چور ٹولہ عہدوں کے پیچھے چھپ رہاہے: عظمیٰ بخاری
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''چور ٹولہ عہدوں کے پیچھے چھپ رہاہے‘‘ اور یہ عہدوںکا نہایت غلط استعمال ہے‘ کیونکہ چھپنے کے لیے دیواریں‘ اور پردے وغیرہ بھی موجود ہوں تو عہدوں کے پیچھے چھپنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ عہدے ایک ہی کام کے لیے ہوتے ہیں ‘جو ہم نے کر کے دکھایا تھا اور اگر مزید موقعہ ملا تو اور بھی کر کے دکھا دیں گے‘ جس کے بغیر ملکی ترقی ممکن ہی نہیں ہے‘ جو ذاتی ترقی سے شروع ہوتی ہے اور اصول بھی یہی ہے کہ اول خویش اور بعد درویش ‘جبکہ باقی ساری قوم درویشوں اور گدا گروں پر مشتمل ہے‘ کیونکہ گدا گری‘ ملک میں کمائی کا واحد اور آسان ذریعہ ہو کر رہ گیا ہے‘ جو صرف ایک دوسرے کے پیچھے چھپتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
حکومت کی طرف سے امدادی رقوم
کی تقسیم کا طریقہ غلط ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کی طرف سے امدادی رقوم کی تقسیم کا طریقہ غلط ہے‘‘ جس طرح حکومت کا کوئی بھی کام صحیح نہیں ہے؛ حالانکہ میں ایسے طریقے روزانہ اپنی تقریروں میں بتاتا رہتا ہوں اور یہ کام مفت میں‘ یعنی فی سبیل اللہ کرتا ہوں‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مجھے اس کا کوئی ثواب بھی حاصل نہیں ہو رہا ہے‘ اور نہ ہی میری فردِ عمل میں اس کا کوئی اندراج نظر آتا ہے‘ جس کی میں روزانہ پڑتال کرتا ہوں‘ لیکن اس میں صرف میری تقریروں کے خلاصے نظر آتے ہیں‘ جنہیں پڑھ پڑھ کر مزید بور ہوتا رہتا ہوں؛ حالانکہ اس کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز وہاڑی میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
موجودہ طریقے سے امدادی رقوم
کی تقسیم خطرناک ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''موجودہ طریقے سے امدادی رقوم کی تقسیم خطرناک ہے‘ بلکہ حکومت خود بہت خطرناک ہے ‘جو کورونا سے نمٹنے کی بجائے ہماری جائیدادوں اور اثاثوں کے حساب کتاب میں لگی ہوئی ہے‘ جس سے وائرس کے خلاف اقدامات کرنے میں بیحد کمی واقع ہو گئی ہے اور اس نے باقاعدہ پھیلنا شروع کر دیا ہے؛ حالانکہ ہمارے اثاثوں میں کون سا اضافہ ہونا ہے‘ کیونکہ یہ صرف اقتدار کے دنوں میں ہی ممکن ہے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے تھا کہ اس فضول کام سے در گزر کرتی اور سب سے پہلے کورونا سے نمٹتی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ویڈیو لنک سے خطاب کر رہے تھے۔
درستی
جناب محمد ساجد خاں نے اپنے کالم میں گزشتہ روز ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے۔؎
ایک نعمت ہے زندگی اسے سنبھال کے رکھ
یونہی گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے
اس کا پہلا مصرعہ مکمل طور پر خارج از وزن ہے؛ حتیٰ کہ اسے وزن میں لانا میرے لیے بھی نا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ صاحب موصوف کے اپنے زور طبع کا نتیجہ ہو!
اسی طرح اجمل خٹک کثر صاحب نے افتخار ؔعارف کا شعر اس طرح نقل کیا ہے؎
رحمتِ سیّد لولاک پہ کامل یقیں
اُمتِ سیّد لولاک سے خوف آتا ہے
اس کا پہلا مصرعہ اس طرح ہے ۔ع
رحمتِ سیّد لولاک پہ کامل ہے یقیں
اور‘ اب آخر میں ضمیرؔ طالب کی شاعری
پہلے میں کرتا تھا یاد اور دل دھڑکتا تھا ضمیرؔ
اب دھڑکتا میں ہوں اور دل یاد کرتا ہے اُسے
دیکھتے رہتے ہیں ہاتھ اس کو
جب میری آنکھیں سو جاتی ہیں
آشیانہ میرے ہونٹوں پر بنانے کے لیے
اس کے گالوں کے پرندے پھڑپھڑاتے رہتے ہیں
رہ رہا ہوں میں اور دل میں ضمیرؔ
شہریت میری اور دل کی ہے
خود سے جو وعدہ کیا تھا بس وہی توڑا ہے میں نے
آپ کو کیا‘ آپ کا تو کچھ نہیں پھوڑا ہے میں نے
اب کے دیکھیں کونسی صورت میں آتا ہے ضمیرؔ
روز وہ چہرہ نیا لیکر ہی آیا کرتا ہے
دھول جھونکی ہے کسی نے آنکھوں میں
اور میں عینک صاف کرتا رہتا ہوں
دعا ہے تو کہیں رستے میں مل جائے
تجھے میں نے نظر انداز کرنا ہے
ہوئی پوری شبِ ہجراں میں ضمیرؔ
وصل کی شب جو کمی رہ گئی تھی
زیست بارے دو غلط ثابت ہوئے
اب یہ میرا تیسرا اندازہ ہے
موج ہے ان دیکھی سی کوئی ضمیرؔ
جس میں اپنا ڈوبتا اندازہ ہے
میں وہ سکوت ہوں جو تیرے کام کا نہیں ہے
تو ایسا شور ہے جو میں مچا نہیں سکتا
آج کا مطلع
اُس پر ہوائے دل کا اثر دیکھنا تو ہے
ہونا تو خیر کیا ہے‘ مگردیکھنا تو ہے