تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     14-04-2020

گریبان تو ہماری قمیضوں میں بھی لگے ہیں

آفرین ہے ہم مسلمانوں پر اور شاباش ہے ہم پاکستانیوں کو۔ کہ ان حالوں بھی‘ عبرت کا نشان نیو یارک اور لندن ہی کو قرار دے رہے ہیں۔ جیسے ہم خود دودھ سے دُھلے ہیں! وہ پانچ انگلیاں نظر نہیں آ رہیں جو ایک انگلی دوسروں کی طرف کرتے ہوئے‘ اپنی طرف ہوتی ہیں!
یہ وقت خود احتسابی کا تھا! اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کا! اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے کا! طعن و تشنیع کا نہ تھا! بہادر شاہ ظفر کہاں یاد آ گیا ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر‘ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
خبر آئی ہے کہ بادشاہ جزیروں میں چلے گئے۔ خلقِ خدا کو ساحلوں کے اُس طرف چھوڑ کر۔ کہ تم جانو اور تمہاراخدا۔ ہم تو اپنے محلات میں بند ہوئے۔
استنبول میں موت ہوئی۔ یوں کہ جسم کے اعضا تک نہ ملے۔ ایسا کسی مغربی ملک میں ہوتا۔ اگر ہوتا۔ تو حشر سے پہلے حشر برپا ہو جاتا! لیکن ہم تو پکے بہشتی ہیں۔ پوتّر‘ ہم جو کچھ کریں‘ درست ہے۔ سارے گناہ‘ تمام بدمعاشیاں بحرِ اوقیانوس کے مشرقی اور مغربی کناروں پر ہیں۔ ساری عیاشیاں بحرالکاہل کے ساحلوں پر ہیں۔ یہ عذاب بھی اُنہی پر آیا ہے! ؎
ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اٹھتا تھا
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
ہم جو مسجدوں میں جانے سے بھی رہ گئے‘ طواف بند ہو گئے۔ حرمین شریفین رسائی سے باہر ہو گئے۔ شام عراق اور ایران میں واقع ہمارے مقدس مقامات پہنچ سے دور ہو گئے۔ کیا یہ عبرت کا سامان نہیں؟ کیا ہم خود اپنے گریبان میں نہ جھانکیں؟ کیا ہم خود نہ سوچیں کہ ہم پوتّر ہیں یا چلتّر؟
ہم نے کیا کیا نہ کیا! اور کیا کیا نہیں کر رہے! موت سامنے کھڑی‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے‘ پلک تک نہیں جھپک رہی‘ ان حالوں بھی ہماری فارمیسی کی دکانیں جعلی سینی ٹائزروں سے بھری ہوئی ہیں! کتنے ملک ہیں جو ملاوٹ‘ چور بازاری اور ناروا نفع خوری میں ہمارا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ جھوٹ کو ہم جھوٹ سمجھتے ہی نہیں! مگر خوش ہیں کہ امریکہ پر عذاب مسلط ہے۔ مطمئن ہیں کہ یورپ میں اموات زیادہ ہو رہی ہیں!ہم تو وہ ہیں جو خلقِ خدا سے بھاری رقوم طلبہ کے لئے جمع کرتے ہیں اور پرورش اپنے خاندانوں کی کرتے ہیں؟ کتنے ہیں مذہبی اداروں کے مالکان جو الگ ذریعۂ معاش رکھتے ہیں؟ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ مظلوم ترین مخلوق مدارس کے اساتذہ ہیں؟ ساری زندگی چٹائی پر گزرتی ہے۔ کسی مسجد کی امامت یا خطابت مل گئی تو گزران ہو گیا ورنہ مدرسہ سے اتنی قلیل تنخواہ کہ قوتِ لایموت سے بھی کم! ساری زندگی قال اللہ اور قال الرسولؐ پڑھا کر‘ آخر میں پنشن نہ جی پی فنڈ! نہ علاج معالجے کی سہولت! نہ کوئی ہاؤس رینٹ! نہ کوئی تنظیم نہ کوئی یونین نہ کوئی باڈی جو احتجاج ہی کر سکے‘ مطالبات ہی پیش کر سکے! اور مالکان؟؟ مالکان کا کیا کہنا! ان کے پاس صوفے بھی ہیں‘ گاڑیاں بھی۔ ہوائی جہازوں کے ٹکٹ بھی! امریکہ کے سال بہ سال دورے بھی! خاندان کے خاندان پَل رہے ہیں جن کے نام پر سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے وہ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں! کیوں؟ کیا مدارس کے اساتذہ انسان نہیں؟ کیا پرائمری سکولوں کے اساتذہ سے بھی ان کی حیثیت کم ہے!
اور کیا کبھی مدارس کے طلبہ کے بارے میں کسی نے سوچا ہے؟ اگر میز کرسی پر بیٹھ کر قدوری اور کنز پڑھنا منع ہے تو مالکان کے دفتروں میں فرنگی صوفے کیوں ہیں؟ مالکان کفار کی بنائی ہوئی فراٹے بھرتی گاڑیاں کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اپنے لئے دبیز قالین اور اساتذہ اور طلبہ کیلئے چٹائیاں! واہ جناب! واہ! پھر بھی کورونا کا عذاب امریکہ کیلئے ہے!! خود‘ حساب نہ کتاب‘ نہ آڈٹ‘ نہ رپورٹ‘ نہ ٹیکس نہ کچھ اور۔ لَا تاکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکم بِالباَطل کے سارے پند و مواعظ دوسروں کیلئے۔ خود را فضیحت‘ دیگران ر انصیحت! ماں صدقے!!
یہ تو دنیا کی تذکیر ہے اور یاد دہانی!
آخرت میں ہم سے امریکہ کا پوچھا جائے گا نہ یورپ کا! یہود کا نہ ہنود کا! جو پوچھا جائے گا کیا اس کیلئے ہم تیار ہیں؟
اندر ہم دشمنیاں پالتے ہیں۔ باہر سے مسکراہٹیں بکھیر کر معانقے کرتے ہیں! نفاق ہم سے پناہ مانگتا ہے! معصیت ہم پر ہنستی ہے! گھر گھر قطع رحمی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر برسوں تک تعلقات کا خاتمہ یہاں روز مرہ کا معمول ہے! کوئی اتنا بھی کہہ دے کہ بھائی صاحب! آپ نے گاڑی غلط پارک کی ہے تو کھانے کو پڑتے ہیں۔ بنیادی ادب آداب تک عنقا ہیں! ایفائے عہد کی حالت یہ ہے کہ لوگ منتظر رہتے ہیں اور ہم وقتِ موعود پر سو رہے ہوتے ہیں۔ دلوں پر پڑنے والے سیاہ نقطے پھیل کر‘ ناقابلِ عبور دائروں میں تبدیل ہو چکے!
بیٹیوں‘ بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے میں کیا تھری پیس سوٹ اور کیا کلف لگے عمامے‘ سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہیں! ایسی ایسی وڈیوز موجود ہیں جن میں خدائی ٹھیکیدار مشورہ دے رہے ہیں کہ آبرو ریزی ہو تو عورت چُپ کر جائے! چھ چھ سال کی بچیاں‘ دوسروں کے گناہ دھونے کیلئے‘ ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں سے ''بیاہی‘‘ جاتی ہیں لاؤڈ سپیکروں میں ذرا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے نہ کسی مقدس عبا پر ہلکی سی شکن پڑتی ہے! غیرت کے نام پر قتل و غارت روکنے کا بل پیش ہوتا ہے بندہ و غنی‘ محمودو ایاز‘ منتخب ایوانوں میں ایک ہو جاتے ہیں۔ جس غیرت کا حکم اللہ نے دیا نہ رسولؐ نے‘ وہ غیرت نہیں کچھ اور ہے! اور تم کہاں کے معزز ہو؟؟ عزت تو اللہ کیلئے ہے اور اس کے رسولؐ کیلئے ہے! اور ان کیلئے جنہیں دوسروں کا نہیں‘ اپنی جواب دہی کا خیال ہے!
کفار کے ملکوں میں ہر شہری کو کورونا کے حوالے سے مالی امداد دی جا رہی ہے۔ گھر بیٹھے بیٹھے چیک مل رہے ہیں‘ بینکوں میں رقوم‘ خود بخود آ رہی ہیں۔ دھکم پیل نہ منت زاری! ہمیں چونکہ بخشش کی اور جنت کی گارنٹی ہے اس لئے ہم مستحقین کو ذلیل و رسوا کر کے ایک آدھ ٹکڑا دے رہے ہیں۔ ایک ایک ووٹ کیلئے کروڑوں دینے والے آج منہ دوسری طرف کئے بیٹھے ہیں!
ہم کتنے دیانت دار ہیں اور بحیثیت قوم کتنے خود دار ہیں‘ اس کا اندازہ ہماری کابینہ کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے! حکومت نئی ہو یا پرانی‘پرویز مشرف کی ہو یا زرداری صاحب کی یا میاں صاحبان کی یا عمران خان صاحب کی‘ کابینہ وہی ہوتی ہے! وہی زبیدہ جلال‘ وہی فہمیدہ مرزا‘ وہی شیخ رشید‘ وہی اعظم خان سواتی‘ وہی فردوس عاشق اعوان‘ وہی عمر ایوب خان! وہی محمد میاں سومرو! وہی فواد چودھری! ہماری بوتلیں وہی ہیں‘ ان کے اندر محلول بھی وہی صرف لیبل نئے ہوتے ہیں! ہم ہر بار الماریوں سے نکال کر وہی پرانے ڈھانچے عوام کو دکھاتے ہیں‘ فقط لبادے اُن پر نئے ڈالتے ہیں! ہم بقول عباس تابشؔ درختوں کو تو طعنے دیتے ہیں کہ ؎
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلتے رہتے ہیں
مگر جو ہمارے سامنے پارٹیاں بدلتے ہیں‘ دن رات مؤقف بدلتے ہیں‘ ہمارے سامنے ترازو میں اپنے ایمان تولتے ہیں‘ انہیں ہم کچھ نہیں کہتے! کہنا تو دور کی بات ہے‘ انہیں ہم سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں! معزز سمجھتے ہیں! ایلیٹ کا خطاب دیتے ہیں! اب بھی وقت ہے! اس وبا کو یاد دہانی سمجھو! کفار پر کیا بیتے گی‘ یہ تمہارا مسئلہ نہیں! فکر اس کی کرو کہ تم پر‘ ہم پر‘ کیا بیتے گی! کیا خبر یہ آخری وارننگ ہو ‘کیا عجب یہ آخری تنبیہ ہو! کاش اب تو ہم حرام کھانے سے باز آ جائیں! اب تو حقوق العباد کے قتل سے باز آ جائیں! اب تو گاہکوں‘ سائلوں‘ موکلوں‘ پڑوسیوں‘ رشتہ داروں کو اذیت پہنچانے سے رُک جائیں! اب تو ظاہر پر زور دینے کے بجائے اپنے اپنے باطن کو آراستہ کریں! اب تو دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے ایمان کی فکر کریں!
آخر گریبان تو ہماری قیمضوں میں بھی لگے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved