سکیں تو کوئی حرج نہیں لیکن تعلیم کی عمر میں اگر یہ سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں تویہ ایک المیہ ہوگا۔یہاں مذہب سمیت ہر چیز کا استحصال ہوا ہے۔اللہ کرے نو جوانوں سمیت سب کو اس سے نجات ملے۔قوم بالغ ہو اور سیاسی جماعتیں بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved