تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     13-04-2020

جبریت کے مضمرات

کورونا وبا سے بچاؤ کیلئے لانچ کئے گئے لاک ڈاؤن کو تین ہفتوں سے زائد عرصہ بیت چکا‘ان تین ہفتوں میں انتظامیہ نے کہیں جزوی ‘ تو کہیں مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے سماج کے بہتے دھارے کو منجمد کر رکھا ہے۔سرکاری و نجی دفاتر‘ شفاخانے‘ بازار ‘ مارکٹیں‘ کارخانے‘ ٹرانسپورٹ اور ہوائی سروس بند کر کے شہریوں کو گھروں کے اندر پناہ گزیں ہونے پہ مجبورکر دیا گیا ہے۔معلوم تاریخ میں شاید پہلی بار جدید ریاستوں نے وبا کے خوف کے باعث انتظامی اتھارٹی کو بروئے کار لا کر اتنی لمبی مدت کیلئے کارِحیات کا پہیہ جام کیا ہے۔ اس سے قبل انسانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔مغرب کی متمدن دنیا سے قطع نظر یہ خیر آمیز جبریت اُن قوموں کی مجموعی ساخت پہ کیا اثر ڈالے گی؟ جنہیں ذہنی شکست خوردگی‘مزاحمت سے گریز اور ہر ستمگر کے سامنے سرتسلیم جھکانے کی نفسیات ورثہ میں ملی ہو۔اس بے مثال لاک ڈاؤن سے ہمارے سماج کی مجموعی معشت اور عام شہری کو انفرادی حیثیت میں ہونے والے خسارہ کا خلاصہ تو بہت جلد سامنے آ جائے گا‘ لیکن اس دو طرفہ دباو ٔنے انسانی نفسیات‘سماجی روّیوں اور سیاسی حرکیات پہ جو مہلک اثرات مرتب کئے‘انہیں یہاں زیر بحث لانا ازبس ضروری ہے۔اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ خوف اور ذہنی غلامی ‘انسان کی آدھی مردانگی چوس لیتے ہیں اور زندہ لاشوں کی طرح جینے والے معاشرے خود اپنی آزادی اور قومی و شخصی وقارکا تحفظ کر سکتے ہیں‘ نہ فطرت کے مقاصد کی تکمیل کے اہل رہتے ہیں؛چنانچہ ایسے بیکار مواد کو نیچر بہت جلد صفحۂ ہستی سے مٹا کے ان نئی قوتوں کو نشو و نما کا موقعہ فراہم کرتی ہے‘جو نظام ہستی کی از سر نو تدوین کی اہلیت سے بہرہ ور ہوتی ہیں‘اگر ہم ماضی پہ نظر ڈالیں تو تاریخ کے قبرستان میں ہمیں بہت سی ایسی قوموں اور تہذیبوں کے مزارات مل جائیں گے‘جو بزدلی اور خوف کی بدولت جوہرِ مردانگی سے دستبردار ہونے کے بعد نہایت بے بسی کے ساتھ دست قضا کے ہاتھوں مٹ گئیں۔اس کرۂ ارض پہ انسان‘حیوان اورنباتات کی ہزاروں اقسام پیدا ہوئیں ‘ لیکن جب ان کے اندر دوام حیات کی قوت مفقود ہوئی تو وہ منصہ شہود سے ناپیدکر دی گئیں‘ایسی کچھ اقوام کے احوال تو ہمیں آسمانی کتابوں میں مل جاتے ہیں‘ لیکن کئی ایسی بھی تھیں‘ جن کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ صفحۂ ہستی سے معدوم ہونے والی اقوام میں خود غرضی‘بخل‘بزدلی اور مزاحمت سے گریز جیسی خامیاں یکساں تھیں۔مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب''سیرت سرور عالم‘‘میں لکھا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی کامیابی میں اس قوم کی چند اخلاقی صفات کا عمل دخل نمایاں تھا‘جس قوم میں آپﷺ کو مبعوث فرمایا گیا‘وہ بہادری‘سخاوت اور عہد وپیماں کی پاسداری جیسے اعلیٰ اوصاف کی امین تھی‘اس عہد کے عربی اپنے قول و اقرار پہ مر مٹنے کو قابل فخر سمجھتے‘موت ان کی محبوبہ تھی اوردولت ِدنیا کی ذخیرہ اندوزی کو وہ معیوب تصور کرتے تھے‘عربوں میں کہاوت مشہور تھی کہ تقدیر ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے؛بلاشبہ صدیوں کے تجربات کا نچوڑ یہ کہاوت ابدی صداقتوںکی طرف اشارہ کرتی ہے‘یعنی فطرت نے پوری انسانیت کی رہنمائی کیلئے جس قوم کو چُنا‘ وہ اس بارِ امانت کو اٹھانے کی صلاحیت سے بہرور تھی اور جب تک مسلمانوں کے اندر نوع انسانی کو فیض پہنچانے اوربدی کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کا داعیہ موجود رہا ‘وہ دنیائے انسانیت کی قیادت کے منصب پہ فائز رہی۔عیش و عشرت اور تن آسانی کی بدولت جُوں جُوں ان کے اندر موت کا خوف‘بخل اورخود غرضی جیسی مہلک عادات پروان چڑھتی گئیں‘ تُوں تُوں وہ رزم گاہِ حیات سے پسپا ہوتے چلے گئے۔ان کے برعکس وہ قومیں‘جو نسل انسانی کیلئے فیض رسانی کا وسیلہ اورجینے کی قوت سے سرشار تھیں‘بتدریج ابھرتے چلی آئیں‘اگر ہم ماضی قریب میں پلٹ کے دیکھیں تو انگریزوں نے جب ہندوستان کا رخ کیا ‘تو اس وقت یہاں کے بادشاہ‘راجے اورنواب اپنی قوت قہرہ کے ذریعے معاشروں کو پامال کر چکے تھے۔ مغل بادشاہوں کے کارپردازوں‘ گورنروں اور علاقائی حاکموں نے معاشرتی نظم و نسق کی صحت مند خطوط پہ استوار کرنے کی خاطر اپنی خواہشات کو ترک کرنے کی بجائے نہایت خود غرضی سے نفرتوں کی آگ بھڑکا کے باہمی عداوتوں کی دھار تیز کر دی تھی؛حتیٰ کہ وہ اپنے ہم وطنوں کیخلاف غیروں سے ساز باز کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔عیش و عشرت کیلئے درکار وسائل کی دستیابی کی خاطر رعایا پہ اتنے ستم ڈھاتے رہے کہ ہندوستانی سماج خوف کا اسیر بن کے وطن سے محبت کا شعور‘ قومی افتخار کا ادراک‘شخصی خود داری کا احساس اور اجتماعی بقاء کیلئے درکار دلیرانہ مزاحمت کا داعیہ کھو بیٹھا۔اس وقت کے ہندوستان میں مجبور اور مغموم انسانوں کا ایک ایسا منتشر اور پراگندہ خیال ہجوم آباد تھا‘ جو فطری طور کسی ایسی قوت کا متلاشی تھا‘ جو انہیں امن‘نظم و ضبط اور اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کیلئے مناسب مواقع فراہم کرے‘گویا وہ ایک قسم کا خام مواد تھا‘ جسے باآسانی کسی بھی صورت میں ڈھالا جا سکتا تھا؛چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نہایت عیاری کے ساتھ ہندوستان میں پیدا شدہ خوف و بدنظمی‘عمومی مایوسی اورذہنی انتشار کا استحصال کرکے وہاں سے کرایہ کے سپاہی‘مخبر اورایسے سستے اہلکار تلاش کر لیے‘ جو تھوڑی سی قیمت پہ اپنی قوم اور وطن کیخلاف استعمال ہونے کو تیار تھے۔ انگریزوں نے جدید طریقہ جنگ کے ذریعے نہایت منظم انداز میں ٹکڑوں میں منقسم چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو یکے بعد دیگرے فتح کر کے پچاس ساٹھ سال کے اندر ہندوستان کو ایک ایسے ادارہ جاتی ڈھانچہ میں مربوط کر لیا‘ جو فطری طور پہ سرکاری اہلکاروںاور عام لوگوں کی وفاداری کا محور بن گیا‘ کیونکہ اسی نظام میں انہیں امن وسکون‘معاشی خوشحالی اور وطنی قومیت کا شعور ملا‘انگریز کے اسی ادارہ جاتی سسٹم نے ہمیں انتہائی موثرانتظامی اتھارٹی‘فعال عدالتی نظام‘ڈاک کی ترسیل‘ریلوے اورسڑکوں سمیت ذرائع نقل و حمل‘جدیدکھیتی باڑی اورنہری آبپاشی کے علاوہ نجی ملکیت کا حق اورشخصی و مذہبی آزادیوں کو برتنے کا سلیقہ سیکھایا اورنظم ریاست کی یہی مبادیات آج بھی ہمارے سیاسی اور انتظامی نظام ڈھانچے اور سماجی ہیت کی اساس ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے آفاقی کلام کے ذریعے مسلمانوں میں خودداری‘استغنا‘شجاعت اور مزاحمت کا یہی جذبہ ابھارنے کی کوشش کی تھی۔ ؎
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی‘ صبح دوام زندگی 
آج بھی ہمیں سماج میں اظہار رائے اور حریت فکر کی ایسی آزادیوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے‘جو بہادر سورماؤں کی مہربان داعیہ ہوتی ہے‘ تاکہ ہماری نوخیز نسلیں عزت نفس کا احساس‘شکوہ قومیت کا ادراک اور شرف آدمیت کا شعور پا سکیں‘مگر افسوس کہ ان بہتر برسوں میں انسانی ارتقا کے اس بنیادی فریضہ کی طرف توجہ نہ دی گئی‘ لہٰذاحکمراں اشرافیہ سے درخواست ہے کہ قوم کو وباؤں اور افلاس کے خوف کی طرف مت دھکیلیں ‘بلکہ انہیں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جینے کا سبق پڑھائیں؎۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved