تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-04-2020

کائنات کیا ہے اور زندگی کیا ؟

میرا سوال تھا کہ کائنات کیا ہے اور زندگی کیا ؟ لیکن مجھے ہر ایک نے مختلف اور متصادم جواب دیااور اپنی اپنی جگہ وہ سب سچّے بھی ہیں ۔ 
سب سے پہلے میں نے ایک سائنسدان سے یہ سوال کیا۔ اس نے کہا کہ ابتدا میں مادہ جڑا ہوا اور بے حد کثیف تھا۔ کائنات کی یہ جو صورت ہم دیکھ رہے ہیں کہ اجرامِ فلکی ایک دوسرے سے لاکھوں میل کے فاصلے پہ تیر رہے ہیں ‘ اس کا تو تصور تک نہ تھا‘پھر ایک عظیم دھماکہ ہوا۔ روشنی کی رفتار سے سب کچھ بہنے لگا‘ پھر ایک ذرّہ ''ہگز بوسون‘‘ روبہ عمل آیا۔ وہ سیکنڈ کے ایک مختصر سے عرصے میں اپنا جلوہ دکھاتا اور مادے کو وزن عطا کر کے فنا ہو جاتا۔ وہ نہ ہوتا تو مادہ توانائی کی شکل میں محوِ سفر رہتا اور کبھی ٹھوس شکل اختیار نہ کر پاتا۔ اس نے کہا کہ یہ جو عظیم دھماکہ تھا‘ اس سے ہائیڈروجن نے جنم لیا۔ ہائیڈروجن کے انہی بادلوں سے ستارے وجود میں آئے ۔ ''ستارے‘‘اس نے کہا ''ستارے ہی وہ بھٹیاں ہیں ‘ جہاں ہائیڈروجن جیسے سادہ اور ہلکے عنصر سے لوہے جیسے بھاری عناصر نے وجود پایا۔ دوسرے الفاظ میں یہ وہ کارخانے ہیں ‘ جہاں موجودہ کائنات میں نظر آنے والی ہر شے بنی ہے ‘‘۔
پھر اس نے تفصیل بتائی ۔ ستارے کے مرکز میں غیر معمولی درجہ حرارت اوردبائو میں ہائیڈروجن کے ایٹم ہیلیم میں بدلتے ہیں ۔ یہی وہ عمل ہے ‘ جس میں وہ گیما ریز نامی وہ شعاعیں پھوٹتی ہیں ‘ جو سورج کو چمک عطا کرتی ہیں ۔ چند ارب سال میں ‘ جب تمام ہائیڈروجن ہیلیم میں بدل جاتی تو ستارے کی موت کا عمل شروع ہوتا۔ اب درجۂ حرارت اس قدر بڑھ جاتا کہ نسبتاً پیچیدہ عناصر بھی تشکیل پانے لگتے ۔ ہیلیم سے کاربن بنتااور کاربن سے آکسیجن۔ آخر کار لوہا وجود میں آتا اور تب ستارہ فنا ہو جاتا۔ ''ہمارے اجسام میں موجود تمام عناصر بھی اسی عمل میں بنے ؛لہٰذا ہم انسان ستاروں کی اولاد ہیں ‘‘۔
اس نے کہا کہ کائنات میں سب سے زیادہ اہم شاید وہ چیز ہے ‘ جسے ہم زندگی کہتے ہیں ۔بے جان عناصر کے برعکس ایک زندہ خلیہ اپنی نسل بڑھاتا ہے ۔ کرّہ ٔارض کی ابتدا میں مخصوص درجہ ٔحرارت اور دبائو میں امونیا اور میتھین جیسے کیمیکل پانی کے ساتھ اشتراک سے امائینو ایسڈ بنانے لگے اور وہ زندہ اجسام کا بنیادی جزو ہیں ۔ پہلا زندہ خلیہ بنااور اپنی افزائشِ نسل کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ زیادہ خلیات پر مشتمل زندگی جنم لینے لگی۔ ''یہ آج جو ہم جاندار دیکھتے ہیں ‘ بشمول انسان ‘یہ کھرب ہا کھرب خلیات پر مشتمل انتہائی پیچیدہ جاندار ہیں اور قدرت کی اربوں سالہ ریاضت کا نتیجہ ہیں ۔ سب سے خوبصورت زندگی وہ ہے ‘ جو ذہین ہے ۔ یہ راز اب تک منکشف نہیں ہو سکا کہ ایک خاص مخلوق ذہانت میں دوسروں سے آگے کیسے بڑھنے لگی ؛حتیٰ کہ وہ کرّۂ ارض کا مالک بن بیٹھی ۔بہرحال‘ یہ اقتدار لمحاتی ہے ۔ساڑھے چار ارب سال کی کرّہ ٔارض کی حیات میں انسانی عروج کے چالیس پچاس ہزار سال کوئی معنی رکھتے ۔ پھر یہ کہ کوئی بھی حادثہ آنِ واحد میں ہمیں مٹا سکتا ہے‘ مثلاً: ساڑھے چھ کروڑ سال قبل خلا سے دس کلومیٹر قطر کی ایک چٹان میکسیکو میں آگری ۔ اس ٹکرائو سے پیدا ہونے والی تباہی ‘ زلزلوں اور سونامی سے سیارہ ٔ ارض کی ستّر فیصد زندگی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ یہ وہ واحد واقعہ نہ تھا‘ جب زندگی اپنے مکمل خاتمے سے بمشکل تمام ہی بچ پائی ۔ 
پھر ایک عالم دین ہمارے پاس آبیٹھے ۔انہوں نے کہا ''ایک ملحد ذہن کی خرافات---خدا نے کائنات کو تشکیل کا حکم دیا اور آنِ واحد میں وہ بن گئی۔ کن فیکون۔ اتنی سی بات ہے ‘ جس کا تم نے بتنگڑ بنا لیا ہے ۔ اسی نے انسان کو عقل عطا کی اور اسے زمین پر اترنے کاحکم دیا‘‘۔ سائنسدان نے کہا کہ جو کچھ اس نے بتایا‘ وہ ثابت شدہ ہے ۔ کرّۂ ارض کی ابتدا کا ماحول پیدا کر کے مصنوعی طور پر امائینو ایسڈ بنائے جا چکے ہیں ۔اس نے عالم کہلانے والے کو ایک ایسا ضعیف الاعتقاد شخص قرار دیا‘ جسے نفسیاتی طور پر ایک مضبوط سہارا درکار تھا ؛چنانچہ اس نے اپنا سہارا بنا لیا۔عالم صاحب نے کہا کہ وہ اس کے کسی ثبوت کو نہیں مانتے اور بات ختم ہو گئی۔جب وہ لڑتے جھگڑتے وہاں سے چلے گئے تو ایک کم عمر سا نوجوان میرے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ وہ ایک ایسے عالم اور صوفی کا شاگرد ہے ‘ جو زندگی کو آسمان سے دیکھتا ہے ۔ جس نے ساری زندگی تحصیل ِ علم میں گزاری ہے اور جو بغیر کسی تعصب کے ‘ ثبوت اور دلیل کی بنیاد پر مذہب اور سائنس کا مطالعہ کرتاہے ۔ اس نے کہا کہ حضرت نے الہامی کتب میں درج شدہ حقیقت بتائی۔سائنس دان نے جو کچھ کہا ‘ وہ تفصیلی طریقہ ٔ کار‘ یعنی (Procedure)ہے اور کچھ نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ خدا ''کن ‘‘ کہتا ہے‘ تو جو وہ چاہتاہے‘ وہ ہو جاتاہے ‘لیکن وہ ہر چیز کو ایک تدریجی عمل میں تخلیق کرتاہے ۔ کروڑوں سال ہائیڈروجن جمع ہوتی ہے تو ایک سورج پیدا ہوتا ہے ۔ کرّہ ٔ ارض کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے‘ لیکن انسان کی عمر صرف تین لاکھ سال ہے۔ اس سے پہلے زمین کو انسان کی آمد کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ 
یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک حکمران فخریہ بتائے کہ اس نے ملک میں موٹر وے تعمیر کرائی۔ ادھر سائنسدان کہتاہے کہ پہلے زمین ہموار کی گئی تھی ‘ پھر بجری منگوائی گئی۔ شواہد کا جائزہ لیتا ہوا ‘وہ تفصیلات میں اس قدر کھو جاتاہے کہ کسی منصوبہ ساز کاتصور ہی گم ہو جاتاہے ۔ ادھر عالم دین کی تمام توجہ خدا پہ مرکوز ہے اور وہ کائنات کی کسی تدریجی تعمیر کو ماننے پہ تیار نہیں ۔ 
اس سارے قصے سے معلوم یہ ہوا کہ ہر ایک کا سچ اپناہے اور اس سچ کی تعمیر میں اس کی ذاتی زندگی کا دخل بے حد زیادہ ہے ۔
پوری تصویر کوئی نہیں دیکھتا ۔ ایک شاعرکی زندگی غموں اور مسرّتوں کی تصویر کشی تک محدود ہے ۔ ایک تاریخ دان دو چار بادشاہوں کی کہانیاں بیان کرے گااور ایسی کہانیاں ہر سو بکھری ہیں ۔رہے سائنسدان تو انہوں نے پوری تصویر کیا دیکھنی ؟ ان کی ایک عظیم اکثریت ساری زندگی ایک چھوٹے سے ذرے پر سوچتی رہتی ہے۔ تب کہیں جا کر وہ ایک نئی ایجاد دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ وہ ایک ہی ذرے پہ پچاس سال سوچتے رہتے ہیں تو پھر ایک ایجاد دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ تو کامیاب کون ہے ؟ وہ ‘ جو کائنات کو تھوڑا سا سمجھ لے اور کچھ اپنے اند رجھانک سکے۔ جو دو بادشاہوں کی جنگوں میں نہ کھو جائے ۔ جسے معلوم ہو کہ ایک چھوٹی سی جبلّت انہیں غلبے پہ اکساتی ہے ۔ جو کائنات میں بکھری نشانیوں پہ غور کرتا ہوا‘ خالق تک پہنچ جائے ۔ پھر وہ اپنی اوقات کے مطابق ایک ذرا سا تعلق اس عظیم منصوبہ ساز سے استوار کر سکے۔ زندگی میں جو آزمائشیں درپیش ہوں ‘ ان سے وہ صبر اور عقل کی مدد سے تدبیر کرتا ہوا گزر جائے اور ایک دن جان جانِ آفریں کے سپرد کر دے ۔اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved