تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-04-2020

Out of the frying pan

انگریزی محاورے کے مطابق اُس شخص کی حالت قابلِ رحم ہے جو فرائی پین سے یوں باہر گرے کہ سیدھا آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجائے۔ اس سے ملتا جلتا محاورہ غالباًدنیا کی ہر زبان میں ہے‘ مثال کے طو رپر ہم اُردو میں کہتے ہیں آسمان سے گرا کھجور میں اَٹکا۔ یہی حال ہماری موجودہ حکومت کا ہے۔ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آجانے کی وجہ سے ہماری سیاسی سرزمین میں خم ٹھونک کر کھڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ(ن) او رپیپلز پارٹی) سے ہماری جان چھوٹی۔ کروڑوں افراد نے سکھ کا سانس لیا‘مگر تحریک انصاف کے اقتدار کو ایک سال گزر گیا تو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری‘ افراطِ زر‘ ذخیرہ اندوزی اور ہر قسم کے معاشی عذاب کی قیامت ٹوٹی تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم نے فرائی پین سے تو نجات حاصل کر لی ‘مگر ہم آگ میں گر کر برُی طرح جھلس گئے ہیں ۔گھروں اور کارخانوں میں استعمال ہونے والی بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے لے کر ڈیزل اور پٹرول تک‘ گندم‘ آٹا اور چینی سے لے کر دیگر اشیائے ضرورت تک‘ قیمتوں میں مسلسل اضافے نے نصف آبادی (جو خطِ افلاس کے نیچے زندہ رہتی ہے) کی پہلے سے ٹوٹی ہوئی کمر پر ناقابل ِبرداشت بوجھ لاد دیا۔ ظاہر ہے کہ چاروں طرف سے ایک ہی سوال اٹھا کہ اگرپرانی لوٹ مار کرنے والی سیاسی جماعتیں نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ دو صوبوں میں بھی اقتدار سے محروم ہو چکی ہیں اورنئی حکومت دیانت دار اور عوام دوست ہے تو پھر ہمارے معاشی حالات بد سے بدتر کیوں ہوئے؟ اگر اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی مفاد کے خلاف ایک بڑے جرم کا ارتکاب ہوا تو پھر صحافی (جو ہمارے قومی ضمیر کے ترجمان ہیں) بجا طو رپر پوچھتے ہیں کہ مجرم کون ہے؟
دھوکہ دینے والے مسکین لوگ نہیں بلکہ بازی گر ہیں جو دھوکہ دینے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ اُن کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ وہ کھلم کھلا دھوکہ دیتے ہیں مگر دیکھنے والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ دھوکہ دینے والے بازی گروں اور مداریوں نے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اُنہیں بصیرت اور بصارت سے محروم کر دیا۔مداری دن دیہاڑے سب کی آنکھوں کے سامنے دھوکہ دے رہے ہیں اور کسی کو اس واردات کے ارتکاب کا پتہ چلنا تو درکنار شک تک نہیں پڑتا۔
اس طولانی تمہید کے پس منظر میں آپ ہمارے موجودہ معاشی منظر نامے کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ہمارے دانشور‘ صحافی اور معاشی ماہرین بازی گروں کے دھوکہ کا پردہ چاک کرتے‘ حکومتِ وقت کے ترجمانوں نے ایک ایسا بیان دے دیا جسے چھ ہزار میل کے فاصلے پر پڑھنے والا کالم نگار بھی حیرت سے دم بخود ہو کر رہ گیا۔ حیرت انگیز بیان کیا تھا؟ صرف ایک لفظی اور وہ تھا ''مافیا‘‘ ۔قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لغت میں مافیا کا مطلب ہے مجرموں کا ٹولہ جو مکمل راز داری میں‘ زیر زمین رہ کر اور چھپ کر وار کرنے میں طاق ہیں۔ ایک سمندری مخلوق آکٹوپس کی طرح اُس کے بہت سے پنجے ہوتے ہیں جو اُس نے ہر شعبے میں گاڑے ہوتے ہیں۔ میں صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا‘ قریباً ایک سو سال پہلے امریکہ میں مافیا نے اپنے کارندوں کو فائر بریگیڈ میں بھرتی کروا دیا‘ تاکہ جب فائر انجن جلتی ہوئی عمارت تک جا پہنچیں تو وہ آگ بجھانے کیلئے جس پانی کے فوارے چلائیں اُس میں پٹرول کی اتنی آمیزش ہو کہ عمارت دیکھتے ہی دیکھتے جل کر راکھ ہو جائے اور عمارت کا مالک (مافیا کو اپناحصہ دار بنا کر) انشورنس کمپنی سے جَل کر تباہ ہو جانے والی عمارت کی قیمت وصول کر سکے۔ آج کے کالم کا موضوع ہی پاکستان میں مافیا کی کارکردگی ہے‘اس لیے یہ لفظ کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ مناسب ہو گا کہ کالم نگار کی طرح آپ بھی لغت کی طرف رُجوع کریں تاکہ آپ سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے بچشم خود مافیا کا مطلب پڑھ سکیں۔
اب ہم آگے بڑھیں تو دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا ایک سال گزرا‘ معاشی معاملات بگڑے‘ طلب و رسد میں توازن درہم برہم ہوا‘ وہی توازن جو 70 کی دہائی کے آخر تک قائم و دائم تھا۔ اس پر سرکاری ترجمانوں نے یہ انکشاف کیا کہ سارا کیا دھرا مافیا کا ہے۔ وزیراعظم تک یہ خبر پہنچی تو وہ بھی کہنے لگے کہ میں مافیا سے بھی نمٹ لوں گا۔ اس کا صرف ایک ہی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ وہ مافیا کو نیست و نابود کر کے دم لیں گے۔ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ بالکل اُسی طرح جیسے وہ کرکٹ کے کھیل کے میدانوں میں مخالف ٹیم کے بلّے بازوں کو دھول چٹاتے تھے اور اُنہیں قبل از وقت پویلین کا راستہ دکھاتے تھے۔ آخری اطلاعات آنے تک نہ وزیراعظم نے اور نہ کسی وزیر نے اور کسی سرکاری ترجمان نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ مافیا کن مجرموں پر مشتمل ہے؟ اس مافیا کا حدود اربعہ کیا ہے؟ حکومت اس مافیا کو شکست فاش دے گی تو کیونکر؟ دھوکہ (اور وہ بھی سر عام) دینے والے بازی گروں اور مداریوں کا پہلے پتہ کیوں نہ چلا؟ اب یہ راز سربستہ کس طرح فاش ہوا؟ کوئی معقول وجہ نہ تھی کہ کالم نگار سرکاری اعلان کی صداقت کو مان لیتا مگر آپ سے کیا پردہ‘ جب میں پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب بزدار صاحب کی کابینہ اور مرکزی کابینہ کو دیکھتا ہوں اور اُن کی باتیں سُنتا ہوں تو میرا حوصلہ مزید پست ہو جاتا ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ اگر واقعی آنے والے وقت میں ہماری معیشت پر قابض مافیا اور ہماری حکومت پر فائز تحریک انصاف کے وزرا کے درمیان مہا بھارت جتنا بڑا یُدھ پڑے گا (جس کا امکان صفر کے قریب ہے) تو اس میں حکومت کی کامیابی کے امکانات (ہماری سب کی نیک تمنائوں کے باوجود) ہر گز روشن نہیں۔یہ پیش گوئی کرنے کیلئے نہ نجومی ہونا ضروری ہے اور نہ ہی بلند پایہ تجزیہ کار ہونا۔ میری طرح کا ایک ''عام پینڈو‘‘ بھی جانتا ہے کہ طاقتور اور کمزور کے تصادم میں کون کامیاب ہوتا ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومت اُسی طرح کمزور اور مافیا اُسی طرح طاقتور ہے جس طرح چند صدیاں قبل ٹیوڈر خاندان کے زمانہ میں انگلستان کا بادشاہ غریب تھا اور چرچ امیر۔ اس تاریخی لڑائی میں بادشاہ جیتا تو انگلستان ایک طاقتور ملک بن کر اُبھرا۔ آپ جانتے ہیں کہ اب برطانوی چرچ (دوسرے رومن کیتھولک ممالک کی طرح) روم میں تخت نشین پوپ کے ماتحت نہیں ‘بلکہ سو فیصدی دیسی ہے اور Anglican Churchکہلاتا ہے۔ 
برائے مہربانی مندرجہ بالا سطور میں گپ شپ اور غیر سنجیدہ باتوں کو نظر انداز کرکے اس سنگین صورت حال کی طرف توجہ دیں کہ اب اس سچائی کا حکومت خود اعتراف کر چکی ہے کہ گندم ‘ چینی یا دوسری اجناس کی خرید و فروخت پر ارب پتی اور کھرب پتی افراد کا قبضہ ہے۔ اگر ہمارے ملک میں خوشحالی ‘ عوام دوستی اور عوام کے فلاح و بہبود کے چراغ کو روشن ہونا ہے تو پھر مافیا کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔ اگر ہماری سیاسی قیادت کے پاس دیانتداری اور نیک نیتی کے علاوہ سماجی عوامل اور جدلیات اور طبقاتی جنگ کا تھوڑا سا بھی شعور ہے تو اُسے پتہ ہونا چاہیے ‘بقول اقبال:ع
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بنیاد
اور یہ عصا صرف عوام کے پاس ہوتا ہے۔ کسانوں‘ مزدوروں اور محنت کشوں کے پاس۔اساتذہ‘ طلبا اور طالبات کے پاس۔ وکلا اور ڈاکٹروں کے پاس۔ قوت‘ اخوت‘ عوام اور انقلابی جدوجہد کی برکت سے مافیا کو شکست دی جا سکتی ہے۔ مافیا لاتوں کا بھوت ہے باتوں کا نہیں اور وہ لاتیں صرف عوام کے پاس ہیں جو مافیا کو مار بھگا سکتی ہیں۔ بقول مائوزے تنگ انڈوں کو توڑے بغیر آملیٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ عوامی خوشحالی‘ عوامی دیانتداری اور بامعنی تبدیلی کا ہر راستہ تحریر سکوائر اور شاہین باغ سے گزرتا ہے۔ ایک زبردست عوامی تحریک نے پاکستان بنایا تھا‘ اب ویسی ہی عوامی تحریک پاکستان کے غریب عوام کو بچائے گی۔ چاروں طرف چھائے ہوئے قبضہ گروپوں سے لے کر کورونا وائرس کی مہلک گرفت سے ہمیں صرف قوتِ اُخوتِ عوام بچا سکتی ہے۔ دوبارہ لکھتا ہوں: قوت ِاخوتِ عوام۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved