حکمران کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو مُردوں کو زندہ کردے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی معجزہ ہوتا ہے۔اس کا معجزہ اور مسیحائی اس کی مردم شناسی ‘ فیصلہ سازی‘ ویژن اور گورننس ہی ہوتی ہے۔مُردوں کو بھلے زندہ نہ کرسکے‘ لیکن اس کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے۔بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے ہیں بلکہ انہی خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑھ کرکوئی عقلِ کُل نہیں ۔
اس ناقابلِ تردید حقیقت سے بے خبر‘ نہ جانے کونسا جامِ غفلت پی کر بھول ہی جاتے ہیں کہ سدا بادشاہی اللہ ہی کی...کیسے کیسے ناگزیر چپ چاپ گزر گئے‘قبرستان بھرے پڑے ہیں اور ان کی قبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ غفلتوں کے مارے اسی مغالطے میں رہے کہ اگر ہم نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے گا۔سب کچھ ہمارے ہی دمِ قدم سے ہے۔اپنی انائوں میں گم اور خطائوں میں غرق یہ سارے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب ان کا اقتدار ان کے گلے کا طوق بنا اور ان کی بے پناہ طاقت ان کی کمزوری بنتی چلی گئی۔اپنے ہی عوام پر فاتح بن کر حکمرانی کرنے والا شاہ ایران ہو یا صدام حسین‘قذافی ہو یاکوئی اور زمینی خدا۔ آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں؎
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
مملکتِ خداداد میں بسنے والو ں نے بھی کیا نصیب پایا ہے ‘کیسا کیسا حکمران نجات دہندہ بن کرآیااور سنہری دور میں لے جانے کا جھانسا دے کر مزید اندھیرے گڑھوں میں عوام کو دھکیل کر چلتا بنا ۔کرسی کی مضبوطی کا دعویٰ کرنے والے صدر ضیاالحق ہوں یا شہر قائد میں 12مئی 2007ء کو عوام کے خون کی ہولی پر فاتحانہ مکا بنا کر اپنے اقتدار کی طاقت کا کھلا اظہار کرنے والے پرویز مشرف‘ہر دو حضرات میں ایک قدرِ مشترک تھی کہ ایک نے ایم کیو ایم کی پنیری لگائی اور دوسرے نے اس پنیری کو تناور درخت بننے کے لیے'' لائسنس ٹو کل‘‘دیے رکھاتھا۔ اور پھر چشمِ فلک نے کون کون سا درد ناک منظر نہ دیکھا۔ مملکتِ خداداد کے طول وعرض میں کوئی ایسا سیا ستدان نہیں جو اپنی مجبوریوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر ایم کیو ایم کے وطن دشمن قائد کے درپر نہ گیا۔بڑے بڑے جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدان اپنے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور تعاون کی بھیک کے لیے سوالی بن کر اس کے در پر حاضری دیتے رہے۔اس تعاون کے عوض شہرِ قائد پر کونسی قیامت نہ ٹوٹی؟
ماضی کا کوئی حکمران ایسا نہیں جس نے ضیاالحق کی لگائی ہوئی اس پنیری کو بھربھر مشکیں پانی نہ ڈالا ہو۔سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدارکی بھوک‘ ہر دور میں اس ناسور کو گلے کا ہار بنایا گیا۔کتنی مائوں کی گود اجاڑی گئی‘کتنے سہاگ دن دیہاڑے خون میں نہلائے گئے‘کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے‘کتنے ہی بچوں کوعمر بھر کی یتیمی کا روگ لگادیا گیا۔ جبری چندوں‘ بھتوں‘ لوٹ مار‘ داداگیری‘ قتل و غارت اور دیگر ناجائز ذرائع سے سمیٹے ہوئے حرام مال سے وطن دشمن قائد کو پالنے والے آج بھی معتبر بنے کھلے عام پھر رہے ہیں۔اسی طرح قومی وسائل اورخزانے کو باپ داداکی جاگیرسمجھنے والے آصف زرداری ہوں یا اقتدار اور اختیارکے زور پر ذاتی کاروبار کو ہوشربا ضربیں دے کر سرکاری وسائل پر کنبہ پروری کرنے والے شریف برادران‘اپنی اپنی باری پر اپنا اپنا آئٹم پیش کرکے اپنے ہی کرتبوں پر عوام سے تالیاں بجوا کر خودکو نجات دہندہ سمجھنے والوں نے امن و امان سے لے کر حب الوطنی تک‘نیت سے لیکر معیشت تک‘گورننس سے لیکر میرٹ تک‘ملکی دولت اور وسائل کی بندر بانٹ سے لیکر اقتدار کے بٹوارے تک کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ماضی میں ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کہاں کھڑے ہیںاور کن حالات سے دوچار ہیں؟ اور آج کھلواڑ کرنے والے کل کہاں ہوں گے؟یہ جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘ بس تاریخ کے اوراق پر نظر رکھیں اور ہوسکے تو کچھ سبق بھی حاصل کرلیں۔
کورونا ایمرجنسی میں ملک بھر میں لاک ڈائون جاری ہے وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ بھوک اور لاک ڈائون میں توازن برقرار رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہے جبکہ بھوک اور لاک ڈائون کے ٹکرائو کے امکانات بھی بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے انصاف سرکار کا امدادی پروگرام عوام کے لیے حرکت میں آچکا ہے‘ ملی جلی اطلاعات اور بدانتظامی سمیت کئی مناظرکورونا ایس او پیز کی ضد نظر آتے ہیں۔دھکم پیل اور امداد کے حصول کے لیے آنے والوں کا جم غفیر حکومتی اقدامات اور گورننس پر کئی سوال اٹھا چکا ہے۔یوٹیلیٹی بلز ملک کے کونے کونے میں تو بروقت اور باقاعدگی سے پہنچائے جاسکتے ہیں لیکن امدادی رقوم کے لیے تاحال کوئی ایسا طریقہ کا وضع نہ ہوسکاہے جو مستحقین تک امدادی رقوم پہنچا کر انہیں بھوک اور مفلسی سے بچا سکے۔انصاف سرکار کا ایک اور مطالبہ بھی ہے کہ اپوزیشن کورونا پر سیاست سے باز رہے اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے تو کورونا پر پوائنٹ سکورنگ سے منع بھی فرمادیا ہے جبکہ انصاف سرکار کورونا پر حکومتی اقدامات‘عوامی شکایات پر مبنی بدانتظامی کو بھی پوائنٹ سکورنگ قرار دے رہی ہے۔دوسری طرف چینی کی سبسڈی پر تحقیقاتی رپورٹ بھی انصاف سرکار پر بھاری پڑتی نظر آتی ہے۔ اپوزیشن کی پوائنٹ سکورنگ تو ایک طرف انصاف سرکار تو آپس میں ہی ایک بڑا ٹورنامنٹ شروع کربیٹھی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو کہتے ہیں کہ پچیس اپریل کے بعد طے ہوگا کہ کون بولڈ ہوتا ہے اور کون اپنی وکٹ بچا پاتا ہے‘ کون رن آئوٹ ہوگا اور کون ہٹ وکٹ کر بیٹھے گا‘کس کا کیچ پکڑا جائے گا اور کس کی ہٹ بائونڈری سے باہر جائے گی۔
انصاف سرکار عملی طور پر دو حصوں میں بٹتی نظر آتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کے لیے جو کبھی بہترین تھے اب صرف ترین نظر آتے ہیں۔اسی طرح انصاف سرکار کی حلیف مسلم لیگ (ق) اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے درمیان فاصلوں میں کمی دیکھنے اور سننے میں آرہی ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے خو اجہ برادران چوہدری پرویز الٰہی کے گھر خیر سگالی دورہ کرچکے ہیں اور اس دورے سے ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کے گھر بھی جاچکے ہیں۔اس تناظر میں یہ ملاقاتیں انتہائی اہمیت کی حامل قرار دی جارہی ہیں جبکہ جہانگیر ترین سے اظہارِ یکجہتی کرنے والے ظاہری اور پوشیدہ ارکان اسمبلی بھی مسلسل رابطہ میں ہیں۔
یہ حالات تخت پنجاب کے لیے مشکل اور کٹھن صورتحال کا شاخسانہ ہوسکتے ہیں۔دوسری طرف چینی اور گندم سکینڈل میں حکومتی عتاب کا نشانہ بننے والے تین اعلیٰ افسران میں سے سابق سیکرٹری فوڈ نسیم صادق اپنے مؤقف کے ساتھ سراپا احتجاج بن چکے ہیں۔چیف سیکرٹری کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرڈالا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ آٹا مافیا کو بچایا جارہا ہے اورانکوائری کمیٹی جانبدار ہے۔ اسی طرح استعفیٰ دینے والے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کے حوالے سے بھی اندر کی خبریں باہر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ چینی سکینڈل کے فیصلہ ساز اور ذمہ داران کو بچانے اور ردِ بلا کے لیے انہیں قربانی کا بکرا بنانا زیادہ آسان تھاکیونکہ ان کا تعلق کسی بڑے سیاسی اور جاگیردار خاندان کی بجائے کارکن طبقہ سے ہے اور ایسے میں بلی تو انہی کی بنتی ہے۔اس حوالے سے موصول ہونے والی اطلاعات پر اگلے کالم میں ضرور بات کریں گے جبکہ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ چینی سکینڈل کے ذمہ داران اور بینی فشریز کے خلاف کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ یہ انصاف سرکار کی روایت ہے اور نہ ہی ایجنڈا۔ادویات کی قیمتوں میں لمبی دیہاڑی لگا کر عوام کو مہنگائی اور حکومت کو سبکی اور شرمندگی سے دوچار کرنے والے سابق وزیر صحت عامر کیانی اوران کے شریکِ جرم متنازعہ چیئر مین ڈریپ شیخ اختر حسین کی واردات ثابت ہونے کے باوجود نہ تو کوئی کارروائی ہوئی نہ ہی انصاف سرکار کا انصاف حرکت میں آیا۔دونوں ہی خوب مزے میں ہیں۔ایک حکمران پارٹی چلا رہے ہیں دوسرے خلافِ ضابطہ اور دستور آج بھی ڈریپ کا حصہ ہیں۔اسی لیے کہتا ہوں کہ کوئی بھی سسٹم ہو انسانیت کوہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے۔